امامت
دین اسلام کی چوتھی اصل اور اعتقاد کی چوتھی بنیاد امامت ھے لغت میں امام کے معنی رھبر ا ور پیشوا کے ھیں اور اصطلاح میں پیغمبر اکرم کی وصایت وخلافت اور ائمہ معصومین کی رھبری مراد ھے، امامت شیعوں کی نظرمیں اصول دین میں سے ایک ھے اور امام کا فریضہ شیعوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کے فرائض کی انجام دھی ھے۔
یعنی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعثت کااور ائمہ کے منصوب ھونے کا مقصد ایک ھے اور جو چیز اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ اللہ رسول کو مبعوث کرے وھی چیز اس بات کا بھی تقاضا کرتی ھے کہ خد اامام کو بھی معین کرے تاکہ رسول کی ذمہ داریوںکو انجام دے سکے، امام کے بنیادی شرائط میں سے ھے کہ وہ بے پناہ علم رکھتا ھو اور صاحب عصمت ھو نیز خطا ونسیا ن سے دور ھو اور ان شرائط کے ساتھ کسی شخصیت کا پھچاننا وحی کے بغیر ناممکن ھے اسی لئے شیعہ معتقد ھیںکہ منصب امامت بھی ایک الٰھی منصب ھے اور امام کو خدا کی طرف سے معین ھو نا چاہئے لہٰذا امامت او رخلافت کی بحث ایک تاریخی گفتگو نھیں ھے بلکہ حکومت اسلامی کی حقیقت او رپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اختتام دنیا تک حکو مت کرنا ھے اور ھماری آئندہ کی زندگی سے مکمل طور پر مربوط ھے، اسی طرح یہ دیکھنا ضروری ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعداعتقادی اور فکری مسائل میں لوگ کس کی طرف رجوع کریں ۔
شیعوںکاکھنا ھے کہ پیغمبر اسلام کے بعد حضرت علی علیہ السلا م اور ان کے بعد ان کے گیارہ فرزند ایک کے بعد ایک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی جانشین ھیں، شیعہ او رسنی کے درمیان یھی بنیادی اختلاف ھے ۔
ھمارا اصل مقصد اس بحث میں یہ ھے کہ امامت پر عقلی، تاریخی ،قرآنی اور سنت نبوی سے دلیلیں پیش کریںکیونکہ ھم ا س بات کے معتقد ھیںکہ اسلام حقیقی کانورانی چھرہ مذھب شیعہ میں پایا جاتا ھے اورصرف شیعہ ھیں جو حقیقی اسلا م کو اپنے تمام ترکمالات کے ساتھ پوری دنیا میںپھچنوا سکتے ھیں لہٰذا ھمیںاس کی حقانیت کو دلیل ومنطق کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے ۔
امامت کا ھو نا ضروری ھے
امامت عامہ
دلیل لطف : شیعہ معتقد ھیں کہ بندو ں پرخداکا لطف اور اس کی بے پناہ محبت اور حکمت کا تقاضا ھے کہ پیغمبر اکرم کے بعد بھی لوگ بغیر رھبر کے نہ رھیں یعنی جو دلیلیں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ھونے کے لزوم پر دلا لت کر تی ھیں وھی دلیلیںاس بات کی متقاضی ھیں کہ امام کا ھو نابھی ضروری ھے تاکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح دنیا اورآخرت کی سعادت کی طرف لوگوں کی رھبری کر سکیں اوریہ بھی ممکن نھیں ھے کہ وہ مھربان خدا بنی نوع انسان کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بغیر کسی ھادی اوررھبر کے چھو ڑدے ۔
مناظرہ ھشام بن حکم
ھشام کا شمار امام جعفر صادقں کے شاگردو ںمیں ھے : کھتے ھیں میں جمعہ کوبصرہ گیااور وھاں کی مسجد میں داخل ھوا عمروبن عبید معتزلی (عالم اھل سنت) وھاں بیٹھے تھے اور ان کو لوگ گھیرے میںلئے ھوئے سوال وجواب کر رھے تھے میں بھی ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اورکھا :میں اس شھر کانھیں ھوں کیا اجازت ھے کہ میں بھی سوال کروں ؟کھا جو کچھ پوچھنا ھو پوچھو: میںنے کھا آپ کے پاس آنکھ ھے ؟ اس نے کھا دیکھ نھیں رھے ھو یہ بھی کوئی سوال ھے۔ ؟
میں نے کھا میرے سوالات کچھ ایسے ھی ھیں کھا اچھا پوچھو ھر چند کہ یہ بیکارھے انھو ں نے کھا جی ھاں آنکھ ھے ،میں نے کھا ان آنکھو ں سے کیا کام لیتے ھیں؟ کھا دیکھنے والی چیزیں دیکھتا ھو ں ا قسام او ررنگ کو مشخص کرتا ھو ں ، میںنے کھا زبان ھے ؟کھا جی ھا ں ، میں نے کھااس سے کیا کرتے ھیں؟ جواب دیا کہ اس سے کھانے کی لذت معلو م کرتاھوں میں نے کھا ناک ھے ؟کھنے لگے جی ھا ں میں نے کھا اس سے کیا کرتے ھیں؟ کھا خوشبو سونگھتا ھو ں او راس سے خوشبو اور بدبو میں فرق کرتا ھوں میں نے کھا کان بھی ھے ؟جواب دیا جی ھا ں ،میں نے کھا اس سے کیا کرتے ھیں؟ جو اب دیا اس سے مختلف آوازوں کو سنتا ھو ں او ر ایک دوسرے کی تشخیص دیتا ھو ں، میں نے کھا اس کے علا وہ قلب (عقل ) بھی ھے ؟کھا جی ھا ں۔ میں نے پوچھا اس سے کیا کرتے ھیں؟جواب دیا اگر ھما رے اعضاء وجوارح مشکوک ھو جاتے ھیں تواس سے شک کو دور کرتا ھو ں ۔
قلب اور عقل کاکام اعضا ء وجوارح کو ھدایت کرنا ھے ،ھشام نے کھا:میں نے ان کی بات کی تائید کی کھا بالکل صحیح۔ خدانے عقل کو اعضاء وجوارح کی ھدایت کے لئے خلق کیااے عالم! کیایہ کھنا صحیح ھے کہ خدانے آنکھ کان کو اور دوسرے اعضاء کو بغیر رھبر کے نھیں چھوڑااور مسلمانو ں کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بغیر ھادی ورھبر کے چھوڑ دیا تاکہ لوگ شک و شبہ اور اختلا ف کی باعث فنا ھو جائیں کیاکوئی صاحب عقل اس بات کو تسلیم کرے گا ؟!۔
ھدف خلقت
قرآن میں بھت سی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ھیں< ھَوَ الَّذِی خَلَق لَکُم مَافِی الاٴَرضِ جَمِیعاً>وہ خدا وہ ھے جس نے زمین کے تمام ذخیرہ کو تم ھی لوگو ں کے لئے پیدا کیا۔ [1] <سَخَّرَ لَکُمُ اللَّیلَ وَالنَّھارَ والشَّمسَ وَالقَمَر>”اور اسی نے تمھارے لئے رات و دن اورآفتاب وماھتاب سب کو مسخر کردیا “۔[2]
چونکہ انسان کی خاطر یہ دنیا خلق ھوئی ھے اور انسان عبادت اور خدا تک پھونچنے کے لئے خلق ھو اھے تاکہ اپنے حسب لیاقت کمال تک پھونچ سکے، اس
مقصد کی رسائی کے لئے رھبر کی ضرورت ھے اور نبی اکرم کے بعدامام اس تکامل کا رھبر وھادی ھے ۔
مھربا ن ودرد مند پیغمبر او رمسئلہ امامت :
<لَقَد جَا ءَ کُم رَسُولُ مِن اٴَنفُسِکُم عَزیزُ عَلَیہ مَا عَنِتُم حَرِیصُ عَلَیکُم بِالمُوٴمنینَ رَوٴُفُ رَحِیمُ > یقینا تمھا رے پاس وہ پیغمبر آیا ھے جو تمھیں میں سے ھے اور اس پر تمھاری ھر مصیبت شاق ھو تی ھے وہ تمھاری ھدا یت کے بارے میں حرص رکھتا ھے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مھربان ۔[3]
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کبھی کسی کا م کے لئے کچھ دن کے واسطے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے چاھے مقصد جنگ ھو یا حج، لوگو ں کی سرپرستی کے لئے کسی نہ کسی کو معین کر جاتے تھے تاکہ ان کی راھنمائی کر سکے آپ شھروں کے لئے حاکم بھیجتے تھے لہٰذا وہ پیغمبر جولوگوں پر اس قدر مھربان ھوکہ بقول قرآن ،اپنی زندگی میںکبھی بھی حتی کہ تھوڑی مدت کے لئے بھی لوگوں کو بغیر رھبر کے نھیں چھوڑا ،تو یہ بات بالکل قابل قبول نھیں کہ وہ اپنے بعد لوگو ں کی رھبری کے لئے امامت و جانشینی کے مسئلہ میں تساھلی وسھل انگا ری سے کام لیں گے اور لوگوں کو سرگردان اور بغیر کسی ذمہ داری کے بے مھار چھوڑ دیںگے ۔عقل وفطرت کھتی ھے کہ یہ کیسے ممکن ھے کہ وہ پیغمبر جس نے لوگوں کے چھوٹے سے چھو ٹے مسائل چاھے مادی ھو ں یا معنوی سبھی کو بیان کر دیا ھو اور اس نے سب سے اھم مسئلہ یعنی رھبری اور اپنی جانشینی کے تعین میں غفلت سے کام لیا ھو اورواضح طور پر لوگوں سے بیان نہ کیاھو!۔
عصمت اورعلم امامت نیزامام کی تعیین کاطریقہ
عقل وسنت نیزقرآن کی نظر میں عصمت امامت کے لئے بنیادی شرط ھے اورغیر معصوم کبھی اس عھدہ کا مستحق قرار نھیں پاسکتا، نبوت کی بحث میں جن دلیلوں کا ذکر انبیاء کی عصمت کے لئے لازم ھونے کے طور پر پیش کیا گیاھے ان کو ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن اور عصمت اما م
<وَاِذابتلیٰ اِبراھیمَ رَبُّہُ بِکلماتٍ فَاٴَتَمَّھُنَّ قالَ اِنِّی جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لَا یَنالُ عَھدیِ الظَّالَمِینَ>اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کاامتحان لیا اور انھو ںنے پوراکردیا تو اس نے کھا کہ ھم تم کو لوگوں کاامام اورقائد بنا رھے ھیں انھوںنے عرض کیا کہ کیا یہ عھدہ میری ذریت کو بھی ملے گا؟ارشاد ھو اکہ یہ عھدئہ امامت ظالمین تک نھیں پھونچے گا ۔[4]
ظالم اور ستمگر کون ھے ؟
اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ اس بلند مقام کاحقدار کو ن ھے او ر کون نھیں ھے یہ دیکھنا پڑے گا کہ قرآن نے کسے ظالم کھا ھے ۔؟
کیونکہ خدانے فرمایاھے :کہ میرا یہ عھدہ ظالمین کو نھیں مل سکتا ۔قرآن نے تین طرح کے لوگو ں کو ظالم شمار کیاھے ۔
۱۔ جولوگ خدا کا شریک مانیں <یَا بُنَيَّ لَاتُشرِک باللَّہِ اِنَّ الشِّرکَ لَظُلمُ عَظِیمُ> لقمان نے اپنے بیٹے سے کھا:بیٹا خبردار کسی کو خد ا کاشریک نہ بنانا کیونکہ شرک بھت بڑا ظلم ھے۔ [5]
۲۔ ایک انسان کادوسرے انسان پر ظلم کرنا:<اِنَّما السَّبیلُ عَلیٰ الَّذینَ یَظلِمُونَ النَّاسَ وَیَبغُونَ فِی الاٴَرضِ بِغَیرِ الحَقِّ اٴُولئِک لَھُم عَذَابُ اٴلِیمُ >الزام ان لوگوں پر ھے جولوگوں پر ظلم کرتے ھیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلا تے ھیں انھیں لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ھے۔ [6]
۳۔ اپنے نفس پر ظلم کرنا:<فَمِنھُم ظَالمُ لِنَفسِہِ وَمِنھُم مُقتَصِدُ وَمِنھُم سَابِقُ بِالخَیراتِ> ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ھیں اور بعض اعتدال پسند ھیں اور بعض خداکی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ھیں ۔[7]
انسان کو کمال تک پھنچنے اور سعادت مند ھو نے کے لئے پیدا کیا گیاھے، اب جس نے بھی اس راستہ سے روگردانی کی او رخدا ئی حد کو پار کیا وہ ظالم ھے <وَمَنْ یَتعَدَّ حُدُودَاللَّہِ فَقَد ظَلَمَ نَفسَہُ>جس نے بھی خدا کے حکم سے روگردانی کی، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ [8]
قرآن میں ان تینوں پر ظلم کااطلاق ھوتاھے لیکن حقیقت میں پھلی اوردوسری قسم کے ظلم کااطلاق بھی اپنے نفس ھی پر ھوتاھے ۔
نتیجہ :چار طرح کے لوگ ھیں
۱۔ جوابتداء زندگی سے لے کر آخر عمر تک گناہ اور معصیت کے مرتکب ھوتے رھے ۔
۲۔ جنھو ںنے ابتداء میں گناہ کیا،لیکن آخری وقت میں توبہ کر لیا اورپھر گناہ نھیں کرتے ۔
۳ کچھ ایسے ھیں جو ابتدا میں گناہ نھیں کرتے لیکن آخری عمر میں گناہ کرتے ھیں۔
۴۔ وہ لوگ جنھوں نے ابتداء سے آخر عمر تک کوئی گناہ نھیں کیا۔
قرآ ن کی رو سے پھلے تین قسم کے لوگ مقام امامت کے ھرگز حقدار نھیں ھوسکتے ،کیو نکہ ظالمین میںسے ھیں اور خدا نے حضرت ابراھیم سے فرمایاکہ ظالم اس عھدہ کا حقدار نھیں بن سکتا، لہٰذا مذکورہ آیة سے یہ نتیجہ نکلاکہ امام او ررھبر کو معصوم ھونا چاہئے اور ھر قسم کے گناہ او رخطا سے پاک ھو اگر ان تمام واضح حدیثوں کو جو رسول اسلام سے امام علی(علیہ السلام) اور گیارہ اماموں کی امامت کے سلسلہ میں ھیں، یکسر نظر اندا ز کر دیا جائے، تب بھی قرآن کی رو سے مسند خلا فت کے دعویدار افراد خلا فت کے مستحق او رپیغمبر کی جانشینی کے قابل بالکل نھیں تھے کیو نکہ تاریخ گواہ ھے کہ یہ ظالم کے حقیقی مصداق تھے اور خدا نے فرمایا ھے کہ ظالموں کو یہ عھدہ نھیں مل سکتا اب فیصلہ آپ خو د کریں!
۱۔ وہ لوگ جو ابتداء عمر سے ھی کافر تھے ۔
۲۔ وہ لوگ جنھوں نے بشریت پر بالخصوص حضرت علی (علیہ السلام) وفاطمہ زھرا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ظلم کیا ۔
۳۔وہ لوگ جنھو ںنے خو د اعتراف کیا کہ میں نے احکام الٰھی کی مخالفت کی اور اپنے نفس پر ظلم کیا، کیا ایسے لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ اور جانشین بن سکتے ھیں۔ ؟
علم امام
امام کو چاہئے کہ وہ ان تمام احکام وقوانین کوجانتا ھو جولوگوں کے لئے دنیا اور آخرت کی سعادت کے لئے ضروری ھیں یعنی امام کا علم اھل زمین کے تمام لوگو ں سے زیادہ ھو، تاکہ وہ رھبری کا حقدار بن سکے وہ تمام دلیلیں جو امام کی ضرورت کے لئے ھم نے بیان کی ھیں، وھی یھاں بھی امام کے افضل واعلم ھونے پر دلالت کر تی ھیں، قرآن نے اس کی طرف اس طرح اشارہ کیا ھے :<اٴَفَمَنْ یَھدِی اِلیٰ الحَقِّ اٴَحَقُ اٴنْ یُتَّبَعَ اٴمَنَ لَایَھدِّیِ اِلَّا اٴنْ یُھدیٰ فَما لَکُمْ کَیفَ تَحکُمُونَ>او رجو حق کی ھدایت کرتا ھے وہ واقعا قابل اتباع ھے یا جو ھدایت کرنے کے قابل بھی نھیں ھے مگر یہ کہ خود اس کی ھدایت کی جائے آخر تمھیں کیا ھوگیاھے اورتم کیسے فیصلے کر رھے ھو۔ [9]
اما م کے تعیین کا طریقہ
جب ھم نے امام کے صفات اور کمالات کوپھچان لیاتو اب یہ دیکھنا ھے کہ
ایسے امام کو کس طریقہ سے معین ھونا چاہئے۔
آج کل کی دنیا میں ذمہ دار اور عھدہ دار کے چننے کابھترین طریقہ انتخا بات ھے( چناؤ کے ذریعہ ) البتہ یہ چناوٴ را ہ حل تو ھوسکتا ھے لیکن ھمیشہ راہ حق نھیںھوتا کیونکہ چناؤ واقعیت کو تبدیل نھیں کر سکتا نہ حق کو باطل اور نہ باطل کو حق بنا سکتا ھے،ھر چندکہ عملی میدان میں اکثریت کو مد نظر رکھا جاتاھے لیکن یہ چنے ھو ئے فرد کی حقانیت کی دلیل نھیں ھے ،تاریخ گواہ ھے کہ انتخابات میں بعض لوگ اکثریت کے ذریعہ چنے گئے پھر تھوڑے یازیادہ دن کے بعدیہ پتہ چل جاتا ھے کہ یہ انتخاب اور چناؤسے آنے والا شخص غلط تھا حقیقت یہ ھے کہ ھم علم غیب یاآئندہ کی بات نھیں جانتے لوگوں کے باطن کے سلسلہ میں ھم کس طرح حتمی فیصلہ یا صحیح فیصلہ کر سکتے ھیں۔؟
لہٰذا کبھی بھی اکثریت حق کی دلیل اور اقلیت باطل کی دلیل نھیں بن سکتی دوسری طرف قرآن نے تقریبا ً اسی مقامات پر اکثریت کی مذمت کی ھے اور سورہ انعام کی آیة ۱۱۶ میں ارشاد ھوتا ھے:<وَاٴنْ تُطِع اٴَکثَرمَنْ فیِ الاٴرضِ یُضلُّوکَ عَن سَبِیلِ اللَّہِ اِن یَتَّبِعُونَ اِلاَّالظَّنَّ وَاِن ھُم اِلَّایَخرصُوُنَ>اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کریں گے تویہ راہ خدا سے بہکا دیں گے یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ھیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ھیں۔
اس سے ھٹ کر امامت اوررھبری کاکام فقط دین اور سماجی زندگی کو چلانے کا نام نھیں ھے بلکہ امام دین کا محافظ اور دین ودنیا میںلوگوں کی حفاظت کرنے والا ھے لہٰذا ضروری ھے کہ وہ ھرگز گناہ وخطا سے معصوم ھواور تمام لوگوں میں افضل واعلم ھو اور ایسے شخص کو لوگ نھیں چن سکتے کیونکہ لوگوں کو کیا معلوم کہ کو ن شخص صاحب عصمت اور علوم الٰھی کاجاننے والا اوردوسری فضیلتوں کامالک ھے تاکہ اسے چنا جائے چونکہ صرف خدا انسان کے باطن اور مستقبل سے باخبر ھے لہٰذا اس کو چاہئے کہ بھترین شخص کو اس مقام کے لئے چنے اور اسے اس کی شایان شان کمال سے نواز کر لوگوں کے سامنے پھچنوائے ۔
امام کیسے معین ھوگا ؟
رسول کے بعد امامت وپیشوای یعنی کار رسالت کوانجام دینا،امام اوررسول میںبس فرق یہ ھے کہ رسول بانی شریعت اور صاحب کتاب ھوتاھے اور امام اس کے جانشین کی حیثیت سے محا فظ شریعت اور اصول دین وفروع دین کابیا ن کرنے والا اورنبوت کی تمام ذمہ داریوں کونبھانے والاھوتا ھے جس طرح نبی کاانتخاب خدا کے ھاتھ میں ھے اسی طرح امام کاانتخاب بھی خدا کی جانب سے ھوناچاہئے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیة ۱۲۴ میںھے کہ امامت عھدخداوندی ھے اورخدا کاعھدہ انتخاب اور چناؤ سے معین نھیں ھوسکتا کیونکہ چناؤ اورشوری لوگوں سے مربوط ھے۔
جن دوآیتوں میںمشورت کا ذکر کیاھے وھاں لفظ امر آیا ھے <وَاَٴمرُھُم شُوریٰ بَینَھم ><وشَاورْھُم فیِ الاٴَمرِ> ان دو آیتوں میں جومشورت کے لئے کھاگیاھے وہ معاشرتی امور لوگو ں کے لئے ھے اور یہ خدا کے عھدوپیمان میں شامل نھیں ھو گا سورہ قصص کی ۶۸ آیة میں ارشاد ھوتا ھے<و َرَبُّک یَخلُقُ مَا یَشاءُ وَ یَختَارُ مَا کَانَ لَھُمُ الخِیَرةُ>اور آپ کا پرور دگار جسے چاھتا ھے پیدا کرتاھے اور پسند کرتاھے ۔
ان لوگوں کو کسی کا انتخاب کرنے کاکوئی حق نھیں ھے مرحوم فیض کاشانی تفسیر صافی میں اس آیت مذکورہ کے ذیل میں حدیث نقل کرتے ھیں کہ: جب خداوند عالم کسی کو امامت کے لئے منتخب کردے تو لوگ دوسرے کی طرف ھرگز نھیں جاسکتے اور دوسری حدیث میں ارشاد ھوا :
چناؤ میں خطا کے امکان کی بناپر اس کی اھمیت کم ھو جا تی ھے صرف خدا کاچناھوا اھمیت کا حامل ھوسکتا ھے چونکہ صرف وہ ھمارے باطن اور مستقبل کوجانتا ھے لمّاکَانَ النبّیِّ یَعرضُ نَفسَہُ علیٰ القبائل جاءَ الیٰ بنَی کلابِ فقالوا : نُبایعک علیٰ اٴَن یکون لنا الاٴمر بعَدک فقال: الاٴَمر للَّہ فاِن شاَء کان فیکم اٴَوفیِ غیرکم ،جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبیلوں میںجاکر لوگوں کو دعوت دیتے تھے جب قبیلہ بنی کلاب میں گئے تو ان لوگوں نے کھا ھم اس شرط پرآپ کی بیعت کریں گے کہ امامت آپ کے بعد ھمارے قبیلہ میں رھے حضرت نے فرمایا: امامت کی ذمہ داری خداکے ھاتھ میں ھے اگروہ چاھے گا تو تم میں رکھے گا یاتمھارے علاوہ کسی او ر میں۔ [10]
[1] سورہ بقرہ آیة :۲۹
[2] سورہ نحل آیة :۱۲
[3] سورہ توبہ آیة ۱۲۸
[4] سورہ بقرہ آیة: ۱۲۴
[5] سو رہ لقمان آیة: ۱۳
[6] سورہ شوری آیة: ۴۲
[7] سورہ فاطر آیة: ۳۲
[8] سورہ طلا ق آیة: ۱
[9] سو رہ یونس آیة :۳۵
[10] بحارالانوار جلد،۲۳ ص ۷۴
source : http://www.balaghah.net