اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

اللہ کو قرضِ حسنہ دیجے!

حضور نبی کریم صلی اللہ  علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام کی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ یہ آیت نازل ہوتی ہی: واقرضواللہ قرضاحسنا وماتقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عنداللہ ھو خیرا واعظم اجرا (المزمل:20) ”اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاﺅ گی، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔“ اسی مجلس میں موجود حضرت ابوالدحداحہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ ذات تو قرض سے بے نیاز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں اللہ ہی قرض مانگتے ہیں، اس کے بدلے میں وہ تمھیں جنت میں داخل کردیں گے۔“ انھوں نے پھر عرض کیا: یارسول اللہ اگر میں اپنے پروردگار کو قرض دوں توکیا وہ مجھے اور میری بچی دحداحہ کو جنت میں داخل کرے گا؟آپ نے فرمایا: ”ہاں“۔ تو انھوں نے کہا: لائیے اپنا دست ِ مبارک بڑھائیے۔ آپ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اسے پکڑ کر کہنے لگے کہ دو باغ میری ملکیت میں ہیں، ایک مدینے کے زیریں علاقے میں ہے اور دوسرا بالائی حصے میں۔ ان دو باغوں کے علاوہ اللہ کی قسم اور کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے۔ میں یہ دونوں باغ اللہ کو قرض دیتا ہوں۔آپ نے فرمایا ”ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں دے دو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گزر اوقات کے لیے رکھ لو۔“ اس پر ابوالداحداحہ ؓنے کہا: پھر اے اللہ کے رسول ان میں سے جو بہتر ہے وہ اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ آپ گواہ رہیں اس باغ میں چھ سوکھجور کے درخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس انفاق کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں داخل کرے گا۔“ حضرت ابوالدحداحہؓ مجلس سے اٹھے اور سیدھے باغ میں پہنچے جہاں ام دحداحہ اپنے بچوں کے ہمراہ کھجوروں کے درختوں میں پھر رہی تھیں۔

انھیں دیکھ کر کہا: میں نے یہ باغ اللہ کو بطور قرض خوش دلی سے دے دیا ہے۔ یہ سنتے ہی بیوی اپنے شوہر کی تحسین کرتے ہوئے بچوں کو لے کر باغ سے نکل گئی اور بچوں کے دامن و جیب میں جو کھجوریں تھیں اور جو ان کے منہ میں تھیں سب نکلوا کر وہیں ڈھیر کردیں۔اس آیت کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت ابوعقیل انصاریؓ نے ایک عجیب و غریب مثال قائم کی۔ خود اپنی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے ہی میں تڑپ اٹھا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا کہ خرچ کروں۔ آخر کام کی تلاش میں نکل پڑا تو اللہ تعالیٰ نے میری تمنا پوری فرمادی۔ مجھے ایک یہودی کے ہاں مزدوری مل گئی۔ ساری رات اپنی پیٹھ پر پانی لاد کر میں اس کے کھیت کو پانی لگاتا رہا اورصبح تک اپنا کام پورا کرلیا۔

صبح ہوئی تو اس یہودی نے دو صاع کھجوریں مزدوری میں دیں، ایک صاع نکال کر اپنے گھر والوں کے لیے لے گیا اور دوسرا صاع اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے دربار رسالت مآب میں حاضر کردیا۔ صحابہ کرامؓ کے اس جذبے سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں ان کی تحسین فرمائی: ”کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ہاں وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔“قرآن مجید کی پانچ مختلف آیات میں اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دینے کی تاکید و ترغیب دی گئی ہے تاکہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کی جاسکیں، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے خود کو قرض حسنہ دینے سے تعبیر کیا ہے۔ اِس دفعہ رمضان المبارک ایسے عالم میں ہم پر سایہ فگن ہوا ہے کہ چاروں طرف سیلاب ہی، دردو غم میں ڈوبی ہوئی آہ و بکا ہے۔اور نقصان ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔ بیسیوں شہر، سینکڑوں قصبی، ہزاروں دیہات اور بستیاں اور کروڑوں انسان اس کی لپیٹ میں ہیں۔ مال ومتاع کے ساتھ لوگوں کی آرزوئیں اور امیدیں بھی پانی میں بہہ گئی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک بڑی آزمائش ہے اور جو لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں ان کے لیے یاددہانی ہے۔ فی الحقیقت سیلابی صورت حال صرف متاثرین کی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر سیلاب سے محفوظ لوگوں کی آزمائش ہے۔ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے کہ کل روز محشر انھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کی جوابدہی کرنا ہوگی کہ انھوں نے اپنے متاثرہ پریشان حال بھائیوں کی بحالی و امداد کے لیے کیا کچھ کیا۔ روزِمحشر اپنے فرض کی ادائیگی کے بغیر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔

قیامت کے دن ان سے پوچھا جانا ہے کہ تم تو ٹھیک ٹھاک تھی، سحری و افطار بھی کرتے تھی، زندگی کے اچھے دن بھی گزارتے تھی، مہنگے کپڑے اور پرفیوم بھی خریدتے تھی، لیکن جنھیں تم نے یاد رکھنا تھا، انھیں تم بھول گئے تھے اور اس آزمائش کو تم نے ان کی آزمائش سمجھ لیا تھا۔ اس جوابدہی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے راستے میں جی بھر کر انفاق کیا جائے اور اپنی جیب سے جو کچھ دیا جاسکتا ہو، دیا جائے۔ یہ اعلان اکثر سننے میں آتا ہے کہ کرکٹ میچ ہورہا ہے یا چیریٹی شو منعقد کیا جارہا ہے تاکہ اس سے جو پیسے جمع ہوں وہ سیلاب زدہ لوگوں کو دیے جائیں۔ تو یہ میچ یا چیریٹی شو ہم اپنے اندر کیوں نہ کریں۔ ہمارا زندگی کی لذتوں کے ساتھ ایک میچ ہو، عید کے اخراجات اور نئے کپڑے بنانے کے شوق و ذوق کے ساتھ ایک میچ ہو تاکہ کچھ پیسے بچاکر متاثرین تک پہنچائے جائیں۔ یہ آج ان کے ساتھ ہوا ہی، کل ہمارے ساتھ ہوسکتا ہے۔

لہٰذا اس لمحے سے ڈرتے ہوئے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے دست و بازو بنیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق رمضان ہمدردی و غمخواری، لوگوں کے دکھوں کو بٹانے اور ان کے غموں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا مہینہ ہے۔ اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنا اور مخلوق خدا کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا درجات کی بلندی اور اللہ کی ناراضی کو دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنھیں اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں، اور جب تک وہ اللہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے اللہ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نوازتا رہے گا، اور جب وہ خدا کے بندوں کو محروم کردیںگے تو اللہ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فرما لے گا اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطا فرما دے گا۔ (مشکوٰة شریف)جماعت اسلامی کے کارکنان پورے پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے گھر گھر دستک دے رہے ہیں، ہر علاقے میں امدادی کیمپ قائم ہیں اور فنڈز اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ جوکارکنان متاثرہ علاقوں میں ہیں، خود پانیوں میں گھرے ہوئی، مشکلات اور آزمائش و تباہی کا شکار ہیں، وہ بھی اپنے بھائیوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہی جماعت اسلامی اور اس کے کارکنان کی روایت رہی ہے۔ دکھی لوگوں کی خدمت اوران کے دکھوں کا مداواکرناان پر کوئی احسان نہیں بلکہ ایک بنیادی فرض ہی،اورمتاثرین کے حالات کا تقاضا ہے کہ ان کے ریسکیو اور امدادکے کام کو شرعی فریضہ سمجھ کر انجام دیاجائے۔اس وقت جماعت اسلامی اور اس کے ہر کارکن کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ متاثرین سیلاب کی دیکھ بھال کی جائی، انھیں خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں،اور جب تک وہ کیمپوں میں مقیم ہیں ان کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے اوربالآخر انھیں واپس ان کے گھروں میں بسایا جائے۔ظاہر ہے کہ اس بڑے چیلنج سے جماعت اسلامی اور الخدمت فاﺅنڈیشن تنہا نہیں نمٹ سکتیں۔ اس کے لیے ہمیں قوم کے تعاون کی ضرورت ہے۔

قوم نے جماعت اورالخدمت کی امانت و دیانت کی وجہ سے پہلے بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے اور الحمدللہ ہم اس اعتماد پر پورا اترے ہیں۔ آئندہ بھی اپنی اس انفرادیت کو برقرار رکھیں گے اور سیلاب زدگان کی مکمل بحالی اور آبادکاری تک ہماری امدادی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات شاید حیرانی کا باعث ہو کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں ابھی تک جماعت اسلامی اور الخدمت فاﺅنڈیشن کا ریلیف و بحالی آپریشن جاری ہے۔جماعت اسلامی اورالخدمت فاﺅنڈیشن کو اپنے عطیات دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضرور حقداروں تک پہنچیں گی،اس لیے کہ مرکز سے لے کر یونین کونسل کے نظم تک چیک اینڈ بیلنس کا نظام جماعت اسلامی کا خاصا ہی، اور ہر سطح کے بیت المال کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔ جب آپ نقد رقم یا کسی دوسری شکل میں عطیہ دے کر رسید حاصل کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عطیہ وہاں پہنچ کر رہنا ہے جس مقصد کے لیے وہ دیا گیا ہے۔ پھر یونین کونسل اور قصبوں تک جماعت اسلامی اور الخدمت فاﺅنڈیشن کا نظم موجود ہے اور الحمدللہ تمام کارکنان فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں۔ ریلیف کے کام پر کوئی انتظامی اخراجات نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا، اپنی آخرت کی بہتری اور جنت کا حصول الخدمت فاﺅنڈیشن کے رضاکاروں کا مطمح نظر ہے۔ یوں آپ جو امداد الخدمت کے ذریعے دیتے ہیں وہ پوری کی پوری متاثرین پر خرچ ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی اور الخدمت فاﺅنڈیشن بلاتفریق مسلک و مذہب اور رنگ و نسل متاثرین کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ سندھ اور کراچی میں ہندو خاندان بھی الخدمت کی خیمہ بستیوں میں موجود ہیں۔ اور پشاور میں خیبر پختون خوا کی سکھ برادری نے ایمبولینسوں کا تحفہ الخدمت فاﺅنڈیشن کے حوالے کیا ہے۔ جماعت اور الخدمت کے کارکنان کو زلزلہ زدگان اور آئی ڈی پیز کی خدمت کا تجربہ حاصل ہے اور ریسکیو، ریلیف اور بحالی کا سارا کام ایک نظم کے تحت اور مکمل تفصیلات کے ساتھ انجام پاتا ہے۔ اگر قوم رمضان کے آخری لمحات سے فائدہ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دینے اور آخرت میں بہترین اجر پانے کی نیت سے عطیات جمع کرائے اور حضرت ابوالدحداحہؓ اور حضرت ابوعقیل انصاریؓکے نقش قدم پر چلے تو متاثرین کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقيدہ توحيد اور شرک
انسان کی انفردی اور اجتماعی زندگی پر ایمان کا اثر
خدا کے نزدیک مبغوض ترین خلائق دوگروہ ہیں
معاد کے لغوی معنی
اخباری شیعہ اور اثنا عشری شیعہ میں کیا فرق ہے؟
اصالتِ روح
موت کی ماہیت
خدا کی نظرمیں قدرو منزلت کا معیار
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
خدا اور پیغمبر یہودیت کی نگاہ میں

 
user comment