اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت

خوارج کی مخالفت کی وجہ اور اس کی وضاحت

امام علیہ السلام سے خوارج کی مخالفت کی وجہ اور معاویہ کی مخالفت کی وجہ میں بہت فرق تھا، معاویہ نے عمر کی خلافت کے وقت سے ھی شام کی حکومت کی خود مختاری کے لئے مقدمات فراھم کرتے تھے اور خودکوشام کامطلق العنان حاکم (ڈکیٹیٹر) سمجھتا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد جب اسے خبر ملی کہ امام علیہ السلام شام کی حکومت سے اس کو بر طرف کرنا چاہتے ھیں تو وہ مخالفت کرنے کے لئے اٹھ گیا پھلے تو طلحہ وزبیر کو ورغلایا پھر جنگ صفین برپاکر کے امام علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا اور پھرمنحوس سیاست کے ذریعہ قرآن کو نیزہ پر بلند کر کے امام علیہ السلام کے لشکر میں اختلاف وتفرقہ پیدا کر دیا اور بالآخر امام علیہ السلام اسی اختلاف کی وجہ سے قربان ھوگئے۔

لیکن خوارج ظاہر بین تھے اور آج کی اصطلاح میں خشک مقدس تھے اور اپنی جہالت ونادانی اور سطحی فکر ونظر اور اسلام کے اصول و مبانی سے واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے امام علیہ السلام کی مخالفت کرنے لگے، اورکھوکھلے اور بے بنیاد علل و اسباب گڑھ کر خدا کے چراغ ہدایت کے مقابلہ میں آگئے اور اس الٰھی چراغ کوخاموش کرنے کے لئے ہزاروں پاپڑ بیلے یہاں تک کہ خود کو ھلاک کرنے کے لئے بھی تیار ھو گئے۔

معاویہ اور خوارج کے درمیان اسی فرق کی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان پرفتح وکامیابی حاصل کرنے کے بعد فرمایا: ” لاٰ تقاتلوا الخوارجَ بعدی، فلیسَ مَن طَلبَ الحقَّ فاٴخطاٰ ہ کَمَن طلب الباطل فادرکَہ“‘[1]، خبردار میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا کیونکہ جو حق کا طالب ھے اور اسے حاصل کرنے میں کسی وجہ سے اس سے غلطی ھوجائے وہ اس شخص کے مثل نھیں ھے جس نے باطل کو چاہا اور اسے پا

بھی لیا۔( یعنی معاویہ اور اس کے اصحاب)

     خوارج کی مخالفت کے تمام عوامل و اسباب کی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ھے کہ یہ لوگ ، شامیوں کے برخلاف ہرگز جاہ ومنصب اور حکومت کے طلبگار نہ تھے بلکہ ایک خاص کج فکری اور ذہنی پستی ان پرمسلط تھی ۔ یہاں ھم خوارج کے اھم ترین اعتراضات نقل کررھے ھیں۔

۱۔دین پر لوگوں کی حکومت

وہ لوگ ھمیشہ یہ اعتراض کررھے تھے کہ کس طرح سے ممکن ھے کہ دومخالف گروہ کے دو آدمی اپنے اپنے سلیقے کے اعتبار سے مسلمانوں کی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنی رائے کو مسلمانوں کے معین شدہ رہبر کی رائے پر مقدم کریں ، دین اور مسلمانوں کا مقدر اس سے بلند وبرتر ھے کہ لوگ اپنی ناقص عقلوں سے ان کے اوپر حکومت کریں ۔وہ لوگ مستقل کہہ رھے تھے: ” حکم الرجال فی دین اللّٰہ “ یعنی علی نے لوگوں کو دین خدا پر حاکم قرار دیاھے۔

یہ اعتراض اس بات کی حکایت کرتاھے کہ وہ لوگ حکمین کے فیصلے کے قبول کرنے کے شرائط سے باخبر نہ تھے  اور ان لوگوں نے خیال کیا کہ امام علیہ السلام نے ان دونوں کو مسلمانوں کی قسمت معین کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیا ھے کہ جس طرح چاھےں ان کے لئے حکم معین کریں۔ امام علیہ السلام نے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا:”اِنا لم نحکّم الرجالُ وانّما حکّمنٰا القرآنَ، ھذا القرآن انّما ھو خطٌّ مستورٌ بین الدَّفتین لا ینطقُ بلسانٍ ولابدَّلہ من ترجمان ، وانما ینطق عنہ الرجالُ ، ولمّٰا دَعانَا القَومُ اِلیٰ ان نُحکَّم بیننَا القرآن لم نَکُنِ الفریقَ المتولّي عن کتاب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ، وقد قال اللّٰہ سبحانہ: ” فان تنازعتم فی شیءٍ فَردَّ وہُ اِلَی اللّٰہ والرّسول ِ “فرُدُّہُ  اِ لٰی اللّٰہ اٴن نَحکُمَ بکتابِہِ ، وردّہُ اِلَی الرّسول اَن ناخذ بسنّتِہِ ، فاذا حُکِمَ بالصّدق فی کتابِ اللّٰہ فنحن اٴحقُّ الناس بہِ وان ُحکِمَ  بسنةِ رسول اللّٰہ (ص) فنحن اٴحقُّ الناس وَ اَولاَ ھُم بِھا۔[2]

ھم نے لوگوں کو نھیں بلکہ قرآن کو حَکَم مقرر کیا ھےاور یہ قرآن دودفتیوں کے درمیان لکھی ھوئی کتاب ھے جو زبان سے نھیں بولتی اس کے لئے ترجمان ضروری ھے اور وہ ترجمان آدمی ھی ھوتے ھیں جو قرآن کی روشنی میں کلام کرتے ھیں جب قوم (اھل شام ) نے ھم سے خواہش کی کہ ھم اپنے اور ان کے درمیان قرآن مجید کو حکم قرار دیں تو ھم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منحرف ھوں حالانکہ خداوند عالم فرماتا ھے: ”اگر تم کسی بات میں اختلاف کرو تو خدااور رسول کی طرف اسے پھیر دو“ ۔خدا کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ھیں کہ ھم اس کی کتاب کو حَکَم مانیں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے یہ معنی ھیں کہ ھم ان کی سنت کو اختیار کریں ، پس اگر سچائی کے ساتھ کتاب خدا سے حکم حاصل کیا جائے تو اس کی رو سے لوگوں میں سب سے زیادہ ھم اس کے حق دار ھیں اور اگر سنت رسول کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ھم سب سے زیادہ اس کے اھل ھیں ۔

امام علیہ السلام ایک دوسرے خطبہ میں اسی جواب کو دوسری عبارت میں بیان کرتے ھیں اور فرماتے ھیں : ” دونوں حَکم کو اس لئے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ انھیں چیزوں کو زندہ کریں جنھیں قرآن نے زندہ کیا ھے اور جن چیزوں کو قرآن نے ختم کیا ھے انھیں یہ بھی ختم کر دیں (حق کو زندہ اور باطل کو نابود کردےں) اور قرآن کا زندہ کرنا اس پر اتفاق کرناھے اور اسے ھلاک کرنا اس سے دوری اختیار کرنا ھے پس قرآن اگر ھمیں ان (شامیوں )کی طرف کھینچ لے جائے تو ھم ان کی پیروی کریں گے اور اگر وہ انھیں ھماری طرف کھینچ لائے تو انھیں ھماری پیروی کرنی چاھیے ، تمہارا برا ھو، میں نے اس بات میں کوئی غلط کام تو نھیں کیا نہ تمھیں دھوکہ دیا ھے اور نہ کسی بات کو شبہہ میں رکھا ھے ۔[3]

۲۔   وقت کا تعیین

خوارج کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ کیوں فیصلہ کرنے والوں کے لئے وقت معین ھوا ھے اور یہ طے پایا ھے کہ دونوں (عمروعاص اورابوموسیٰ )غیر جانب دار علاقہ (دومة الجندل) میں ماہ رمضان ختم ھونے تک  اختلاف کے بارے میں اپنی اپنی رائے پیش کردیں اور یہ کام میدان صفین ھی میں اس دن کیوں نھیں انجام دیا گیا جس دن قرآن کو نیزہ بر بلند کیا گیا تھا؟!

حقیقتاً اس طرح کے اعتراضات کیا ان کی جہالت پر دلالت نھیں کرتے ؟ کیا ایسا عظیم فیصلہ ، اوروہ بھی اس وقت دونوں گروہ کا ہاتھ کہنی تک ایک دوسرے کے خون میں ڈوبا ھواتھا، کوئی آسان کام تھا کہ ایک دو دن کے اندر فیصلہ ھوجاتا اور دونوں گروہ اُسے قبول کرلیتے؟ یا اس کے لئے صبر وضبط کی ضرورت تھی تاکہ جاھل کی بیداری اور عالم کے استحکام کا امکان زیادہ پیدا ھو جائے اور امت کے درمیان صلح کا ذریعہ اور زیادہ فراھم ھوجائے۔

امام علیہ السلام اس جواب کے اعتراض میں فرماتے ھیں : ” وَاماقَو لکم:لم جعلت بینکم و بھینم  اٴجلاً فی التحیکم؟فانما فَعَلتُ ذالک لِیتبیّّنَ الجَاھِلُ ویتثبّتَ العالم ولَعلَّ اللّٰہ اَن یصلحَ فی ھذہِ الھُدنَةِ اٴمرھذہ الامةِ “[4]اب تمہارا یہ کہنا کہ آپ نے اپنے اور ان کے درمیان تحکیم کی مھلت کیوں دی تو میں نے یہ موقع اس لئے دیا کہ جاھل تحقیق کرے اور عالم ثابت قدم ھوجائے ، اور شاید خداوند عالم اس مھلت کے ذریعے اس امت کے حالات کی اصلاح فرمادے۔

۳۔ حاکمیت انسان اور حاکمیت خدا کے انحصار سے تارض

خوارج نے امام علیہ السلام سے مخالفت کے زمانے میںآیة ” لاحکم الّا لِلّٰہ “ کا سہارا لیا اورحضرت کے کام کو نص قرآن کے خلاف شمار کیا اور یہ نعرہ لگایا: ”لاحکم الّا لِلّٰہ لا لَکَ و          لا لِاَصحابک یا عليُّ“یعنی حاکمیت خدا سے مخصوص ھے نہ کہ تم سے اور نہ تمہارے ساتھیوں سے اور یہ نعرہ جیسا کہ بیان کیا گیا ھے قرآن سے اقتباس ھے جو سورہ یوسف آیت نمبر ۴۰ اور ۶۷ میں وارد ھوا ھے اور اس کا مفھوم توحید کے اصول میں شمار ھوتاھے اور اس بات کی حکایت کرتاھے کہ حاکمیت اور فرمانروائی ایک حقیقی اور اصل حق ھے جو خدا سے مخصوص ھے اور کوئی بھی انسان اس طرح کا حق دوسرے انسان پر نھیں رکھتا۔ لیکن خدا میں حاکمیت کا منحصر ھونا اس چیز کے منافی نھیں کہ کوئی گروہ ایک خاص ضوابط کے ساتھ جن میں سب سے اھم خداکی اجازت ھے دنیا پر حکومت کرے ، اورخدا کی حاکمیت کی تجلی گاہ ھوجائے اور کوئی بھی عقلمند انسان یہ نھیں کہہ سکتا کہ اجتماعی زندگی، بغیر حکومت کے ممکن ھے ، کیونکہ وظائف و فرائض کاانجام دینا، اختلافات کا حل ھونا اور لڑائی جھگڑے کا ختم ھوناوغیرہ یہ تمام چیزیں ایک حکومت کے سایہ میں انجام پاسکتی ھےں ۔

اما م علیہ السلام نے جب ان کے نعرہ کو سنا تو فرمایا ، ہاں یہ بات صحیح ھے کہ حکومت کاحق صرف خدا کو ھے لیکن اس حق کی بات سے باطل مراد لیا جا رہا ھے: ” کلمة حقٍ یراد بھا الباطل، نعم انّہ‘ لاحکم الّٰا لِلّٰہ ولکن ھولاءِ یقولون لا امراة الا لِلّٰہ وانَّہ لابُدَّ لِلنَّاسِ مِن اَمیرٍ بّرٍ او فاجر یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر “[5]

”بات حق ھے مگر اس سے مراد باطل لیا جارہاھے ہاں بے شک حکم خدا ھی کے لئے ھے لیکن یہ لوگ تو کہتے ھیںکہ امیر (حاکم) بھی اس کے سوا کوئی نھیں ھے حالانکہ لوگوں کے لئے ایک نہ ایک امیر (حاکم ) کا ھونا لازم ھے نیکو کار ھویا فاسق وفاجر ، تاکہ اس حکومت میں مومن عمل (خیر ) کرے  اور کافر اس میں اپنے پورے پورے حقوق حاصل کرے “۔

اگر حکومت نہ ھوتو امن اور چین نھیں ھوگا اور ایسی صورت میں نہ مومن اپنے کار خیر میں کامیاب ھوسکے گا اور نہ کافر دنیاکی زندگی سے فیضیاب ھوسکے گا اور اگر حقیقت میں مقصد، حکومت کا تشکیل نھیں دینا ھے تو اس صورت میں پیغمبراسلام(ص) اور شیخین کی حکومت کی کس طرح توجیہ کریں گے؟

خوارج اپنے عقیدہ و عمل میں ھمیشہ کشمکش میں مبتلا تھے ، ایک طرف سمجھتے تھے کہ اجتماعی زندگی ایک با اثر مدیر اور رہبر کے بغیر ممن نھیں ھے اور دوسری طرف اپنی کج فھمی کے زیر اثر ہر طرح کی حکومت کی تشکیل کو حاکمیت خدا کے انحصار کے خلاف سمجھتے تھے ۔

 اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ھے کہ یہ کہ خوارج نے خود اپنے کام کے آغاز میں اپنے گروہ کے لئے حاکم کا انتخاب کیا !  طبری لکھتاھے : ماہ شوال   ۳۸  ہجری میں خوارج کے کچھ گروہ عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ھوئے اور عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا: یہ بات شائستہ نھیں ھے کہ لوگ خدا پر ایمان لائیں اور حکم قرآن کو تسلیم کریں اور دنیا کی زندگی ان لوگوں کی نظر میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر سے زیادہ باعث مشقت ھو ، پھر اس کے بعدحرقوص بن زھیر اور حمزہ بن سنان نے بھی گفتگو کی، اور تیسرے نے اپنے کلام کے آخر میں کہا :فولوا اٴمرکم رجلاً فانہ لابد لکم من عمادٍ وسنادٍ ورایة تحفون بھا وترجعون الیھا۔[6]

تم کسی شخص کو اپنا امیر اور حاکم بناؤ اس لئے کہ تمہارے لئے ایک ستون ، معتمد اور جھنڈا ضروری ھے جس کے پاس آؤ اور رجوع کرو۔



[1] نہج البلاغہ خطبہ ۵۸ (عبدہ)۔

[2] نہج البلاغہ: خطبہ ۱۲۱۔

[3] نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۳،۱۷۔

[4] نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۱

[5] نہج البلاغہ خطبہ ۴۰

[6] تاریخ طبری ج۶، ص ۵۵

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ولایت علی ع قرآن کریم میں
موعود قرآن كی حكومت اور عالمی یكجہتی كا دور
عظمت صديقہ طاہرہ زينب کبريٰ
دعائے استقبال ماہ رمضان
تلاوت قرآن کی شرائط
توبہ'' واجب ِفور ی''ہے
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
شرک اور اس کی اقسام
فرامین مولا علی۳۷۶ تا ۴۸۰(نھج البلاغہ میں)
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام

 
user comment