۷۔نفس رسول:
حضرت امیر المومنین علیہ السلام ،نفس حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھونے کے لحاظ سے بھی باقی لوگوں سے ممتاز ھیں آیت مباھلہ اور دوسری آیات کا بھی یھی فےصلہ ھے کہ فقط نفس رسول آپ (ع) ھی ھیں جیسا کہ سورہ ھود میں ارشاد رب العز ت ھے ۔
< اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّہِ وَ ےَتْلُوْہُ شَاھِد مِنْہُ۔>[19]
کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ھو اور اس کے پیچھے ایک گواہ آتا ھو جو اس کا جز ھو۔
اسی طرح عمران بن حصےےن کی حدیث سے بھی یھی واضح ھوتا ھے۔ عمران کھتا ھے ۔
جس دن لوگ جنگ احد میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہاء چھوڑ کر بھاگ گئے تھے تو صرف حضرت علی علیہ السلام اپنی تلوار تھامے آپ کے سامنے موجود تھے۔
حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور آپ سے فرمایا:
آپ (ع)بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نھیں بھا گ گئے؟
حضرت امیر (ع) نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں مسلمان ھونے کے بعد کافر ھو جاتا۔ حضرت رسول اکرم نے ایک گروہ کی طرف اشارہ کیا جو پہاڑ سے اتر رہاتھا حضرت علی علیہ السلام نے ان پر حملہ کیا اور وہ بھاگ گئے۔ پھر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک اور لشکر کی طرف اشارہ کیا۔
آپ (ع)نے ان پر بھی حملہ کیا اور وہ بھی بھاگ گئے ۔حضرت(ص) نے ایک اور گروہ کی طرف اشارہ فرمایا آپ (ع)نے اس گروہ پر بھی حملہ کیا اور انھیں بھی بھگا دیا۔ اس وقت لوگوں نے کہایا رسول اللہ(ص) ،حضرت علی علیہ السلام کا اپنی جان اور نفس کی پروا کیے بغیر آپ (ص)کے ساتھ اس حسن سلوک پر ملائکہ تعجب کرتے ھیں اور ھم بھی اس کے ساتھ متعجب ھیں ۔
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس میں کسی قسم کے تعجب کی بات نھیں کیونکہ ”و ھو منی وانا منہ “ وہ مجھ سے ھیں اور میں اس سے ھوں۔اس وقت حضرت جبرئےل علیہ السلام نے کھاکہ میں آپ دونوں سے ھوں۔[20]
۸۔ حدیث سد ابواب :
لوگوں نے اس بات کا مشاھدہ کیا حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیث سد ابواب بیان ھوئی۔ جابر انصاری کھتے ھیں کہ میں حضرت رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا آپ(ص)نے باب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا:
اس کے علاوہ سب دروازے بند کر دےے جائیں۔
صاحب کفا ےة الطالب کھتے ھیں یہ حدیث حسن اور بھت ھی عالی ھے ۔ اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لئے دروازے بند کرنے کا حکم دیا تھاکیونکہ یہ دروازے لوگوں کے گھروں میں کھلتے تھے اور مسجد کی طرف سے ان کے گزرنے کا راستہ تھا۔
جب اللہ تبارک تعالی نے حےض اور جنابت کی حالت میں مسجدوں میںداخل ھو نے سے منع فرمادیا تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مجنب اور حائض کے مسجد میں داخلے اور مسجد میں ٹھھرنے پر پابندی لگا دی۔ اور سب دروازے بند کروا دیے فقط حضرت علی علیہ السلام کی یہ خصوصیت تھی کہ ان کے لئے ان مقامات پر آنا جانا مباح تھا اور قرآن مجےد میں اللہ تعالی نے آپ کی تطھیر کو اس طرح بیان فرمایا ھے۔
<إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا۔>
اے اھل بیت اللہ چاھتا ھے کہ آپ سے رجس کو دور رکھے اور آپ کو اس طرح پاک رکھے جس طرح پاک رکھنے کا حق ھے ۔[21]
اس سلسلے میں لوگ مختلف باتیں کرنے لگے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ھوئے اور اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا اما بعد میں نے ھی باب علی (ع) کے علاوہ سب دروازے بند کرنے کا حکم دیا ھے اوراعتراض کرنے والوں سے کھا:
وا للّہ ما سددتہ ولافتحتہ و لکن امرِ ت ُ بشیءٍ فا تبعتہ۔
خدا کی قسم میں اپنی مرضی سے نہ کوئی دروازہ بند کرتا ھوں اور نہ اپنی مرضی سے کوئی دروازہ کھو لتا ھوں مگر جس طرح کھاجاتا ھے میں اس کی پیروی کرتا ھوں۔[22]
۹۔سورہ برائت کی تبلیغ :
بے شک ان احادےث اور روایات میں صا حبان عقل کے لئے عبرت ھے حضرت ابو بکر پھلے ایمان لانے والے میں اور اسلام لانے والے گروہ میں شمار ھوتے ھیں۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو اھل مکہ کی تبلیغ کے لئے سورہ برائت دے کر بھےجا کہ آئند ہ سال مشرک حج نھیں کر سکتے اور خا نہ کعبہ کا عریاں طواف نھیں کر سکتے‘ جنت میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی داخل نھیں ھو گا‘ جو ان کے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان معاھدہ ھوا ھے اس کی ایک مدت معےن ھے اللہ تعالی اور اس کا رسول مشرکوں سے براٴت کرتا ھے۔
حضرت نے تبلیغ کی اس مھم پر حضرت ابو بکر کو روانہ کردیا۔پھر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا یا علی (ع) آپ فورا ًابو بکر تک پھنچےں اور اس کو میرے پاس واپس بھےج دیں اور اس پیغام کو اس سے لے کر آپ (ع) خود اھل مکہ کی طرف جائیں۔[23]
سبط ابن جوزی نے اس کے بعد اس روایت کو آخر تک اس طرح بیان کیا ھے کہ حضرت ابو بکر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لو ٹ آئے اور کھاکہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوںکیا میرے بارے میں خداکا کوئی حکم نازل ھوا ھے آپ نے فرمایا نھیں فقط اتنی سی بات ھے کہ تبلیغ کے اس فرےضہ کو میری طرف سے کو ئی دوسرا انجام نھیں دے سکتا مگر وہ شخص جو مجھ سے ھو۔[24]
یہ وہ خاص مقام اور منزلت ھے جو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دوسروں سے ممتا ز کردیتی ھے اور اس مو ضو ع پر تدبر کرنے والے اس عمیق معنی کی گھرائی تک پھنچ سکتے ھیں۔
۱۰۔آپ کی شان میں کثیر آیات کا نزول :
حضرت امیر لمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا تمام اصحاب اور تمام لوگو ں سے ممتاز ھونے کی ایک وجہ یہ ھے کہ آپ کی فضیلت اور شان میں کثرت سے آیات نازل ھو ئی ھیں جن میں اللہ کے نزدیک آپ(ع) کا خا ص مقام اور منزلت ظاھر ھوتی ھے ابن عساکر ابن عباس سے روایت بیان کرتے ھیں کہ اللہ کی کتاب میں جتنی آیات حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھو ئی ھیں اتنی کسی اور کے لئے نازل نھیں ھوئیں۔ اور ابن عساکر ابن عباس سے یہ بھی بیان کرتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تےن سو آیا ت نازل ھو ئیں۔[25]
طبرانی اورابن ابی حاتم جناب ابن عباس سے روایت بیان کرتے ھیں ۔ یاایھاالذین امنو ا ۔اللہ تعالی نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کیا کیونکہ آپ(ع) مومنوں کے امیر اور سردار ھیں اور اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو اور مقام پر رکھا جب کہ حضرت علی علیہ السلام کا ذکر فقط خیر کے ساتھ کیا۔[26]
۱۱۔آپ کے لئے سورج کا پلٹنا :
ھم حضرت علی علیہ السلام کے امتیازات کا کیا ذکر کریں اور آپ کی کس کس خصوصیت کو بیان کریں بے شک آپ کے فضائل روز روشن کی طرح عیاں ھیں ھمارا کام تو فقط صاحبان عقل و علم کو یاد دلانا ھے ۔
ابن حجر صواعق محرقہ میں کھتے ھیں کہ آپ(ع) کے کرامات و معجزات روز روشن کی طرح واضح ھیں اور ان میں سے ایک یہ ھے کہ آپ (ع)کے لئے سورج پلٹا جب انبیاء کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ میں تشریف فرما تھے اور آپ کا سر اقدس حضرت علی علیہ السلام کی گود میں تھا اورآپ پر وحی نازل ھو رھی تھی حضرت علی علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف تھے آپ نے نماز عصر نھیں پڑھی تھی کہ سورج غروب ھو گیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔
بارالہا!
اگر یہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھے توان کے لئے سورج کو پلٹا دے چنانچہ سورج غروب ھونے کے بعد دوبارہ طلوع ھو گیا ھے، ابن حجر کھتے ھیں کہ طلحاوی اور قاضی اپنی کتاب شفا میں اس حدیث کی صحت کے قائل ھیں اور شیخ الاسلام ابو زرعہ (الرازی)نے ا س حدیث کو حسن کھاھے۔[27]
ھم یہ عرض کرتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے تمام فضائل کے باوجود کیا اب بھی غیروں کو ان کے برابر لایا جاسکتا ھے ؟
ابی لیلہ غفاری کھتے ھیں کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا:
ستکون من بعدی فتنہ فاذا کان ذلک فآلزموا علي بن اٴبيطالب اِنّہ اٴوّلُ مَن یراني واٴوّلُ مَن ےصافحُني یومَ القیامہ وھو معي في السماء ِالعلیا و ھو الفاروق بین الحق والباطل۔
عنقریب میری وفات کے بعدایک فتنہ برپا ھوگا جب اس طرح ھو تو تم حضرت علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کے دامن سے متمسک رھنا کیونکہ یہ سب سے پھلے مجھ سے ملاقات کریں گے اور قیامت کے دن سب سے پھلے مجھ سے مصافحہ کریں گے اور میرے ساتھ آسمان ا علیٰ پر ھونگے اور یھی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والے ھیں ۔[28]
۱۲۔حق اور علی ساتھ ساتھ:
حق علی کے ساتھ اور علی حق کے ساتھ ھیں سیرت حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف متوجہ ھونے سے آپ کو بھت سے شواھد مل جائیں گے جو آپ کے سب سے افضل ھونے اور حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد مقام خلافت کے زیادہ حق دار ھونے پر دلالت کرتے ھیں اس سے آپ کو حق کا علم ھو جائے گا ترمذی اپنی صحیح میں حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:
رحم اللّہ علیاً اللّھم ادرِ الحقَ معہ حیث دار ۔
اللہ تبارک و تعالی علی(ع) پر رحم کرے، پروردگاراحق کو ادھر موڑدے جس طرف یہ رخ کریں۔[29]
فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں بسم اللہ کی تفسیر بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں:
جس نے اپنے دین میں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اقتداء کی یقینا وہ ھدایت یافتہ ھے۔ اس کی دلیل حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ھے:
اللھم اٴدر الحق مع علی حیث دار
پروردگارا! جدھر جدھر علی جائیں حق کو ادھر موڑ دے ۔
قارئین کرام !یہاں مجھے کھنے دیجیے کہ اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسا کوئی شخص نھیں تھا جس کے اس قدر فضائل و امتیازات ھوں انصاف پسند افراد کسی بھی خصوصیت میں دوسروں کا مقابلہ حضرت علی علیہ السلام سے نھیں کیاکرتے، چاھے وہ حق خلافت ھویا طہارت و عصمت علی علیہ السلام ۔
۱۳۔محبت علی:
زھری کھتے ھیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کھتے ھوئے سنا ھے مجھے اس اللہ کی قسم ھے جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا:
عنوان صحیفة الموٴمن حبُ علي بن اٴبي طالب ۔[30]
مومن کے صحیفے کا عنوان( حضرت) علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت ھے ۔
جناب ابن عباس کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حب عليبن اٴبي طالب یاٴکل السیئات کما تاٴکل النارُ الحطب۔[31]
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت گناھوں کو اس طرح کھا جاتی ھے جس طرح آگ خشک لکڑی کو راکھ بنا دیتی ھے ۔
حضرت ابن عباس کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دےکھ کر ارشاد فرمایا :
لایحبک اِلا موٴمن ولا یبغضُک اِلّا منافق مَن اٴحبک فقد اٴحبني و مَن اٴبغضک فقد اٴبغضني وحبیبی حبیب اللہ و بغےضي بغیض اللہ، ویل لمن اٴبغضک بعدي۔
آپ(ع) سے فقط مومن ھی محبت کرسکتا ھے اور فقط منافق ھی آپ سے بغض رکھتا ھے۔
جس نے آپ (ع)سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے آپ کے ساتھ بغض رکھا۔ اس نے میرے ساتھ بغض رکھا میرا محب اللہ کا دوست ھے اور میرے ساتھ بغض رکھنے والا اللہ کے ساتھ بغض رکھنے والا ھے۔ اس شخص کے لئے ھلاکت وتباھی ھے جو میرے بعد آپ(ع) کے ساتھ بغض رکھے گا۔[32]