اردو
Monday 30th of December 2024
2
نفر 0

ربّ العا لمین کے بعض اسماء اور صفات

 

١۔اسم کے معنی

اسم ؛قرآن کی اصطلاح میںاشیاء کے صفات، خواص اور ان کی حقیقت بیان کرنے والے کے معنیٰ میں ہے، اس بنا پر جہاںخدا وند عالم فرماتا ہے۔

(وعلمّ آدم الأسماء کلّھا)(١)

اور خدا وند عالم نے سارے اسماء کا علم آدم کو دیا !

اس کے معنی یہ ہوں گے، خدا وند عالم نے اشیاء کی خاصیتوں اور تمام علوم کا علم آدم کو سکھا یا، جز علم غیب کے کہ کوئی اس میں خدا کا  شریک نہیں ہے مگر یہ کہ کسی کو وہ خود چاہے اور بعض پوشیدہ اخبار اس کے حوالے کر دے۔

٢  - ٣- رحمن ورحیم کے معنی

قرآن کریم میں خدا وند عالم کے اسماء اور مخصوص صفات ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض دنیوی آثار بعض اخروی اور بعض دینوی اور اخروی دونوں آثار کے حامل ہیں، منجملہ ان اسماء اور صفات کے'' رحمن ورحیم'' جیسے کلمات ہیںجن کے معنی تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے۔

لغت کی کتابوں میں'' رحم ، رحمت اور مرحمت'' مہر بانی، نرمی اور رقت قلب کے معنی میں ذکر ہوئے ہیں '' مفردات الفاظ القرآن'' نامی کتاب کے مصنف راغب کا '' رحم'' کے مادہ میں جو کلام ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

رحمت؛رقت قلب اور مہر بانی ہے اس طرح سے کہ جس پر رحمت نازل ہوتی ہے اسکے لئے احسان وبخشش کا باعث ہوتی ہے، یہ کلمہ کبھی صرف رقت اور کبھی احسان وبخشش کے معنی میں بغیررقت کے استعمال ہوتاہے:جب رحمت خدا وندی کی بات ہوتی ہے تواس سے مراد بغیر رقت صرف احسان وبخشش ہوتا ہے، اس 

(١)بقرہ  ٣٠ .

لئے روایات میںآیا ہے: جو رحمت خدا کی طرف سے ہوتی ہے وہ مغفرت وبخشش کے معنی میں ہے اور جو رحمت آدمیوں کی طرف سے ہوتی ہے وہ رقت اور مہر بانی کے معنی میں ہو تی ہے۔

لفظ ''رحمان'' خدا وند متعال سے مخصوص ہے اور اس کے معنی خدا کے علاوہ کسی اورکو زیب نہیں دیتے کیونکہ تنہا وہی ہے جس کی رحمت تمام چیز وںکو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔

لفظ '' رحیم'' خدا اور غیر خدادونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، خدا وند عالم نے اپنے بارے میں فرمایا ''انّ اﷲ غفور رحیم'' خدا وند عالم بخشنے والا مہر بان ہے اور پیغمبر ۖکے بارے میں فرمایا:(لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزیز علیہ  ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم)(١)

یقینا تم ہی میں سے ایک رسول تمہاری جانب آیا کہ تمہاری مصیبتیں اس کے لئے گراں ہیں تمہاری ہدایت کے لئے حرص رکھتاہے اور مومنین کے ساتھ رؤوف و مہربان ہے۔

نیز کہا گیا ہے : خدا وند عالم دنیا کا رحمن اور آخرت کا رحیم ہے، کیونکہ خدا کا احسان دنیا میں عام ہے جو کہ مومنین اور کافرین دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں صرف مومنین سے مخصوص ہے، خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں فرمایا:

(و رحمتنی وسعت کل شی ئٍ فسأ کتبھا للذین یتقون)  (٢)

میری رحمت ساری چیزوں کو شامل ہے عنقریب میں اسے ان لوگوں سے مخصوص کر دوں گے جو تقوی اختیار کرتے ہیں۔

یعنی میری رحمت دنیا میں مومنین اور کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں صرف مومنین سے مخصوص ہے۔

تاج العروس'' کتاب کے مصنف بھی اس سلسلے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:''رحمن'' خداوند عالم کامخصوص نام ہے جو اس کے علاوہ کسی اور کے لئے سزا وار نہیں ہے ،کیو نکہ ، اس کی رحمت تمام موجودات کو خلق کرنے ، رزق دینے اور نفع پہنچانے کے لحاظ سے شامل ہے۔

رحیم'' ایک عام نام ہے ہراس شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے جو صفت رحمت سے متصف ہو،اس

(١)توبہ  ١٢٨ .(٢)اعراف ١٥٦ .

کے بعد کہتے ہیں : امام جعفر صادق  کے کلام کے یہی معنی ہیں جو آپ نے فرمایا :'' رحمان'' عام صفت کے لئے ایک خاص نام ہے اور رحیم ایک خاص صفت کے لئے ایک عام نام ہے ۔

جو کچھ ان لوگوں نے کہا ہے اس کا مؤید یہ ہے کہ،''رحیم'' قرآن کریم میں٤٧مقام پر'' غفور''، ''بَرّ''،''رؤف'' اور ''ودود ''(١) کے ہمراہ ذکر ہوا ہے۔

کلمہ ''رحمن''سورۂ الرحمن میںاس ذات کا اسم اور صفت ہے جس نے انسان کو خلق کرنے اور بیان  سکھا نے کے بعد قرآنی ہدایت کی نعمت سے نوازا ہے اور زمین کو اس کی ساری چیزوں کے ساتھ جیسے میوہ جات، کھجوریں،دانے اور ریا حین (خوشبو دار چیزیں) وغیرہ اس کے فائدہ کے لئے خلق فرمائی ہیں پھر جن وانس کو مخاطب کر کے فرمایا : (فبأَیّ آلاء ربّکما تکذبان)

پھر تم اے گروہ جن و انس خدا کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے!

پھر بعض دنیاوی نعمتیں شمار کرنے کے بعد کچھ اخروی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( لمن خاف مقام ربّہ جنتان)

اُس شخص کے لئے جو اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، بہشت میں دو باغ ہوںگے یہاں تک کہ آخر سورہ میںفرماتا ہے:

( تبارک اسم ربّک ذوالجلال والاِکرام)

بابرکت اور لا زوال ہے تمہارے صاحب جلال اورعظیم پروردگار کانام!

(١) دیکھئے:'' معجم المفہرس''  مادہ ٔ  '' رحم''

٤: ۔ذوالعرش اور''ربُّ العرش''

قرآن کریم کی وہ آیات جو ''عرش خدا''کے بارے میںبیان کرتی ہیں،درج ذیل ہیں:

١۔ سورۂ ہود میں فرماتاہے:

(وھوالذی خلق السموات و الأرض فی ستة أیامٍ وکان عرشہ علی الماء لیبلوکم أےّکم أحسن عملاً)(١)

اور خدا وہ ہے جس نے زمین اورآسمانوں کو چھ دن میں خلق کیا ہے اوراس کا''عرش'' پانی پر ہے، تا کہ تمھیں آزمائے تم میں سے کون زیادہ نیکو کار ہے۔

٢۔سورۂ یونس میں فرمایا:

(اِنَّ ربکم اﷲ الذی خلق السموات و الأرض فی ستّة اۓامٍ  ثُّم استوی علی العرش یدبّر الأمر…)(٢)

تمہارا ربّ اﷲ ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں خلق فرمایا پھر عرش پر مستقر ہوا اور تدبیر کار میں مشغول ہو گیا۔

٣۔ سورۂ فرقان میں ارشاد فرماتا ہے:

(الذی خلق السموات والأرض و ما بینھما فی ستّة أیامٍ ثُّم اْستوی علیٰ العرش الرّحمن فسئل بہ خبیراً)(٣)

اس نے زمین و آسمان اور ان کے ما بین جو کچھ ہے ان سب کوچھ دن میں خلق فرمایا پھر عرش پر مستقر ہوا وہ رحمن ہے ،اس سے سوال کرو کیونکہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے۔

(١)ہود  ٧ .(٢)یونس  ٣.(٣)فرقان  ٥٩.

٤۔سورۂ غافر میں ارشاد فرمایا:

(...الذین یحملونَ العرش ومَن حولہ ےُسبّحون بحمد ربّھم ویؤمنون بہ و یستغفرون للذین آمنواربّنا وسعت کُلّ شیئٍ رّحمةً و علماً فأغفر للذین تابوا و اتّبعوا  سبیلک و قِھم عذابَ الجحیم)(١)

وہ جو عرش خدا کو اٹھاتے ہیںنیز وہ جو اس کے اطراف میں ہیں،اپنے پروردگار کی تسبیح وستائش  کرتے ہوئے اس پر ایمان رکھتے ہیںاور مومنین کے لئے (اس طرح)طلب مغفرت کرتے ہیں:خدایا! تیری رحمت اور علم نے ہر چیز کا احاطہ کر لیا ہے، پس جن لوگوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے انھیں بخش دے اور دوز خ کے عذاب سے محفوظ رکھ!

٥۔ سورۂ زمر میں ارشاد ہوتا ہے:

(و تریٰ الملا ئکة حا فّین من حول العرش ےُسبحون بحمد ر بھم و قضی بینھم با لحق و قیل الحمد للّہ ربّ العا لمین)(٢)

اور فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش خدا کے ارد گرد حلقہ کئے ہوئے ہیں اور اپنے ربّ کی ستائش میں تسبیح پڑھتے ہیں ؛ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا:ستائش اﷲربّ العالمین سے مخصوص ہے۔

٦۔ سورۂ حاقہ میں ارشاد ہوتا ہے:

(و یحمل عرش ربّک فوقھم یومئذٍ ثمانےة)(٣)

اس دن تمہارے رب کے عرش کوآٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔

کلمات کی تشریح

١۔العرش:

عرش ؛لغت میں چھت دار جگہ کو کہتے ہیں جس کی جمع عروش ہے ، تخت حکومت کو حاکم کی رفعت وبلندی

(١)غافر ٧(٢)زمر ٧٥(٣)سورہ ٔ حاقہ  ١٧ ۔

نیز اس کی عزت وشوکت کے اعتبار سے عرش کہتے ہیں، عرش ملک اور مملکت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، کتاب''لسان العرب'' میںآیا ہے کہ''ثلّ اﷲ عرشھم''  یعنی خدا وند عالم نے ان کے ملک اور سلطنت کو برباد کر دیا۔(١)

ایک عرب زبان شاعر اس سلسلے میں کہتا ہے:

اِذا ما بنو مروان ثلت عروشھم   ::   وأودت کما أودت اِیادوحمیر

جب مروانیوں کا ملک تباہ وبرباد ہوگیااور'' حِمْےَر'' اور'' اِیاد'' کی طرح مسمار ہوگیا۔(٢)

٢۔ استویٰ:

الف:''التحقیق فی کلمات القرآن''نامی کتاب میں مادہ ''سوی''کے ضمن میں آیا ہے کہ ''استوائ'' کے معنی بمقتضائے محل بدلتے رہتے ہیں ، یعنی ہر جگہ وہاں کے اقتضاء اور حالات کے اعتبار سے اس کے معنی میں تغییر اور تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔

ب:''مفردات راغب'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ'' استوائ'' جب کبھی علیٰ کے ذریعہ متعدی ہو تو ''استیلائ'' یعنی غلبہ اور مستقر ہونے کے معنی میں ہے ،جیسے''الرحمن علی العرش استویٰ''رحمن عرش پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے۔

ج:'' المعجم الوسیط'' نامی کتاب میں مذکور ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ!استویٰ علیٰ سریر الملک أوعلیٰ العرش''  تخت حکومت پر متمکن ہوا یابادشاہی کرسی پر بیٹھا، اس سے مراد یہ ہے کہ مملکت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اخطل نامی شاعر نے بشربن مروان اموی کی مدح میں کہا ہے:

قد استویٰ بشر علی العراق        ::     من غیر سیفٍ أودمٍ مھراقٍ

بشر نے عراق کی حکومت شمشیر اور کسی قسم کی خونریزی کے بغیر اپنے ہاتھ میںلے لی!(٣)

(١)مفردات راغب اور المعجم الوسیط میں مادہ '' عرش'' اور لسان العرب میں مادہ ثلل کی جانب مراجعہ کیجئے۔

(٢)بحار، ج ٥٨، ص ٧.(٣)بشر بن مروان اموی خلیفہ عبد الملک مروان کا بھائی ہے جس نے ٧٤  ھ میں بصرہ میں وفات پائی اس کی تفصیل آپ کو ابن عساکر کی تاریخ دمشق میں ملے گی  .

آیات کی تفسیر

جب ہم نے جان لیا کی ا سمائے  الٰہی میں ''رحمن ورحیم''  ''ربُّ العا لمین'' کے صفات میں سے ہیں اور ہر ایک کے دنیا وآخرت دونوں جگہ آثار پائے جاتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ''اسم''قرآنی اصطلاح میں صفات ، خواص اشیاء اور ان کی حقیقت بیان کرنے کے معنی میں ہے اور''عرش'' عربی لغت میں حکومت اور قدرت کے لئے کنایہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ''استوائ'' جب علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوگا تو غلبہ اور تسلط کے معنی دیتا ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے:

''استویٰ علی سریر الملک أو علیٰ العرش''

سریر حکومت یا عرش حکومت پر جلوہ افروز ہوا (متمکن ہوا)یعنی:''تولیٰ الملک'' مملکت وحکومت کا اختیار اپنے قبضہ میں لیا۔

اب  اگر قرآن کریم میں'' استویٰ علی العرش''کے مذکورہ  ہفت گانہ مقامات کی طرف رجوع کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان تمام مقامات پر''استوائ''علیٰ کے ذریعہ متعدی ہوا ہے ،جیسے:

(استویٰ علیٰ العرش ید بّر الأمر)(١)

وہ عرش پر متمکن ہو کر امر کی تدبیر کرتا ہے۔

( ثُّم استویٰ علی العرش… ید بر الامر) (٢)

پھر وہ عرش پر متمکن ہوا…اور تدبیر امر میں مشغول ہوگیا۔

ان آیات میں(نوع تدبیر کی طرف اشارہ کئے بغیر)صراحت کے ساتھ فرمایا :'' عرش پر متمکن ہوا اور تدبیر امر میں مشغول ہو گیا۔،، سورۂ اعراف کی ٥٤ ویں آیت میں انواع تدبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(استویٰ علی العرش  یغشی الیل النھار...)

وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا اور شب کے ذریعہ دن کو چھپا دیتا ہے…۔

اور سورۂ حدید کی چوتھی آیت میں تدبیر کار کی طرف کناےةًاشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(استویٰ علیٰ العرش یعلم ما یلج فی الارض وما یخرج منھا)

 

(١)یونس  ٣. (٢)سجدہ  ٤و ٥ ؛ رعد ٢

عرش پر متمکن ہوا وہ جو کچھ زمین کے اندر جاتاہے اور جو کچھ اس سے خارج ہوتا ہے سب کو جانتاہے۔

یعنی خداوند عالم جو کچھ اس کی مملکت میںہوتا ہے جانتا ہے اور ساری چیزیںاس کی تدبیر کے مطابق ہی گردش کرتی ہیں۔

یہیں پر سورۂ فرقان کی ٥٩ ویں آیت کے معنی بھی معلوم ہوجاتے ہیں جہاں خداوندعالم فرماتا ہے:

(استویٰ علیٰ العرش الرحمن فسئل بہ خبیراً)

عرش قدرت پر متمکن ہوا، خدائے رحمان ،لہٰذا صرف اسی سے سو ال کرو کہ وہ تمام چیزوں سے آگاہ ہے! یعنی وہ جو کہ عرش قدرت پر متمکن ہوا ہے وہی خدا وند رحمان ہے جو کہ تمام عالمین کو اپنی وسیع رحمت کے سایۂ میں پرورش کرتا ہے اور جو بھی اس کی مملکت میں کام کرتا ہے اس کی رحمت اور رحمانیت کے اقتضاء کے مطابق ہے یہ موضوع سورۂ طہ کی پانچوں آیت میں مزیدتا کید کے ساتھ بیان ہوا ہے:

(الرحمن علیٰ العرش استویٰ)

خدا وند رحمان ہے جو عرش قدرت پر غلبہ اور تسلط رکھتا ہے۔

اس لحاظ سے، جو کچھ سورہ ''ہود'' کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے :

(خلق السموات والأرض فی ستة أیام وکان عرشہ علیٰ المائ)

آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں خلق فرمایا اور اس کا عرش قدرت پانی پرٹھہراتھا ۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مملکت خدا وندی میں زمین وآسمان کی خلقت سے قبل جز پانی کے جس کی حقیقت خدا وندعالم ہی جانتا ہے کوئی اور شے ٔموجود نہیں تھی ۔

اورجو سورۂ غافر کی ساتویں آیت میںفرماتا ہے:

(الذین یحملون العرش)

وہ لوگ جو عرش کو اٹھاتے ہیں۔

اس سے بار گاہ الٰہی کے کار گزار فرشتے ہی مراد ہیں کہ بعض کو نمائندہ بنایا اور بعض کو پیغمبروں کی امداد کے لئے بھیجا بعض کچھ امتوں جیسے قوم لوط پر حا ملان عذاب ہیں اور بعض آدمیوں کی روح قبض کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر ایک اپنا مخصوص کام انجام دیتا ہے اور جو کچھ ہماری دنیا میں خدا وند عالم کی ربوبیت کا مقتضیٰ ہی اس میں مشغول ہے۔

اور سورۂ حاقہ کی ساتویں آیت میںجو فرماتا  ہے:

( و یحمل عرش ربّک فوقھم یومئذٍ ثمانےة)

تمہارے رب کے عرش قدرت کو اس دن آٹھ فرشتے حمل کریں گے۔

اس سے مراد قیامت کے دن فرمان خدا وندی کا اجراء کرنے والے فرشتوں کے آٹھ گروہ ہیں۔

اورسورہ نحل کی ١٤ و یں آیت میں جو فرمایا:

( وھو الذ ی سخر البحر لتأکلوا لحماً طریاً و تستخر جوا  منہ حلےةً  تلبسو نھا و تری الفلک  مواخر فیہ)

وہ خدا جس نے تمہارے لئے دریا کو مسخر کیا تا کہ اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ دریا کا سینہ چاک کرتی ہیں۔

اس کے معنی یہ ہے کہ دریا کو ہمارا تابع بنا دیا تا کہ اُس کے خواص سے فائد ہ اٹھائیں اور یہ حضرت آدم  کی تعلیم کا ایک مورد ہے چنانچہ اس سے پہلے اسی سورہ کی ٥ ویں تا٨ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

(والأ نعام خلقھا لکم  فیھا دفء و منا فع ومنھاتأکلون۔ و لکم فیھا جمال حین تُر یحون وحین تسرحون۔ و تحمل أثقا لکم  اِلیٰ بلدٍ لم تکونوا  بالغیہ الِاّ بشقّ الأنفس اِنّ ربّکم لرء وف رحیم ، والخیل و البغا ل و الحمیر لترکبو ھا وزینةً و…)

اور اس نے چوپا یوں کو خلق کیا کیو نکہ اس میں تمہاری پوشش کا وسیلہ اور دیگر منفعتیں پائی جاتی ہیں اوران میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہو اوروہ تمہارے شکوہ اور زینت وجمال کا سبب ہیں، جب تم انھیںجنگل سے واپس لاتے ہو اور جنگل کی طرف روانہ کرتے ہو،نیز تمہارا سنگین و وزنی بار جنھیں تم کافی زحمت ومشقت کے بغیروہاںتک نہیںپہنچا سکتے یہ اٹھاتے ہیں،یقیناتمہاراربرؤفومہربان ہے اوراس نے گھوڑوں،گدھوں اور خچروں کو پید ا کیاتا کہ ان پر سواری کرو اور وہ تمہاری زینت کا سامان ہوں۔

خدا وند عالم نے اس کے علاوہ کہ ان کو ہمارا تابع اور مسخربنایا ہے ان سے استفادہ کے طریقے بھی ہمیں سکھائے تا کہ گوشت،پوست، سواری اور بار برداری میں استفادہ کریں۔

سورہ زخرف کی بارھویں اور تیر ھویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( والذی خلق الأزواج کلّھا و جعل لکم من الفلک و الاّنعام ماتر کبون ، لتستوا علی ظھورہ، ثُمّ تذکر وا نعمة ربّکم اِذا استو یتم علیہ و تقو لوا سبحان الذی سخر لنا ھذا و ما کُنا لہ مقر نین)

اور جس خدا نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا اور تمہارے لئے کشتیوں اور چوپایوں کے ذریعہ سواری کا انتظا م کیا تا کہ ان کی پشت پر سوار ہو اور جب تم ان کی پشت پر سوار ہو جاؤ تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اور کہو: وہ خدا منزہ اور پاک و پاکیزہ ہے جس نے ان کو ہمارا تابع اور مسخر بنایا ورنہ ہمیں ان کے تسخیر کرنے کی طاقت وتوانائی نہیں تھی۔

جس خدا نے ہمیں ان آیات میں مذکور چیزوں سے استفادہ کا طریقہ بتا یا اور اپنی''ربوبیت'' کے اقتضاء کے مطابق انھیں ہمارا تابع فرمان اور مسخر بنایااسی خدا نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں اور گھر کے چھپروں میں پھول اور شگو فوں کو چوس کر شہد بنائے، اسی نے دریا کو مچھلیوں کے اختیار میں دیا اور الہام غریزی کے تحت اس سے بہرہ مند ہونے اور استفادہ کرنے کی روش اورطریقہ بتا یا،اس طرح سے اسنے اپنی وسیع رحمت کے ذریعہ ہر ایک مخلوق کی ضرورت کو دیگر موجودات سے بر طرف کیا اوراس کے اختیار میں دیا نیز ہر ایک کو اس کی ضروری اشیاء کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تا کہ اس سے فائدہ حاصل کرے بعبارت دیگر شہد کی مکھی کوبقائے حیات کے لئے ضرور ی اشیاء کے اسما ء اور ان کی خاصیتوں سے آگاہ کیا تاکہ زندگی میںاس کا استعمال کرے اور مچھلیوں کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق اشیاء کے اسماء اور خواص سکھائے تاکہ زندگی میں ان کا استعمال کرے ،وغیرہ ۔

رہی انسان کی بات تو خدا وندعالم نے اسے خلق کرنے کے بعد اس کی تعریف وتوصیف میں فرمایا:

(فتبارک اﷲ احسن الخا لقین)

بابرکت ہے وہ اﷲ جو بہترین خالق اور پیدا کرنے والا ہے۔

خدا وند عالم نے تمام اسماء اوران کی خاصیتیں اسے بتا دیں ؛چنانچہ سورۂ جاثیہ کی ١٣ ویں آیت میں فرمایا:

( وسخر لکم مافی السموات  والأرض جمیعاً منہ)

اورخدا نے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے سب کو تمہارے اختیار میں دیا اور اسے تمہارا تابع بنا دیا۔

سورۂ لقمان کی ٢٠ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے!

(ألم تروا اَنّ اﷲ سخر لکم ما فی السموات وما فی الأرض)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے زمین و آسمان کے درمیان کی تمام چیزوں کو تمہارا تابع اور مسخر بنا یا۔

پر وردگار عالم نے اپنی مخلوقات کی ہر صنف کو دیگر تمام مخلوقات سے استفادہ کرنے کی بقدر ضرورت ہدایت فرمائی۔ اور جو مخلوق دیگر مخلوق کی نیاز مندتھی تکوینی طور پر اس کو اس کا تابع بنایا ہے۔

اور انسان جوکہ خدا داد صلاحیت اور جستجوو تلاش کرنے والی عقل کے ذریعہ تمام اشیاء کے خواص کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر کوشش کرے اور علوم کو حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرے،تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ تمام مخلوقات اس کے استعمال کے لئے اسکے اختیار میں ہیں، مثال کے طور پر اگر'' ایٹم'' کے خواص کو درک کرنے کی کوشش کرے تویقینا وہاں تک اس کی رسائی ہو جائے گی اور چو نکہ ایٹم ان اشیاء میں ہے جو انسان کے تابع اور مسخر ہے، قطعی طور پر وہ اسے شگا ف کرنے اور اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس طرح سے خدا نے آگ ،الکٹریک اورعلوم کی دیگر شاخوں جیسے فیزک اور کیمسٹری کواس کے حوالے کیا نیز انھیں اس کا تابع بنایا تا کہ مختلف دھاتوںسے ہوائی جہاز اور راکٹ وغیرہ بنائے اوراسے زمین کے اطراف میں گردش دے وغیرہ وغیرہ ۔

لیکن یہ انسان''چونکہ سرکش ، طاغی اور حریص ہے ''لہٰذا اس شخص کا محتاج اور ضرورت مند ہے جو ان مسخرات سے استفادہ کا صحیح طریقہ اور راستہ بتائے تا کہ جو اس نے حاصل کیا اور  اپنے قبضہ میں کر لیا ہے ا سے اپنے یا دوسروں کے نقصان میں استعمال نہ کرے۔''کھیتی'' اور نسل '' کو اس کے ذریعہ نابود نہ کرے''ربّ رحمان''نے عالی مرتبت انبیاء کواس کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا تا کہ مسخرات سے استفادہ کی صحیح راہ وروش بتائیں پس''ربّ رحمن'' کے جملہ آثار رحمت میں سے پیغمبروں کا بھیجنا ،آسمانی کتابوں کا نازل کرنا اور لوگوں کو تعلیم دینا ہے، اس موضوع کی وضاحت سورہ رحمان میں لفظ ''رحمن'' کی تفسیر کے ذریعہ اس طرح کی ہے:

(الرّحمن، علّم القرآن)

خدا وندرحمان نے ،قرآن کی تعلیم دی۔

(خلق الاِنسان،علّمہُ البیان)

انسان کوخلق کیا اوراسے بیان کرنا سکھا یا۔

(الشمسُ والقمر بحسبان)

سورج اور چاندحساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔

( والنجم والشجر یسجدان)

اور بوٹیاں بیلیں اور درخت سب اسی کا سجد ہ کر رہے ہیں ۔

(والسماء رفعھا ووضع المیزان)

اوراُس نے آسمان کو رفعت دی اور میزان وقانون وضع کیا(بنایا)۔

(والأرض  وضعھا للِْاِ نام)

اور زمین کو مخلوقات کے لئے خلق کیا۔

(فیھا فا کھة والنخل ذات الأکمام)

اس میں میوے اور کھجو ریں ہیں جن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔

(والحبّ ذوالعصف والرّیحان)

اورخوشبو دار گھاس اور پھول کے ساتھ دانے ہیں۔

( فباَیّ آلاء ربّکما تکذّبان)

پھر تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔

(تبارک اْسم ربّک ذی الجلال والاِکرام)

تمہارے صاحب جلال واکرام رب کا نام مبارک ہے۔

نیز ''ربّ'' ہے جو :

(یبسط الرّزق لمن یشاء ویقدر)(١)

جس کی روزی  میں چاہے وسعت دیدے اور جسکی روزی میں چاہے تنگی کر دے۔

جو کچھ ہم نے رحمت''ربّ'' کے آثار دنیا میں پیش کئے ہیں وہ مومن اور کافر تمام لوگوں کو شامل ہیں اس بناء پر''رحمان'' دنیا میں''ربّ العالمین''کے صفات میں شمار ہوتا ہے نیز اس کی رحمت تمام خلائق جملہ مومنین وکافرین سب کو شامل ہے اور چونکہ ''ربّ العالمین'' لوگوں کی پیغمبروں پر''وحی'' کے ذریعہ ہدایت کر تا ہے، قرآن کریم ''وحی'' کی ''ربّ'' کی طرف، جو کہ اﷲ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے ،نسبت دیتے ہوئے فرماتا ہے :

(ذلک ممّا أوحیٰ اِلیک ربّک من الحکمة)(٢)

یہ اس کی حکمتوں میں سے ہے کہ تمہارے''ربّ'' نے تم کو وحی کی ہے۔

(١) سبا٣٦،٣٩ . (٢)  اسراء  ٣٩.

اور فرمایا:(اتّبع ما أوحی اِلیک من ربّک)(١)

جو چیز تما رے ربّ کی طرف سے تم پر وحی کی گئی ہے اس کی پیروی کرو۔

قرآن اسی طرح ارسال رسل اور آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کو '' ربّ العالمین''کی طرف نسبت دیتا ہے اور حضرت ہود  کے حالات زندگی کی شرح میں فرماتا ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا:(یا قوم لیس بی سفا ھة و لکِنّی رسول من ربّ العالمین۔أبلٔغکم رسا لات ربِّی)(٢)

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی سفاہت نہیں ہے لیکن میں،،ربُّ العالمین،، کی جانب سے ایک رسول اور فرستادہ ہوں کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

نیز حضرت نوح  کے بارے میں فرماتا ہے: انھوں نے اپنی قوم سے کہا:

(یا قوم لیس بی ضلا لة و لکنّی رسول من ربّ العا لمینَ۔اُبلّغکم رسالات ربِّی…)(٣)

اے میری قوم! میرے اندر کسی قسم کی ضلالت اور گمراہی نہیں ہے، لیکن میں''ربّ العا لمین'' کا فرستادہ اور رسول ہوں ،کہ اپنے پروردگار کی رسالت تم تک پہنچاتاہوں۔

اور حضرت موسیٰ  کے بارے میںفرماتا ہے کہ ا نھوں نے فرعون سے کہا:

( یا فرعون انِّی رسول من ربّ العا لمین)(٤)

اے فرعون! میںربّ العالمین کا فرستادہ ہوں۔

آسمانی کتابوں کے نازل کرنے کے سلسلے میں فرمایا :(واتل ما أوحی اِلیک من کتاب ربّک)(٥)

جوکچھ تمہارے''رب'' کی کتاب سے تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کرو!

(تنزیل الکتاب لاریب فیہ من ربّ العالمین)(٦)

اس کتاب کا نازل ہونا کہ جس میںکوئی شک و شبہ نہیں ہے رب العا لمین کی طرف سے ہے ۔

(١) انعام  ١٠٦  . (٢)اعراف ٦٧ ، ٦٨(٣)اعراف ٦١ ، ٦٢(٤)  اعراف  ١٠٤ (٥)کہف  ٢٧(٦) سجدہ ٢ ۔

( اِنّہ لقرآن کریم… تنزیل من ربّ العالمین)(١)

بیشک یہ قرآن کریم ہے جو ''ربّ العا لمین'' کی طرف سے نازل ہوا ہے

نیز امر و فرمان کی نسبت''ربّ'' کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

(قل أمر ربِیّ با لقسط و أقیموا وجو ھکم عند کلّ مسجد) (٢)

کہہ دو!میرے ربّ نے عدالت وانصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر مسجد میں اپنا رخ اس کی طرف رکھو۔

اس لحاظ سے صرف اورصرف''ربّ'' کی اطاعت کرنی چاہئے ،جیسا کہ خاتم الانبیائۖ اور مومنین کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( آمن الرسول بما أنزل الیہ من ربّہ و المؤ منون… و قالوا سمعنا وأطعنا غفرانک ربّناّ)(٣)

پیغمبر جو کچھ اس کے ''رب'' کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان لایا ہے اور تمام مومنین بھی ایمان لا ئے ہیں…اوران لوگوںنے کہا ! ہم نے سنا اور اطاعت کی اے ہمارے پروردگارہم ! تیری مغفرت  کے خواستگار ہیں…۔

انبیاء بھی چو نکہ اوامر ''ربّ العا لمین''کی تبلیغ کرتے ہیں ، لہٰذا خدا وند متعال نے ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے فرمایا :

(أطیعوااﷲ وأطیعواالرسول ولا تبطلوا أعمالکم)(٤)

خدا کی اطاعت کرواور رسول ۖ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو ۔

یہی حال گناہ اور معصیت کا ہے کہ کسی سے بھی صادر ہو''ربّ العا لمین'' کی نافرمانی کی ہے ،جیسا کہ فرمایا:

(فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ)(٥)

سارے فرشتو ں نے سجدہ کیا جز ابلیس کے، جوکہ جنوں میں سے تھا اور اپنے ''ربّ'' کے فرمان سے باہر ہو گیا۔

نیز یہ بھی فرمایا:

( فعقروا الناقة و عتوا عن أمر ربھم)(٦)

(١)واقعہ  ٧٧، ٨٠(٢)اعراف  ٢٩ (٣)بقرہ  ٢٨٥(٤) محمد  ٣٣(٥)کہف  ٥٠ (٦)اعراف ٧٧

(قوم ثمود) نے''ناقہ'' کوپے کر دیا اور اپنے ربّ کے فرمان سے سر پیچی کی۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ ''امر'' اور فرمان جملہ سے حذف ہو جاتا ہے لیکن اس کے معنی باقی رہتے ہیں، جیسا کہ حضرت آدم  کے بارے میں فرمایا:

(وعصیٰ آدم ربّہ فغویٰ)(١)

آدم  نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور جزا سے محروم ہو گئے۔

یعنی آدم  نے اپنے رب کے امرکی نافرمانی کی۔

انبیاء علیہم السلام بھی چونکہ اوامر''ربّ''کولوگوں تک ابلاغ کرتے ہیں تو ان کی نافرمانی اور سر پیچی فرمان''ربّ'' کی مخالفت شمار ہوتی ہے، جیسا کہ خدا فر عون اور اس کی قوم نیز ان لوگوں کے بارے میں جوان سے پہلے تھے فرماتا ہے:

(و جاء فرعون ومن قبلہ…فعصوا رسول ربّھم)(٢)

فرعون اور وہ لوگ جواس سے پہلے تھے ....ان سب نے اپنے ربّ کے فرستادہ پیغمبر کی مخالفت کی ۔

انسان نافرمانی کرنے کے بعد جب توبہ کرتا ہے اپنے ''رب'' سے مغفرت چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:

(الذین یقولون ربّنا انّنا آمنا فا غفرلنا ذنو بنا)(٣)

وہ لوگ کہتے ہیں: اے ہمارے'' رب'' ! ہم ایمان لائے ، لہذا ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

(وما کان قولھم اِلاّ أن قالوا ربنّا أغفرلنا ذنوبنا)(٤)

اوران کا کہنا صرف یہ تھا کہ اے ہمارے پروردگار !ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

(ربّنا فاغفر لنا ذنو بنا و کفرعناّ سےّئا تنا)(٥)

ا ے ہمارے پروردگارا ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی کر۔

سورہ قصص میں حضرت موسیٰ  کے قول کے حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(ربّ انِی ظلمتُ نفسی فاغفر لیِ فغفر لہ)(٦)

ا ے میرے پروردگار! میں نے اپنے او پر ظلم کیا لہٰذا مجھے بخش دے اورخدا نے انھیں بخش دیا۔

اسی وجہ سے ''غفور'' و غفار''بھی ربّ کے صفات میں سے ہے، چنانچہ فرمایا:

(١)طہ  ١٢١(٢) حاقہ  ٩،١٠(٣)آل عمران  ١٦ (٤)آل عمران  ١٤٧(٥)آل عمران  ١٩٣۔(٦)قصص ١٦۔

(والذین عملوا السۓّات ثُّمّ تابوا من بعد ھا  وآمنوا انّ ربّک من بعدھا لغفور رحیم)(١)

وہ لوگ جنھوں نے گناہ کیا اور اس کے بعد توبہ کی اور ایمان لائے(جان لیں کہ) تمہاراربّ اس کے بعد غفور ومہر بان ہے۔

اپنی قوم سے نوح کے قول کی حکایت کرتا ہے:

(فقلت استغفروا ربّکم انّہ کان غفاّراً)(٢)

]نوح نے کہا[ میں نے ان سے کہا:اپنے ربّ سے بخشش ومغفرت طلب کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور غفاّر ہے۔

سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( فتلقّیٰ آدم من رّبہ کلماتٍ فتاب علیہ اِنّہ ھو التّوابُ الرحیم)(٣)

پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے اور خدا نے ان کی توبہ قبول کی کیو نکہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے۔

اور جو لوگ گناہ کرنے کے بعد توبہ کے ذریعہ اس کی تلافی اور جبران نہیں کرتے ان کے کردار کی سزاربّ العالمین کے ذمہّ ہے ،جیسا کہ فرمایا:

(قل یا عبادیِ الذین أسر فوا علیٰ أنفسھم  لا تقنطوا من رحمة اﷲ…و انیبوا اِلیٰ ربّکم و أسلموا لہ من قبل أن یا تیکم العذا بُ ثُمّ لا تنصرون)(٤)

کہو: اے میرے و ہ بندو کہ تم نے اپنے اوپر ظلم وستم نیزا سراف کیاہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو…اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ اوراس کے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم ہو جاؤقبل اسکے کہ تم پر عذاب نازل ہو پھر کوئی یار ویاور نہ رہ جائے۔

ربّ کا اعمال کی جزا دینا کبھی دنیا میں ہے اور کبھی آخرت میں اور کبھی دنیا وآخرت دونوں میں ہے قرآن کریم سب کی نسبت رب کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( لقد کان لسبا فی مسکنھم آےة جنتان عن یمینٍ و شمالٍ کلوا من  رزق ربّکم و اشکرٔ وا لہ بلدة طیبة و ربّ غفور فا عرضوا فارسلنا علیھم سیل العرم و بد لنا ھم بجنّتیھم جنتین

(١)اعراف  ١٥٣(٢)نوح  ١٠ (٣)بقرہ  ٣٧(٤)زمر  ٥٣،٥٤

ذوا تی أکل خمطٍ و اثلٍ و شیئٍ من سدرٍ قلیل۔ ذلک جز ینا ھم بما کفر واوھل نجازی اِلّا الکفو ر)(١)

قوم ''سبا'' کے لئے ان کی رہائش گاہ میں ایک نشانی تھی: داہنے اور بائیں دو باغ تھے( ہم نے ان سے کہا) اپنے رب کارزق کھاؤ اور اس کا شکر اداکرو ، شہر صاف ستھرا اور پاکیزہ ہے اور تمہارا ''ربّ'' بخشنے والا ہے، (لیکن) ان لوگوں نے خلاف ورزی اوررو گردانی کی تو ہم نے تباہ کن سیلابی بلااُن کے سر پر نازل کر دی اور دو میوہ دار باغوں کو تلخ اور کڑوے باغوں اور کچھ کو بیر کے درختوںمیں تبدیل کر دیا، یہ سزا ہم نے  انھیں ان کے کفر کی بنا پر دی،آیا ہم کفران نعمت کرنے والے کے علاوہ کو سزا دے سکتے ہیں؟

لیکن آخری جزا قیامت میں دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب کتاب کے بعد ہے،قرآن کریم محشور کرنے اور حساب و کتاب کرنے کی بھی نسبت ربّ کی طرف دیتے ہوئے فرماتا ہے:

(وانّ ربّک ھو یحشر ھم)(٢)

تمہارا''ربّ'' انھیںمحشور کرے گا

نیز فرماتا ہے:

(ما فرّطنا فی الکتاب من شیٔ ٍثمّ الی ربّھم یحشرون)(٣)

اس کتاب میں ہم نے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے، پھر سب کے سب اپنے ''ربّ'' کی جانب محشور کئے جائیں گے۔

اور فرماتا ہے:

( ِانّ حسابھم الِّا علی ربِّی لو تشعرون)(٤)

]نوح  نے کہا[ ان کا حساب صرف اور صرف ہمارے رب کے ساتھ ہے اگر تم یہ بات درک کرتے ہو !

لوگ حساب وکتاب کے بعد یا مومن ہیں کہ ہر حال میں''رحمت''خدا وندی ان کے شامل حال ہو گی یا غیر مومن کہ رحمت الٰہی سے دور ہوں گے ،خدا وند عالم نے مومنین کے بارے میں فرمایا:

(یوم نحشر المتّقین الی الرحمن و فداً) (٥)

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند ''رحمان'' کی جانب مبعوث کریں گے۔

(١)سبا ١٥  (٢)حجر  ٢٥(٣)انعام  ٣٨ (٤)شعرا ١١٣(٥) مریم ٨٥

البتہ ربّ العالمین کی رحمت اس دن مو منین سے مخصوص ہے،یہی وجہ ہے کہ خدا کو آخرت کا رحیم کہا جاتا ہے اور لفظ ''رحیم'' رحمان کے بعد استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:

(ألحمد للّہ ربّ العالمین،الرحمن الرحیم)

حمد وستائش عالمین کے ربّ  اﷲ سے مخصوص ہے،وہ خدا وند رحمن ورحیم ہے۔

کیو نکہ رحمن کی رحمت اس دنیا  میں تمام افراد کو شامل ہے ،لیکن ''رحیم'' کی رحمت مو منین سے مخصوص ہے۔

غیر مومن اور کافر کے بارے میں ارشاد فرمایا!

(انّ جھنّم کانت مرصاداً، للطا غین مآباً…جزائًً وفاقاً)(١)

یقینا جہنم ایک سخت کمین گاہ ہے اور نافرمانوںکی باز گشت کی جگہ ہے ...یہ ا ن کے اعمال کی مکمل سزا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رب العالمین کو روز جزا کا مالک کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا:

(الحمد للّہ ربّ العالمین۔الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین)

جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق ''ربّ'' رحمن بھی ہے اور ''رازق'' بھی'' رحیم'' بھی ہے اور ''توّاب و غفار ''بھی اور تمام دیگر اسمائے حسنیٰ کا بھی مالک ہے۔

بحث کاخلاصہ

خدا وند عالم سورۂ اعلی میں فرماتا ہے: مخلوقات کا رب وہی ہے جس نے انھیں بہترین طریقے سے خلق کیا ،پھر انھیںہدایت پذ یری کے لئے آمادہ کیا ،پھر اس کے بعد ہر ایک کی زندگی کے حدود معین کئے اور انھیں ہدایت کی ، پھراس کے بعد کی آیات میں حیوان کی چراگاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے:''ربّ'' وہی ہے  جس نے حیوانات کی چرا گاہ کو ظاہر کیا اوراسے پر ورش دی تا کہ شدید سبز ہو نے کے بعد ا پنے آخری رشد  یعنی خشک گھاس کی طرف مائل ہو۔

اسی طرح سورۂ رحمن میںجس کی آیات کو ہم نے پیش کیا جو ساری کی ساری ربوبیت کی توصیف میں تھیں آغاز سورہ میں تعلیم بیان کے ذریعہ انسان کی تربیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(خلق الانسان علّمہ البیان)

(١) نبائ٢١، ٢٢، ٢٦ .

انسان کو خلق کیا اوراسے بیان کی تعلیم دی یعنی اسے ہدایت قبول کرنے کے لائق بنایا۔

سورۂ علق میں انسان کی پرورش سے متعلق صفات''ربوبیت''کے دوسرے گوشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(خلق الانسان من علق…الذی علّم  با لقلم۔ علّم الاِنسان ما لم یعلم)

انسانوں کو منجمد خون سے خلق کیا ... وہی ذات جس نے ا سے قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور جو انسان نہیں جانتا تھا اس کی تعلیم دی ،یعنی اسے ہدایت قبول کر نے کے لئے آمادہ کیا۔

مذکورہ دونوں موارد(آموزش بیان اور قلم کے ذریعہ تعلیم) کلمہ ''سوّی'' کی تشریح ہے جو کہ''سورہ اعلیٰ'' میںآیاہے۔

سورۂ'' شوریٰ، نساء ، آل عمران'' میں ''ربّ العالمین ''کے ذریعہ انسان کی کیفیت ہدا یت کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:انسان کے لئے دین اسلام کو معین کیا اوراسے اپنی کتابوں میں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ارسال کیا …

سورۂ یونس اور اعراف میں فرمایا:تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور انھیں ہدایت تسخیری سے نوازا۔

سورۂ انعام میں ٩٥ تا١٠١آیات میں انواع مخلوقات کی یاد آوری کے بعدآیت ١٠٢ میں فرمایا:

(ذلکم اﷲ ربکم لا الہ الاّ ھوخالق کل شیئٍ فا عبدوہُ)

یہ ہے تمہارا رب، اﷲ ،اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،وہ تمام چیزوں کا خالق ہے ،صرف اس کی عبادت کرو۔

یہاں تک جو کچھ ہم نے ربوبیت کے صفات اور اس کے اسماء کو بیان کیا سب کے سب اﷲ کے صفات اور اس کے اسماء سے تعلق رکھتے ہیں، اﷲ کے'' اسمائے حسنیٰ ''کی بحث میں انشاء اﷲ دیگر اسمائے حسنیٰ کوجو اﷲ سے مخصوص ہیں ذکر کر یں گے۔

 


source : http://www.shianet.in
2
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا حکمت اور علم میں کوئی فرق هے؟
اللہ کو قرضِ حسنہ دیجے!
قرآن کریم میں الله کے لئے کبھی ضمیر واحد اور کبھی ...
خدا کے غضب سے بچو
علم ایک لازوال دولت ہے
خدا كی بارگاہ میں مناجات كافلسفہ
حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیّبہ
دین اسلام کی چوتهی اصل امامت
قیامت، قرآن و عقل کی روشنی میں
خود فراموشی اور حقیقی توحید

 
user comment

Elly
Hats off to whoever wrote this up and ptseod it.
پاسخ
0     0
14 مرداد 1390 ساعت 11:58 صبح
Hallie
And I was just wodnering about that too!
پاسخ
0     0
14 مرداد 1390 ساعت 02:27 صبح