یھاں پر ھمارا مقصد وھابیوں کے تمام عقائد کو بیان کرنا نھیں ھے بلکہ ھم صرف ان عقائدوں کو بیان کریں گے جن کی وجہ سے یہ لوگ مشهور هوئے اور جن کی بناپر دوسروں سے جدا هوئے ھیں اور جن کی وجہ سے دوسرے فرقوں کے علماء نے ان کے جوابات لکھنے شروع کئے ھیں۔
۱۔ توحید کے معنی اور کلمہٴ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کا مفهوم
شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس کے پیرو کاروں نے توحید اور کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ “ کے معنی اس طرح بیان کئے ھیں جن کی روشنی میں کوئی دوسرا شخص موحّد (خدا کو ایک ماننے والا) موجود ھی نھیں ھے، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب اس طرح کھتا ھے:
”لا الہ الا اللّٰہ “ میں ایک نفی ھے اور ایک اثبات، اس کا پھلا حصہ (لا الہ) تمام معبود کی نفی کرتا ھے اور اس کا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو ثابت کرتا ھے۔
اسی طرح محمد بن عبد الوھاب کا کہنا ھے کہ توحید وہ مسئلہ ھے جس پر خداوند عالم نے بھت زیادہ تاکید کی ھے،اور اس کا مقصد، عبادت کو صرف خداوندکریم سے مخصوص کرنا ھے۔ سب سے بڑی چیز جس سے خداوندعالم نے نھی کی ھے وہ شرک ھے جس کا مقصد غیر خدا کو خدا کا شریک قرار دینا ھے۔
اسی طرح وہ خداوندعالم کے صفات کی شرح کرتے هوئے کھتا ھے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کا محتاج نھیں ھے جو بندوں کی حاجتوں کو اس سے بتائے یا اس کی مدد کرے یا بندوں کی نسبت خدا کے لطف و مھربانی کو تحریک کرے۔
اس بناپر وھابیوں نے قبور کی زیارتوں اور غیر خداکو پکارنے کو ممنوع قرار دیا مثلاً کوئی کھے ”یا محمد“اسی طرح غیر خدا کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینا یا قبور کے پاس نمازیں پڑھنایا اس طرح کی دوسری چیزیں جن کو ھم بعد میں بیان کریں گے، ان سب کو شرک قرار دیدیاھے، اس سلسلہ میں وہ سنی اور شیعہ کے درمیان کسی فرق کے قائل نھیں ھیں۔
محمد بن عبد الوھاب کا نظریہ یہ تھا کہ جو لوگ عبد القادر،عروف کَرخی ، زید بن الخطاب اور زُبیر کی قبروں سے متوسل هوتے ھیں وہ مشرک ھیں اسی طرح جواھل سنت شیخ عبد القادر کو شفیع قرار دیتے ھیں ان پر بھی بھت سے اعتراضات کئے ھیں۔
آلوسی کاکہنا ھے کہ جوشخص حضرات علی، حسین ، موسیٰ کاظم، اور محمد جواد( علیهم السلام )کے روضوں پر اور اھل سنت عبدالقادر ،حسنِ بصری اور زبیر وغیرہ کی قبروں پر زیارت کرتے هوئے اور قبور کے نزدیک نماز پڑھتے هوئے اور ان سے حاجت طلب کرتے هوئے دیکھے تو اس کو یہ بات معلوم هوجائے گی کہ یہ لوگ سب سے زیادہ گمراہ ھیں اور کفر وشرک کے سب سے بلند درجے پر ھیں۔
اس بات کا مطلب یہ ھے کہ چونکہ شیعہ اور سنی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ھیں اور وھاں پر نمازیں پڑھتے ھیں اور صاحب قبر کو وسیلہ قرار دیتے ھیں لہٰذا کافر ھیں، اسی عقیدہ کے تحت دوسرے وھابی تمام ممالک کو دار الکفر (کافر کے ممالک)کھتے ھیں اور اس ملک کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے۔
۱۲۱۸ھ میں سعود بن عبد العزیز امیر نجد اھل مکہ کے لئے ایک امان نامہ لکھتا ھے جس کے آخر میں لوگوں کے خطاب کرتے هوئے اس آیت کو لکھتا ھے:
قُلْ یَا اَہْلَ الْکِتَابِ، تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاّٰ نَعْبُدَ اِلاّٰ اللّٰہ وَلاٰ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْہِدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔
”اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اے اھل کتاب آوٴ اور ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدا کا درجہ نہ دیں، او راگر اس کے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رہنا کہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“
اسی طرح وھابی علماء میں سے شیخ حَمَد بن عتیق نے اھل مکہ کے کافر هونے یا نہ هونہ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا جس میں بعض استدلال کے بناپر ان کو کافر شمار کیا، البتہ یہ اس زمانہ کی بات ھے جب وھابیوں نے مکہ شھر کو فتح نھیں کیا تھا۔
جن شھروں یاعلاقوں کے لوگوں میں جو نجدی حاکموں کے سامنے تسلیم هوجاتے تھے ،ان سے ”قبول توحید “ کے عنوان سے بیعت لی جاتی تھی۔
کلّی طور پر وھابیوں نے اکثر مسلمانوں کے عقائد اور ان کے درمیان رائج معاملات کو دین اسلام کے مطابق نھیں جانتے تھے۔ گویا اسی طرح کے امور باعث بنے کہ بعض مستشرقین منجملہ ”نیبھر اھل ڈانمارک“نے گمان کیا کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب پیغمبر تھا۔
توحید سے متعلق وھابیوں کے نظریات کے بارے میں شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی گفتگو کو بیان کرنامناسب ھے ، موصوف کھتے ھیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کے معنی خدا کی یگانیت کے ھیں یعنی انسان کو چاہئے کہ فقط اور فقط خدا کی عبادت کرے اور عبادت کو خدا کے لئے منحصر مانے اور غیر خدا سے بیزاری اختیار کرے۔
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ بھی کھتے ھیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کے معنی : خدا کے علاوہ تمام معبودوں کو ترک کرنا ھے ، لہٰذا انسان کی توجہ صرف خدا پر هونا چاہئے اور اگر کسی غیر خدا کی عبادت کی جائے تو گویا اس نے غیر خدا کو خدا کے ساتھ شریک قرار دیا،چاھے اس کام کا کرنے والا اس طرح کا کوئی ارادہ بھی نہ رکھتا هو، تو ایسا شخص مشرک ھے خواہ وہ اپنے شرک کو شرک مانے یا اس کو توسل کا نام دے۔
اس کے بعد حافظ وھبہ اپنی گفتگو کوجاری رکھتے هوئے کھتے ھیں کہ وھابیوں کو اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ اگر کوئی کھے ”یا رسول اللہ“، ”یا ابن عباس“ ، ”یا عبد القادر“وغیرہ اور ان کلمات کے کہنے سے اس کا قصدان کا فائدہ پهونچانایانقصان کو دور کرنا هو یا اس کے مدّ نظر ایسے امور هوں جن کو صرف خدا ھی انجام دے سکتا ھے، تو ایسا شخص مشرک ھے اور اس کا خون بھانا واجب ھے اور اس کا مال مباح ھے۔
قارئین کرام ! ھماری گفتگو کا خلاصہ یہ ھے کہ محمد بن عبد الوھاب توحید کی طرف دعوت دیتا تھا اورجو (اس کی بتائی هوئی توحید کو )قبول کرلیتا تھا اس کی جان اور مال محفوظ هوجاتی تھی اور اگر کوئی اس کی بتائی هوئی توحید کو قبول نھیں کرتا تھا اس کی جان ومال مباح هوجاتے تھے، وھابیوں کی مختلف جنگیں، چاھے وہ حجاز کی هوں یا حجاز کے باھر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق کی جنگیں،اسی بنیاد پر هوتی تھیں اور جنگ میں جس شھر پر غلبہ هوجاتا تھا وہ پورا شھر ان کے لئے حلال هوجاتا تھا ،ان کو اگر اپنے املاک اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممکن هوتا تو ان کو اپنی ملکیت میں لے لیتے تھے ورنہ جو مال ودولت اور غنائم جنگی ان کے ھاتھ آتاا سی پر اکتفا کرلیتے تھے۔
اور جو لوگ اس کی اطاعت کو قبول کرلیتے تھے ان کے لئے ضروری تھا کہ دین خدا ورسول کو (جس طرح محمد بن عبد الوھاب کھتا تھا)قبول کرنے میں اس کی بیعت کریں، اور اگر کچھ لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے هوتے تھے تو ان کو قتل کردیا جاتا تھا، اور ان کا تمام مال تقسیم کرلیا جاتا تھا، اسی پروگرام کے تحت مشرقی احساء کے علاقہ میں ایک دیھات بنام ”فَصول“ کے تین سو لوگوں کوقتل کردیا گیا او ران کے مال کو غنیمت میں لے لیاگیا، اسی طرح احساء کے قریب ”غُرَیْمِیْل“ میں بھی یھی کارنامے انجام دئے۔
اس سلسلہ میں شوکانی صاحب کھتے ھیں کہ محمد بن عبد الوھاب کے پیروکار ھراس شخص کو کافر جانتے تھے جو حکومت نجد میں نہ هو یا اس حکومت کے حکام کی اطاعت نہ کرتا هو، اس کے بعد شوکانی صاحب کھتے ھیں کہ سید محمد بن حسین المُراجل(جو کہ یمن کے امیر حجاج ھیں) نے مجھ سے کھا کہ وھابیوں کے کچھ گروہ مجھے اور یمن کے حجاج کو کافر کھتے ھیں اور یہ بھی کھتے ھیں کہ تمھارا کوئی عذر قابل قبول نھیں ھے مگر یہ کہ امیر نجد کی خدمت میں حاضر هو تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح کے مسلمان هو۔
وھابیوں کی نظر میںوہ دوسرے امور جن کی وجہ سے مسلمان مشرک یا کافر هوجاتا ھے
وھابی لوگ توحید کے معنی اس طرح بیان کرتے ھیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان باقی نھیں بچتا، وہ بھت سی چیزوں کو توحید کے خلاف تصور کرتے ھیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان دین سے خارج او رمشرک یا کافر هوجاتا ھے،یھاں پر ان میں سے چند چیزوں کو بیان کیا جاتا ھے:
۱۔ اگر کوئی شخص اپنے سے بلا دور هونے یا اپنے فائدہ کے لئے تعویذ باندھے یا بخار کے لئے اپنے گلے میں دھاگا باندھے ، تو اس طرح کے کام شرک کا سبب بنتے ھیںاور توحید کے بر خلاف ھیں۔
۲۔ محمد بن عبد الوھاب نے حضرت عمر سے ایک حدیث نقل کی ھے جو اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اگر کوئی غیر خدا کی قسم کھائے تو اس نے شرک کیا ، او رایک دوسری حدیث کے مطابق خدا کی جھوٹی قسم غیر خدا کی سچّی قسم سے بھتر ھے، لیکن صاحب فتح المجید اس بات کی تاویل کرتے هوئے کھتے ھیںکہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ھے ، جبکہ غیر خدا کی سچی قسم شرک ھے جو گناہ کبیرہ سے زیادہ سنگین ھے۔
۳۔ اگر کسی شخص کو کوئی خیر یا شر پهونچا ھے، وہ اگر اسے زمانہ کانتیجہ جانے اور اس کو گالی وغیرہ دے تو گویا ا اس نے خدا کو گالی دی ھے کیونکہ خدا ھی تمام چیزوں کا حقیقی فاعل ھے۔
۴۔ ابو ھریرہ کی ایک حدیث کے مطابق یہ کہنا جائز نھیں ھے کہ اے خدا اگر تو چا ھے تو مجھے معاف کردے یا تو چاھے تو مجھ پر رحم کردے، کیونکہ خدا وندعالم اس بندے کی حاجت کو پورا کرنے کے سلسلہ میں کوئی مجبوری نھیں رکھتا۔
۵۔ کسی کے لئے یہ جائز نھیں ھے کہ وہ اپنے غلام او رکنیز کو ”عبد“ اور ”امہ“ کھے اور یہ کھے ”عبدی“ یا ”اَ مَتی“کیونکہ خداوندعالم تمام لوگوں کا پروردگار ھے اور سب اسی کے بندے ھیں اور اگر کوئی اپنے کو غلام یا کنیز کا مالک جانے ، اگرچہ اس کا ارادہ خدا کے ساتھ شرکت نہ بھی هو ، لیکن یھی ظاھری اور اسمی شراکت ایک قسم کا شرک ھے، بلکہ اسے چاہئے کہ عبد اور امہ کے بدلے” فتیٰ“ اور ”فتاة“یا غلام کھے۔
۶۔ جب انسان کو کوئی مشکل پیش آجائے تو اسے یہ نھیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا هوتا تو ایسا نہ هوتا، کیونکہ ”لفظ اگر“ کے کہنے میں ایک قسم کا افسوس ھے اور ”لفظ اگر “ میں شیطان کے لئے ایک راستہ کُھل جاتا ھے اور یہ افسوس وحسرت ا س صبر کے مخالف ھے جس کو خدا چاھتا ھے، جبکہ صبر کرنا واجب ھے اور قضا وقدر پر ایمان رکھنا بھی واجب ھے۔
کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے کے بارے میں چند صفحے بعد وضاحت کی جائے گی۔
تو پھر موحّد کون ھے؟
جناب آقائے مغنیہ، محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں اور دوسرے وھابیوں کی کتابوں سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ھیں کہ وھابیوں کے لحاظ سے کوئی بھی انسان نہ موحد ھے او رنہ مسلمان ! مگر یہ کہ چند چیزوں کو ترک کرے، ان میں سے چند چیزیں یہ ھیں:
۱۔ انبیاء اور اولیا ء اللہ کے ذریعہ خدا سے توسل نہ کرے او رجب ایسا کام کرے مثلاً یہ کھے کہ اے خدا تجھ سے تیرے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے توسل کرتا هوں مجھ پر رحمت نازل فرما، تو ایسے شخص نے مشرکوں کا راستہ اپنایاھے، او راس کا عقیدہ مشرکوں کے عقیدہ کی طرح ھے۔
۲۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی غرض سے سفر نہ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر پر ھاتھ نہ رکھے اور آپ کی قبر کے پاس دعانہ مانگے نمازنہ پڑھے ، اسی طرح آنحضرت کی قبر کے اوپر عمارت وغیرہ نہ بنائے، اور اس کے لئے کچھ نذر وغیرہ نہ کرے۔
۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب نہ کرے، اگرچہ خدا وندعالم نے آنحضرت اور دوسرے انبیاء علیهم السلام کو شفاعت کا حق عطا کیا ھے لیکن ھمیں ا ن سے شفاعت طلب کرنے کا کوئی حق نھیں ھے۔
چنانچہ ایک مسلمان کے لئے یہ کہنا جائز ھے : ”یَا اَللّٰہُ، شَفِّعْ لی مُحَمَّداً“ (اے خدا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میرا شفیع قرار دے، لیکن یہ کہنا جائز نھیں ھے ”یَا مُحَمَّد اِشْفَعْ لی عِنْدَ اللّٰہ“ (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے نزدیک ھماری شفاعت کریں۔
اور اگر کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شفاعت طلب کرتا ھے تو ایسا شخص بالکل ان بت پرستوں کی طرح ھے جو بتوں سے شفاعت طلب کرتے تھے۔
۴۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قسم نہ کھائے اور آپ کو نہ پکارے،آپ کو لفظ ”سیدنا“کہہ کر نہ پکارے ، اپنی زبان پر اس طرح کے کلمات جاری نہ کرے کہ ”یا محمد وسیدنا محمد“ کیونکہ آنحضرت اور دیگر مخلوق کی قسم کھانا شرک اکبر اور ھمیشہ جہنم میں رہنے کا باعث ھے۔
اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوھاب کاکہنا ھے کہ غیر خدا کے لئے نذر کرنا اورغیر خدا سے پناہ مانگنا یااستغاثہ کرنا شرک ھے۔
۲۔صرف شھادتین کا اقرار کرنا مسلمان بننے کا سبب نھیں
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (محمد بن عبد الوھاب کا پوتا) اس طرح کھتا ھے کہ” عُبّاد قبور“(اس سے مراد قبور کی زیارت کرنے والے ھیں) در حالیکہ کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کو زبان پر جاری کرتے ھیں نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ھیں لیکن چونکہ محبت اور عبادت میں دوسروں کو خدا کا شریک قرار دیتے ھیں،لہٰذا یہ لوگ کوئی بھی عمل انجام دیں اور کوئی بھی گفتگو کریں باطل ھے اور چونکہ یہ مشرک ھیںلہٰذا ان کا کوئی بھی کام قبول اور صحیح نھیں ھے۔
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ کھتے ھیں : وھابیوں کے علاوہ دوسرے فرقے معتقد ھیں کہ جس شخص نے بھی کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ “کا اقرار کرلیا اس کی جان ومال محفوظ اور محترم ھے، لیکن ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ عمل کے بغیر اس اقرار کا کوئی فائدہ نھیں اور نہ اس کا کوئی اعتبار ھے، لہٰذا اگر کوئی شھادتین کا اقرار کرے لیکن مردوں کو پکارے یا ان سے استغاثہ کرے یا ان سے حاجت طلب کرے یا ان سے یہ تقاضا کرے کہ ان سے مشکلات کو برطرف کرے توایسا شخص کافر اور مشرک ھے اور اس کی جان ومال حلال او رمباح ھے۔
اس سلسلہ میں آلوسی بھی اپنا نظریہ پیش کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص کلمہ لا الہ الا اللّٰہ کی شھادت دے لیکن غیر خدا کی عبادت کرے (یعنی زیارت قبور کرے) اگرچہ وہ نماز پڑھتا هو روزہ رکھتا هو اور اسلام کے دوسرے اعمال بجالاتا هو، لیکن ایسے شخص کی شھادت قبول نھیں ھے۔
اس کے بعد آلوسی کابیان ھے : کفر کی دو قسمیں ھیں اول کفر مطلق، یعنی ان تمام چیزوں کا انکار کرنا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ھیں، دوسرے کفر مقید یعنی ان میں سے بعض چیزوں کا انکار کرنا۔وہ کفر مقیّد کے اثبات کے لئے اصحاب کے عمل کو دلیل کے عنوان سے پیش کرتا ھے، کہ جو لوگ زکوٰة ادا نھیں کرتے تھے جبکہ کلمہ شھادتین کا اقرار کرتے تھے او رنماز و روزہ اور حج بجالاتے تھے پھر بھی اصحاب ان کو کافر سمجھتے تھے۔
آلو سی اپنی باتوں سے اس طرح نتیجہ نکالتے ھیں کہ قبور کی عبادت کرنے والوں(یعنی زائرین قبور) کو صرف اس وجہ سے کہ وہ نماز پڑھتے ھیں روزہ رکھتے ھیں اور بعث وقیامت پر ایمان رکھتے ھیں، مسلمان نھیں کھا جاسکتابلکہ وہ مشرک ھیں۔
یہ بات طے ھے کہ یہ باتیں محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں سے اخذ شدہ ھیں اور محمد بن عبد الوھاب کی کتابوں اور رسالوں میں تفصیل کے ساتھ بیان هوئی ھیں۔