اردو
Monday 16th of December 2024
0
نفر 0

فتح مکہ اور بعد کے چند اہم حالات

قریش کی عہد شکنی

روانگی کی تاریخ ۱۰۰ رمضان سنہ ۸ ہجری قمری

فتح کی تاریخ ۱۹۰ رمضان سنہ ۸ ہجری قمری

رسول خدا اس فکر میں تھے کہ مکہ یہ خانہ توحید جو مشرکین کے گھیرے میں ہے اس کو آزاد کرا دیں۔ لیکن اس سے صلح حدیبیہ مانع تھی۔ مسلمان نہیں چاہتے تھے کہ اس معاہدہ کو کچل کر مکہ فتح کریں جس کی رعایت کے لیے انہوں نے اپنے کو پابند بنایا تھا۔ لیکن جب کسی امت کا وقت قریب آتا ہے اور مہلت کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو الٰہی قانون کے مطابق ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ایک قوم یا گروہ کا خاتمہ ہو جائے اور ان کے مدمقابل کے لیے کامیابی کا راستہ کھل جائے۔

موتہ کی جنگ اس بات کا سبب بنی کہ قریش مسلمانوں کو کمزور سمجھنے لگے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑنے کی سوچنے لگے۔ اس لیے کہ جب رومیوں کے مقابلہ سے مسلمانوں کے بیٹھ رہنے کی خبر مکہ میں پہنچی تو قریش نے اس کو لشکر اسلام کی کمزوری پر محمول کیا اور مسلمانوں کے ہم پیمان اور ہمدرد قبیلوں پر ان کی جرأت بڑھ گئی۔

صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق کوئی بھی قبیلہ دونوں گروہوں، قریش یا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرسکتا تھا۔ خزاعہ نے ممد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور بنی بکر نے قریش سے معاہدہ کیا سنہ ۸ ہجری میں خزاعہ اور بنی بکر کے درمیان جھگڑا ہوا قریش نے اس حملہ میں خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی خفیہ طریقہ سے مدد کی، چہرہ پر نقاب ڈال کر ان کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔

حملہ کرنے کی فکر میں ہیں۔

پیغمبر کے حکم سے لشکر تیار ہوا اور اس کی سپہ سالاری عمرو بن عاص کے سپرد ہوئی۔ کیونکہ ان کی بڑی ماں قبیلہ بکی سے تھیں رسول خدا نے چاہا کہ عمر عاص کو سپہ سالاری دے کر اس گروہ کے قلب کو اسلام کی طرف مائل کیا جائے عمرو بن عاص دن میں کمین گاہ میں چھپے رہتے اور راتوں کو سفر کرتے جس وقت دشمن کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ رسول خدا نے ابوعبیدہ جراح کو دو سو افراد کے لشکر کے ایک دستہ کے ساتھ ان کی مدد کے لیے بھیجا عمرو بن عاص کے لشکر نے ابوعبیدہ کے امدادی لشکر کے ساتھ قبائل بکی، عذرہ اور بلقین کے تمام رہائشی علاقہ کا دورہ کیا لیکن دشمن پہلے ہی آگاہ ہو کر اس علاقہ سے بھاگ چکے تھے۔ صرف آخری مقام پر لشکر اسلام اور لشکر کفر کے درمیان ایک گھنٹہ تک ٹکراؤ ہوا جس میں ایک مسلمان زخمی ہوا اور دشمن شکست کھا کر فرار کرگیا۔ 

(مغازی واقدی جلد۲ ص ۷۷۲،۷۷۹ تاریخ طبری ج۳ ص ۳۳،۳۲ ملخص)

(شیعہ مدارک میں یہ واقعہ یوں درج ہے۔ رسولِ خدا نے صحابہ میں سے تین افراد ابوبکر، عمر اور عمرو بن عاص) کو اس سریہ کا امیر مقرر فرمایا۔ لیکن وہ لوگ جنگی کامیابی حاصل نہ کرسکے اس لیے آنحضرت نے چوتھی بار علی علیہ السلام کو امیر بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا اور آنحضرت نے علی علیہ السلام اور سپاہیوں کو مسجد احزاب تک رخصت کیا۔

علی علیہ السلام صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہوئے، دشمن ایک گروہ کثیر کے ساتھ حملہ روکنے کے لیے آگئے۔ لیکن علی علیہ السلام کی بے امان جنگ و پیکار نے دشمن کے دفاعی حملہ کو ناکام بنا دیا اور دشمن کو شکست دینے کے بعد علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز ہو کر مالِ غنیمت اور اسیرانِ جنگ کے ساتھ رسول کی خدمت میں پلٹے پرورگار قھار سورہ والعادیات میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ والعادیات صنباہ فالموریت قد حاہ فالمغیرات ضحجا فاثرن بہ نقعا فوسطن بہ جمعاہ

قسم ہے ان گھوڑوں کی جو نتھنوں پر پتھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں پھر صبح دم حملے کرتے ہیں۔ (کفار کے دیار میں وہ) گرد و غبار بلند کرتے ہیں اور دشمن کے دل میں گھس جاتے ہیں۔

ارشاد شیخ مفید ص ۹۰،۸۹ مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۲۸ بحارالانوار ج۲۱ ص ۷۶،۷۷ مناقب ابن شہر آشوب ج۳ ص ۱۴۲،۱۴۰)

لشکر مدینہ واپس آیا، لوگ نہایت برانگیختہ اور غیظ و غضب کے عالم میں تھے۔ اور سپاہی ملول و خاموش، لوگ آگے بڑھے اور خاک اٹھا کر سپاہیوں کے چہروں پر ڈالنے اور شور کرنے لگے کہ ”اے فراریو، تم لوگ خدا کے راستے سے فرار کرتے ہو؟ سپاہی اپنے گھروں میں چلے گئے اور ملامت کے خوف سے ایک مدت تک گھروں سے باہر نہ نکلے۔ یہاں تک کہ نماز عماعت میں بھی نہیں آتے تھے۔ پیغمبر نے فرمایا:

”یہ لوگ فراری نہیں ہیں اور انشاء اللہ حملہ کرنے والے ہو جائیں گے۔“ 

(مغازی ج۲ ص ۷۶۵)

رسول خدا جعفر ابن ابی طالب کے سوگ میں

مسلمان خصوصاً جعفر کی موت سے رسول خدا بے حد غمگین تھے، جعفر کے شہید ہونے کی وجہ سے آپ شدت کے ساتھ گریہ کر رہے تھے جعفر کے گھر والوں کی تسلی کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے فرمایا کہ:

”میرے بچے، عون و محمد و عبداللہ کہاں ہیں؟“

جناب جعفر کی بیوی ”اسماء“ جعفر کو بیٹوں کو رسول خدا کی خدمت میں لائیں۔ آنحضرت نے شہید کے بچوں کو پیار کیا، گلے لگایا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر داڑھی پر بہنے لگے۔ جعفر کی یوی نے پوچھا:

”اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ فر فدا ہوں۔ آپ میرے بچوں پر اس طرح نوازشیں کر رہے ہیں جیسے کسی یتیم پر ہوتی ہیں گویا ان کے باپ اس دنیا میں نہیں رہے؟“

رسول خدا نے فرمایا: ہاں وہ قتل کر دیئے گئے۔ پھر فرمایا:

اے اسماء ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زبان سے کوئی ناروا بات نکالو اور سینہ کوبی کرو میں تم کو مژدہ سناتا ہوں، خدا نے جعفر کو دو پر عنایت کئے ہیں جن سے وہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں۔(بحارالانوار ج۲۱ ص ۵۶، ۵۷)

جنگ ذات السلاسل

جمادی الثانی سنہ ۸ ہجری قمری میں

رسول خدا کو یہ اطلاع ملی کہ قبائل ”بکی“ اور ”قضاعہ“ کے کچھ لوگ جمع ہو گئے ہیں اور مدینہ پر پہنچانے کے لیے عمرو ابن خزاعہ کو رسول خدا کی خدمت میں بھیجا وہ مدینہ میں وارد ہوا اور سیدھے مسجد کی طرف پہنچا اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اس نے مخصوص انداز سے ایسے دردناک اشعار پڑھے جو قبیلہٴ خزاعہ کے استغاثہ اور مظلومیت کی حکایت کر رہے تھے۔ آپ کا جو معاہدہ خزاعہ سے تھا اس کے واسطہ سے پیغمبر کو اس نے قسم دلائی اور ان سے فریاد رسی کا طلبگار ہوا کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلب یہ تھا۔

رسول خدا آدھی رات کو ہم جب ”وتیرہ“ کے کنارے تھے اور ہم میں سے کچھ لوگ رکوع و سجود میں تھے تو مشرکین نے ہم پر حملہ کر دیا۔ درآں حالانکہ ہم مسلمان تھے۔ انہوں نے ہمارا قتل عام کیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۳۹)

عمرو کے جاں گداز اشعار سے رسول خدا کا دل درد سے تڑپ اٹھا۔ لہٰذا آپ نے فرمایا:

”اے عمرو ہم تمہاری مدد کریں گے۔“

لشکر اسلام کی آمادگی

رسول خدا نے روانگی کا مقصد بتائے بغیر لشکر اسلام کو آمادہ رہنے کا حکم دیا اور قریبی قبائل اور مدینہ والوں کو اس میں شریک کیا آپ نے مجموعی طور پر دس ہزار جانبازوں کو روانگی کے لیے آمادہ کرلیا کسی کو خبر نہیں تھی کہ واقعی اس آمادگی کا مقصد کیا ہے؟ اور لشکر کا آخری ہدف کہاں جا کر تمام ہوگا؟ اس لیے کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ حدیبیہ کا معاہدہ ابھی تک باقی ہے۔

راستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے چیک پوسٹ

رسول خدا دشمن کو غافل رکھنے کے لیے نہایت خفیہ طریقہ سے قدم اٹھا رہے تھے اور بہت باریک بینی سے کام لے رہے تھے اس کام کے لیے آپ کے حکم سے مدینہ کے تمام راستوں پر پہرے بیٹھا دیئے گئے تھے اور مشکوک افراد کی رفقت و آمد پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش کے جاسوس لشکر اسلام کی روانگی سے آگاہ ہو جائیں۔

حضور نے دعا کی خدایا! آنکھوں کو اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کر دے تاکہ ہم ان کے سروں پر اچانک ٹوٹ پڑیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۳۹)

ایک جاسوس جال میں

سخت حفاظتی تدابیر کے باوجود، حاطب ابن ابی بلتعہ نامی ایک مسلمان نے اس لالچ میں آکر کہ اگر اس نے قریش کی کچھ خدمت کر دی تو اس کے وابستگان مکہ میں گزند سے محفوظ رہیں گے اور یہ سمجھ کر کہ رسول خدا شاید مکہ کا ہی قصد رکھتے ہوں، ایک خط قریش کو لکھا تاکہ ان کو خبر کر دے اور یہ خط اس نے سارہ نامی ایک عورت کے حوالہ کیا جو پہلے ایک گانے والی تھی اور کچھ پیسے بھی دیئے تاکہ وہ دوسرے راستوں سے مدینہ سے مکہ جائے اور یہ خط قریش کے سرکردہ افراد تک پہنچا دے۔

جبرئیل امین نے آکر پیغمبر کو یہ خبر پہنچا دی اور رسول خدا نے بلاتاخیر علی ابن ابی طالب کو زبیر کے ساتھ اس عورت کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ کیا وہ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف چلے اور راستہ میں مقام ”خلیقہ“ میں اس عورت کو گرفتار کرکے اس کے سامان کی تلاشی لی لیکن کوئی خط نہیں ملا، سارہ نے بھی کسی خط یا کسی خبر کے اپنے ساتھ رکھنے کا شدت سے انکار کیا۔ لیکن علی نے بہ آواز بلند کہا کہ ”خدا کی قسم پیغمبر کبھی بھی غلط بات نہیں کہیں گے لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے خط نکال دے ورنہ میں تجھ سے خط نکلوا لوں گا۔“ عورت نے جب دھمکی کو یقینی سمجھا تو کہنے لگی: ”آپ لوگ ذرا دور ہٹ جائیں میں خط دے رہی ہوں اس وقت اس نے اپنے جوڑے میں سے ایک خط نکالا اور علی علیہ السلام کے حوالہ کر دیا۔

رسول خدا نے خط لکھنے والے کو طلب کیا اور اس سے پوچھ تاچھ شروع کی اس نے خدا کی قسم کھائی اور کہا کہ اس کے ایمان میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لیکن چونکہ میری بیوی بچے مشرکین قریش کے ہاتھوں میں اسیر ہیں، اس لیے میں نے چاہا کہ اس خبر کے ذریعہ میرے گھر والوں کی تکلیف میں کچھ کمی ہو جائے۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۰،۴۱)

ایسا واقعہ پھر نہ دہرایا جائے اس غرض سے چند آیتیں نازل ہوئیں ایک آیت میں اشارہ ہوتا ہے:

”اے ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ اور ان کے ساتھ محبت اور دوستی نہ جتاؤ۔“ (ممتحنہ آیت:۱)

پیغمبر نے اس کی جالہانہ خطا کو معاف کر دیا اور اس کی توبہ قبول کرلی۔

مکہ کی جانب

کہاں جانا ہے اور کس مقصد سے جانا ہے یہ تو معلوم نہ تھا اس کے علاوہ حکم صادر ہونے کے وقت تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کس وقت جانا ہے۔ رمضان کی دسویں تاریخ سنہ ۸ ہجری کو روانگی کا حکم صادر ہوا۔

رسول خدا نے مدینہ کے باہر لشکر اسلام کا معائنہ کیا پھر آپ نے روانگی کا حکم دیا اور مدینہ سے تھوڑے سے فاصلہ (حدترخص) پر پانی مانگ کر اپنا روزہ افطار کیا اور سب کو حکم دیا کہ اپنا روزہ افطار کرلیں۔ بہت سے لوگوں نے افطار کرلیا لیکن ایک گروہ نے یہ سوچا کہ اگر روزہ کی حالت میں جہاد کریں تو اس کا زیادہ اجر ملے گا۔ رسول اللہ اس گروہ کی حکم عدولی سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ لوگ گنہگار اور سرکش ہیں۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۸۰۲)

لشکر اسلام بغیر کسی توقف کے تیزی سے بڑھتا رہا۔ دس ہزار جانبازوں نے مدینہ سے مکہ کا راستہ ایک ہفتہ میں طے کیا اور رات کے وقت کہ سے ۲۲ کلومیٹر شمال کی جانب ”مرالظہران“ پہنچ کر وہیں خیمہ زن ہوگیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۲)

دشمن کو ڈرانے کے لیے جنگی مشق

پیغمبر نے ”مرالظہران“ میں حکم دیا کہ دس ہزار کا لشکر پورے میدان میں بکھر جائے اور ہر آدمی آگ جلائے تاکہ لشکر اسلام کی عظمت نمایاں ہو اور مشرکین قریش کے دل میں زیادہ سے زیادہ خوف پیدا ہو جائے اور وہ سمجھ لیں کہ اب اس عظیم لشکر سے مقابلہ کی طاقت ان میں نہیں ہے اور ہر طرح کے مقابلہ سے ناامید ہو جائیں، تاکہ مکہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہو جائے اور حرمت خانہ، خدا محفوظ رہ جائے۔

رات کے اندھیرے میں آگ کے شعلے لپک رہے تھے۔ صحرا آگ کا ایک وسیع و عریض جنگل نظر آرہا تھا۔ لشکر اسلام کے ہمہمہ کی آواز دشت میں گونج رہی تھی۔

”ابوسفیان، حکیم ابن حزام“ ار بدیل ابن ورقاء دیکھنے اور پتہ لگانے کے لیے مکہ سے باہر نکلے۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۸۱۴)

دوسری جانب عباس ابن عبدالمطلب جو مقام ”جحفہ“ سے پیغمبر ے ہمرکاب تھے۔ انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ کیا ہی بہتر ہو اگر طرفین کے فائدہ کے لیے کام کیا جائے تاکہ خونریزی نہ ہو۔

لہٰذا سفید گھوڑے پر سوار ہو کر مکہ کی طرف چلے کہ شاید کسی کے ذریعہ لشکر اسلام کے حملہ اور محاصرہ کی خبر قریش کے سربرآوردہ افراد کے کانوں تک پہنچا سکیں اور ان کو دلاوران اسلام کی عظیم طاقت اور بے پناہ جرأت و ہمت سے آگاہ کرکے ہر طرح کے مقابلہ کی بات سوچنے سے باز رکھیں۔

عباس نے رات کی تاریکی میں ابوسفیان کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا:

”میں نے ابھی تک اتنی آگ اور اتنے سپاہی نہیں دیکھے۔“

ابوسفیان کا ساتھی کہہ رہا تھا:

”یہ سب قبیلہ خزاعہ والے ہیں جو جنگ کے لیے جمع ہوگئے ہیں۔“

ابوسفیان نے کہا کہ ”ایسی آگ روشن کرنا اور اس طرح لشکر تشکیل دینا خزاعہ کے بس کی بات نہیں ہے۔“

عباس نے ان کی بات کاٹی اور کہا کہ ابوسفیان۔

ابوسفیان نے عباس کی آواز پہچان لی اور فوراً کہا:

”عباس تم ہو“ کیا کہہ رہے ہو۔ عباس نے جواب دیا ”خدا کی قسم! یہ آتش رسول خدا کے لشکر نے روشن کی ہے وہ ایک طاقتور اور نہ ہارنے والا لشکر لے کر قریش کی طرف آئے ہیں۔ اور قریش میں ان سے مقابلہ کرنے کی ہرگز طاقت نہیں ہے۔“

عباس کی باتوں سے ابوسفیان کے دل میں اور زیادہ خوف پیدا ہوا خوف کی شدت سے کانپتے ہوئے اس نے کہا:

”عباس، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں مجھ کو بتاؤ میں کیا کروں؟ عباس نے جب دیکھا کہ ان کی بات موثر ثابت ہوئی تو فرمایا: ”اب صرف چارہ یہ ہے کہ تم میرے ساتھ رسول خدا کی ملاقات کے لیے آؤ اور ان سے امان طلب کرو ورنہ سارے قریش کی جان خطرہ میں ہے۔“

اس کے بعد آپ نے اس کو اپنی سواری رپ سوار کیا اور لشکر گاہ اسلام کی طرف لے چلے۔

مشرکین کا پیشوا، مومنین کے چنگل میں

عباس نے ابوسفیان کو سپاہ اسلام کی عظیم لشکر گاہ سے گزارا سپاہیوں نے عباس اور پیغمبر کی مخصوص سواری کو جس پر عباس سوار تھے، پہچانا اور ان کے گزرنے سے مانع نہیں ہوئے بلکہ ان کے لیے راستہ چھوڑ دیا آدھے راستے میں عمر کی نظر ابوسفیان پر پڑی اور انہوں نے چاہا کہ اسی جگہ اس کو قتل کر دیں۔ لیکن چونکہ عباس نے ان کو امان دی تھی اس لیے وہ اپنے ارادہ سے باز رہے یہاں تک کہ عباس اور ابوسفیان رسول خدا کے خیمہ کے پاس پہنچ کر گوڑے سے اترے۔ عباس خیمہ میں داخلہ کی اجازت لینے کے بعد پیغمبر کے خیمہ میں آئے۔ پیغمبر کے سامنے عباس اور عمر میں کچھ لفظی جھڑپ ہوئی۔ عمر یہ اصرار کر رہے تھے کہ ابوسفیان دشمن خدا ہے اور اس کو اس وقت قتل ہو جانا چاہیے لیکن عباس کہہ رہے تھے کہ میں نے اسے امان دی ہے۔ پیغمبر نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو ایک خیمہ میں رکھا جائے اور صبح کو پیغمبر کے پاس لایا جائے۔ صبح سویرے عباس ابوسفیان کو پیغمبر کے حضور میں لائے۔ جب آنحضرت کی نظر ابوسفیان پر پڑی تو آپ نے فرمایا: 

”کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے کہ تو یہ سمجھے کہ خدائے یکتا کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے؟“ 

ابوسفیان نے جواب دیا میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں، آپ کتنے بردبار کریم اور وابستگان کے اور میرے مہربان ہیں۔ میں نے اب سمجھ لیا کہ اگر خدائے واحد کے علاوہ کوئی اور خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔

جب اس نے خدا کے یگانہ ہونے کا اعتراف کرلیا تو حضرت نے فرمایا کہ ”کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے کہ تم جانو کہ میں خدا کا پیامبر ہوں۔“

ابوسفیان نے کہا مجھے آپ کی رسالت میں تردد ہے ”عباس تردد سے ناراض ہوئے اور اس سے کہا: 

”اگر تم اسلام قبول نہیں کرو گے تو تمہاری جان خطرہ میں ہے۔“ 

ابوسفیان نے خدا کی یگانگت اور پیغمبر کی رسالت کی گواہی دی۔ اور بظاہر مسلمانوں کی صف میں داخل ہو گیا۔ اگرچہ واقعاً کبھی بھی مومن نہیں ہوا۔

رسول خدا جانتے تھے کہ ابوسفیان کو ابھی رہا کرنے کا موقع نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مکہ جا کر کوئی سازش کرے اس لیے اسے چاہیے کہ اسلام کی طاقت کا بخوبی مشاہدہ کرلے اور فتح مکہ کے سلسلہ میں سپاہ اسلام کے ارادہ کو مکمل طور پر محسوس کرے اور اس خبر کو تمام مشرکین قریش تک پہنچائے تاکہ تمام سرکردہ افراد مقابلہ کا خیال اپنے دل سے نکال دیں اس وجہ سے ابوسفیان کو ایک تنگ جگہ پر رکھا، سپاہ اسلام اسلحہ میں غرق منظم دستہ کی صورت میں اس کے سانے سے گزر جاتے تھے۔ جنگی مشق کے وقت مجاہدین اسلام کی تکبیر کی آواز کوہ و دشت مکہ میں گونج اٹھتی تھی اور مجاہدین کے دل و فور شوق سے لبریز ہو جاتے تھے۔

لشکر اسلام کے مسلح دستوں کی عظمت نے ابوسفیان کو اتنا ہراسا ں کر دیا کہ اس نے بے اختیار عباس کی طرف مخاطب ہو کر کہا:

”کوئی بھی طاقت ان لشکروں کا مقابلہ نہیں کرسکتی واقعاً تمہارے بھتیجے نے بڑی زبردست سلطنت حاصل کرلی ہے۔“

عباس نے غصہ میں کہا:

”یہ سلطنتیں بلکہ خداوند عالم کی طرف سے نبوت و رسالت ہے۔“

عباس نے پیغمبر سے کہا :

”اے اللہ کے رسول، ابوسفیان ایسا شخص ہے جو ریاست کو دوست رکھتا ہے اس کو اسی وقت کوئی مقام عطا فرمائیں۔“

رسول خدا نے فرمایا کہ:

”ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دلاسکتا ہے کہ جو کوئی اس کی پناہ یں آجائے گا امان پائے گا۔ جو شخص اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر اس کے گھر میں چلا جائے اور دروازہ بند کرلے یا مسجدالحرام میں پناہ لے لے وہ سپاہ اسلام سے محفوظ رہے گا۔“ 

(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۶)

مکہ میں نفسیاتی جنگ

ابوسفیان مکمل طور پر حواس باختہ اور لشکر اسلام کی جنگی طاقت سے ہراساں تھا رسول خدا نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ اس کو رہا کر دیں۔ تاکہ وہ اپنی قوم میں جا کر ان کے حوصلوں کو متزلزل رے یہ وہی مقصد تھا جو پیغمبر چاہتے تھے۔

ابوسفیان نے اس کام کو بخوبی انجا م دیا۔ اس نے مکہ میں نفسیاتی جنگ چھیڑ کر قریشیوں کو ہراساں کرنے ار بغیر خونریزی کے ہتھیار ڈال دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

شہر کے محاصرہ کی ٹیکنیک

رسول خدا نے اپنے سپاہیوں کو چار دستوں میں تقسیم فرمایا اور ہر ایک دستہ کو ایک سمت سے شہر کے اندر روانہ کیا اور فوج کے کمانڈروں کو حکم دیا کہ جو تم سے لڑے اس کے علاوہ اور کسی سے جنگ نہ کرنا۔ چنانچہ آپ نے صرف چند مفسدین کو جن کی خیانت کی سزا موت سے کم نہ تھی مستثنیٰ رکھا۔ (مغازی واقدی ج۲ ص ۸۲۵)

رسول خدا نے چاروں طرف سے شہر کے محاصرہ کی ترکیب اپنا کر مشرکین کے امکان فرار کو ان سے سلب کرلیا اور ان کے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی چھوڑا اور وہ یہ کہ ہتھیار ڈال دیں۔

ایک فوجی دستہ کے ساتھ مشرکین کی جھڑپ

لشکر اسلام کے شہر میں داخل ہوتے وقت مشرکین متعرض نہیں ہوئے۔ فقط قریش کے ان افراد کا ایک گروہ جو افراط سے کام لے رہے تھے۔ صفوان ابن امیہ ابن خلف اور مکرمة ابن ابی جھل کی رہبری میں خالد ابن ولید کی سرداری میں رہنے والے ایک دستہ سے ٹکرا گیا۔ اس جھڑپ میں دشمن کے ۲۸ افراد نہایت ذلت سے مارے گئے اور وہ لوگ مکہ سے بھاگ گئے۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۴۹)


source : http://www.makarem.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
روزہ اور خود اعتمادی
آداب غدیر روایات کے تناظر میں
کربلا ميں حضرت امام حسين کے ورود سے لے کر نويں ...
رمضان المبارک کے انتیسویں دن کی دعا
عورت علامہ اقبال کی نظر میں
انیس رمضان کی صبح قیامت کی گھڑی
مصحف فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی حقیقت کیا ہے؟
وقف و وصل
معرفت الٰہی

 
user comment