اگر ہم اس دنیا کی زندگی کو دوسری دنیا (آخرت)کی زندگی سے قطع نظر تصور کریں تو یہ بالکل بے معنی اور فضول ہو گی۔
اس صورت میں ہماری اس دنیا کی زندگی بالکل اس کے مانند ہو گی کہ ہم جنین کے دوران بچے کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے قطع نظر تصور کریں۔
ماں کے شکم میں موجود بچہ ،جو اس محدود وتنگ وتاریک زندان میں مہینوں قید و بند رہتا ہے ،اگر عقل وشعور رکھتا اور اپنی جنین والی زندگی کے بارے میں فکر کرتا تو وہ بیشک تعجب کرتا:
میں کیوں اس تاریک زندان میں قید وبند ہوں؟
میں کیوں اس پانی اور خون میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں؟
آخر میری زندگی کا کیا نتیجہ ہو گا؟
میں کہاں سے آیا ہوں اور میرے آنے کا کیا فائدہ ہے؟
لیکن اگر اسے بتایا جائے کہ یہ تیرے لئے ایک ابتدائی مرحلہ ہے یہاں پر تمھارے اعضاء بن جائیں گے ،توانا ہو جاؤ گے اور ایک بڑی کو شش وحر کت کے لئے آمادہ ہوجاؤ گے۔
نو مہینے گزر نے کے بعد اس زندان سے تمھاری رہائی کا حکم جاری کیا جائے گا۔اس کے بعد تم ایک ایسی دنیا میں قدم رکھو گے جہاں پر چمکتا سورج ،روشن چاند،سرسبز درخت ،پانی کی جاری نہریں او گوناگوں نعمتیں ہوں گی۔یہ سننے کے بعد وہ اطمینان کا سانس لے کر کہے گا!اب میں سمجھ گیا کہ یہاں پر میری موجودگی کا فلسفہ کیا ہے!
یہ ایک ابتدائی مرحلہ ہے ،یہ چھلانگ لگا نے کا چبوترہ ہے،یہ ایک بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے ایک کلاس ہے۔
لیکن اگر جنین والی زندگی کا رابطہ اس دنیا سے کٹ جائے تو تمام چیزیں تاریک اور بے معنی ہو کر رہ جائیںگی اور جنین والی زندگی ایک وحشتناک ،تکلیف دہ،اور بے نتیجہ زندان میں تبدیل ہو جائے گی ۔
اس دنیا کی زندگی اور موت کے بعد والی دنیا کے در میان بھی ایساہی رابطہ ہے۔
کیاضروری ہے کہ ہم اس دنیا میں ستر سال یا اس سے کم یا زیادہ زندگی گزاریں اور مشکلات کے در میان ہاتھ پاؤں مارتے رہیں؟
کچھ مدت بے تجربہ اور خام رہیں ،جب ہماری خامی پختگی میں تبدیل ہو تو ہماری عمر تمام ہو جائے!
ایک مدت تک علم ودانش حاصل کریں ،جب ہم معلو مات کے لحاظ سے پختہ ہو جاتے ہیں تو بڑھاپا ہمارے سر پر آپہنچتا ہے!
آخر ہم کس لئے زندگی بسر کرتے ہیں ؟غذا کھانے ،لباس پہنے اور سونے کے لئے ؟اسی حالت میں زندگی کو دسیوں سال تک جاری رکھنے کا مطلب کیا ہے؟
کیا حقیقت میں یہ کشادہ آسمان،وسیع زمین ،یہ سب مقد مات ،یہ علم اور تجربے حاصل کر نا ،یہ سب اساتذہ اور مربیّ سب کے سب صرف اسی کھانے پینے اور لباس پہننے اور پست وتکراری زندگی کے لئے ہیں؟
یہاں پر معاد کو قبول کر نے والوں کے لئے زندگی کا فضول ہو نا یقینی بن جاتا ہے،کیونکہ وہ ان معمولی امور کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دے سکتے ہیں اور موت کے بعد والی دنیا پر تو ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں ۔
لہذا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ خود کشی کا اقدام کر کے اس بے مقصد زندگی سے نجات پانا چاہتے ہیں۔
لیکن اگر ہم یقین کریں کہ دنیا ”آخرت کی کھیتی “ہے ،دنیا ایسا کھیت ہے جس میں ہمیں بیج بونا ہے تا کہ اس کی فصل کو ہم ایک جاودانی اور ابدی زندگی میں کاٹ سکیں ۔
دنیا ایک ایسا کالج ہے جس میں ہمیں آگاہی حاصل کر نا ہے تا کہ ایک ابدی عالم کے لئے خود کو آمادہ کر سکیں ،دنیا ایک گزر گاہ اور پل ہے جس سے ہمیں عبور کر نا ہے۔
اس صورت میں ہماری دنیوی زندگی بے مقصد اور فضول نہیں ہوگی ،بلکہ ایک ایسی ابدی اور جاودانی زندگی کا مقدمہ ہوگی جس کے لئے ہم جس قدر کوشش کریں کم ہے۔
جی ہاںمعاد کا ایمان انسان کی زندگی کو مفہوم اور معنی بخشتا ہے اور اسے اضطراب، پریشانی اور بیہودگی سے نجات دلاتا ہے۔
عقیدئہ معاد کا انسان کی تربیت میں اہم کردار
اس کے علاوہ آخرت میں ایک عظیم عدالت کے وجود کا عقیدہ ہماری اس زندگی میں غیر معمولی طور پر مؤثر ہے۔
فرض کریںایک ملک میں یہ اعلان ہوجائے کہ سال کے فلاں دن کسی بھی جرم کی سزا نہیں ہوگی ،اس دن کوئی کیس درج نہیں ہوگا اور لوگ مکمل اطمینان کے ساتھ اس دن کو کسی سزا کے بغیر گزار سکتے ہیں ،اس دن پولیس اور امن وانتظام کے ماٴمورین تعطیل کریں گے ،عدالتیں بند ہوں گی ،یہاں تک کہ دوسرے دن جب زندگی معمول پر آجائے گی ،گزشتہ کل کی جرائم کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا۔
ذراغور کیجئے اس دن معاشرہ کی کیا حالت ہوگی؟
قیامت پر ایمان درحقیقت ایک عظیم عدالت پر ایمان ہے جواس دنیا کی عدالتوں کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے۔
اس عظیم عدالت کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
۱۔ایک ایسی عدالت ہے،جس میں نہ سفارش چلے گی اور نہ”ضوابط“پر ”روابط“کی حکمرانی ہوگی اور نہ جھوٹے مدارک پیش کر کے اس کے قاضیوں کی سوچ کو تبدیل کیا جاسکے گا۔
۲۔ایک ایسی عدالت ہے جس میں اس دنیا کی عدالتوں کے مانند عدالتی کاروائی نہیں ہوگی اور اسی لئے وہاں پر لمبے اور تفصیلی مراحل نہیں ہیں ،برق آساتحقیقات کے بعدصحیح اور دقیق حکم جاری کر دیا جاتا ہے۔
۳۔ایک ایسی عدالت ہے جہاں پر مجرموں کے جرائم کے دلائل و مدارک خود ان کے اعمال ہوں گے ،یعنی اس عدالت میں خود اعمال حاضر ہو کر گواہی دیں گے ،اور مجرم کے ساتھ اپنے ارتباکو وہ خوداس طرح مشخص کریں گے کہ انکار کی کو ئی گنجائش نہیں ہوگی۔
۴۔اس عدالت کے گواہ انسان کے اپنے ہاتھ ،پاؤں ،کان،آنکھیں،زبان اور اس کے بدن کی جلد حتی جس جگہ پر گناہ یا ثواب انجام دیا ہو گا اس کی زمین اور در دیوار ہوںگے ،یہ ایسے گواہ ہیں جو انسان کے اعمال کے فطری آثار کے مانند قابل انکار نہیں ہیں۔
۵۔اس عدالت کا قاضی اور حاکم خدا ہے ،جو ہر چیز سے آگاہ اور بے نیاز اور سب سے بڑا عادل ہے۔
۶۔اس کے علاوہ اس عدالت کی جزاوسزا قرار دادی نہیں ہیں ،اکثر خودہمارے اعمال ہی مجسّم ہو کر ہمارے سامنے ظاہر ہو تے ہیں اور ہمیں اذیت وآزار پہنچاتے ہیں یا ہمیں نعمت وآسائش میں غرق کر تے ہیں۔
اس قسم کی عدالت کا یقین انسان کو ایک ایسی جگہ پر پہنچاتا ہے،جہاں پر وہ علی علیہ السلام کے مانند کہتا ہے:
”خدا کی قسم اگر مجھے نرم بستر کے بجائے راتوں کو صبح تک مہلک کانٹوں پر جاگتے ہو ئے گزار نا پڑے اور دن کو میرے ہاتھوں اور پاؤں میں زنجریں باندھ کر مجھے گلی اور بازاروں میں گھسیٹا جائے ،یہ مجھے اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ کی عدالت میں اس حال میں حاضرکیا جاؤں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو یا کسے کا حق غضب کیا ہو۔“ (نہج البلاغہ،خطبہ:۲۲۴)
یہ اس عدالت کا ایمان ہے جوانسان (حضرت علی)کو مجبور کر تاہے کہ وہ آگ میں دہکتا ہوا سرخ لوہا اپنے بھائی کے ہاتھ کے قریب لے جائے ،جو بیت المال سے اپنے حصہ سے زیادہ کا طالب تھا ،جب اس کا بھائی ڈر کے مارے فریاد بلند کرتا ہے ،تو اسے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے:”تم اس آگ سے ڈرتے ہو جو ایک کھلونے کے مانند انسان کے ہاتھ میں ہے،لیکن اپنے بھائی کو ایک ایسی ہولناک آگ کی طرف ڈھکیل رہے ہو جسے خدا کے قہر وغضب کے شعلوں نے بھڑ کایاہے؟“ (نہج البلاغہ،خطبہ۲۲۴)
کیا ایسے ایمان رکھنے والے انسان کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے؟
کیا رشوت سے اس کے ایمان کو خریدا جاسکتا ہے؟
کیا اسے لالچ اور دھمکی سے حق کی راہ سے ظلم کی طرف منحرف کیا جاسکتا ہے؟
قرآن مجید فر ماتا ہے :جب گناہ کار اپنے اعمال ناموں کو دیکھیں گے تو چیختے ہوئے کہیں گے:
<مالھذا الکتاب لا یغادر صغیرةو الا کبیرة الّا احصاھا> (سورہ کہف/۴۹)
”ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ گناہ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے۔“
اس طرح ہر کام انجام دیتے وقت انسانی روح کی گہرائیوں میں ذمہ داری کے احساس کی ایک طاقتورموج پیدا ہوتی ہے اور یہی احساس اسے ہر قسم کے انحرافات ،گمراہی اورظلم وزیادتی سے بچاتا ہے۔
غور کیجئے اور جواب دیجئے
۱۔اگر اس محدود اور ناپائیدارزندگی کے بعد دوسری دنیا نہ ہو تی تو کیا ہو تا؟
۲۔معاد کے منکر بعض افراد کیوں خودکشی کا اقدام کرتے ہیں؟
۳۔قیا مت کی عدالت کااس دنیاکی عدالت سے کیا فرق ہے؟
۴۔معاد پر ایمان،انسان کے اعمال پر کیا اثر ڈالتا ہے؟
۵۔امیرالمومنین علی علیہ اسلام نے اپنے بھائی عقیل سے کیا کہا؟وہ کیا چاہتے تھے اور علی علیہ السلام نے انھیں کیا جواب دیا؟
source : http://makarem.ir