خدا شناسی کے راستے
خدا کی معرفت حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع اور مختلف طریقے ہیں ، کہ جن کی طرف مختلف فلسفی وکلامی کتابوں، دینی رہنمائوں کے بیانات، اور آسمانی کتابوں میں اشارہ کیا گیا ہے، یہ دلائل مختلف جہتوں سے ایک دوسرے سے متفاوت ہیں جیسے کہ بعض دلیلوں میں حسی و تجربی مقدمات سے استفادہ کیا گیا ہے اور بعض دلائل محض مقدمات عقلی پر مشتمل ہیں، بعض دلیلیں خدائے حکیم کے وجود کا اثبات کرتی ہیں تو بعض ایک ایسے وجود کو ثابت کرتے ہیں جو اپنی پیدائش میں کسی دوسرے وجود کا محتاج نہیں ہے، (واجب الوجود) لہٰذا اس کی صفات کی پہچان کے لئے کچھ دوسرے دلائل کی ضرورت ہے ۔خدا شناسی کے دلائل کو اُن پلوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو کسی ندی یا دریا سے عبور کرنے کے لئے بنائے گئے ہوں، ان میں بعض پل لکڑی کے ہوتے ہیں کہ جن سے صرف ایک ہلکا (کم وزن) آدمی آسانی سے گذرسکتا ہے اور بعض محکم اور طولانی ہوتے ہیں کہ جن سے ہر کوئی گذر سکتا ہے اور بعض پل آہنی و پر پیچ راستوں پر مشتمل ہوتے ہیں نشیب و فراز اور سُرنگوں سے گذرتے ہیں کہ جنھیں بڑی بڑی ٹرینوں کے گذرنے کے لئے بنایا جاتا ہے۔
وہ لوگ کہ جو سادہ ذہن ہیں وہ آسان راستوں سے خدا کو پہچان سکتے ہیںاور اس کی عبادت انجام دے سکتے ہیں، لیکن وہ لوگ کہ جن کے ذہنوں میں شک و شبہات پائے جاتے ہیں انھیں محکم پل سے گذرنا ہوگا، اورجن کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا انبار ہے اور طرح طرح کے وسوسہ پیدا ہوتے ہیں انھیں ایسے پل سے گذرنا ہوگا کہ جو زیادہ سے زیادہ استحکام کا حامل ہو، اگر چہ اس میں نشیب و فراز اور پیچ و خم کی مشکلات موجود ہوں۔
ہم اس مقام پر خدا شناسی کے آسان دلائل کے سلسلہ میں بحث کریں گے، اس کے بعد متوسط دلائل پیش کریں گے، لیکن پیچ وخم سے بھر پور راستے کہ جنھیں طے کرنے کے لئے فلسفہ کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اسے ایسے افراد طے کریں کہ جن کے ذہنوں میں شبہات کا انبار ہے، جو اپنے شبہات کو زائل کرنے نیز بھولے بھٹکے لوگوں کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔
آسان راستہ کی خصوصیات۔
خدا شناسی کا آسان راستہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں سے مہم خصوصیات یہ ہیں ١۔ اس راستہ کو طے کرنے کے لئے پیچیدہ دلائل کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ ایک آسان دلیل ہے کہ جسے یہاں ذکر کیا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے وہ تمام لوگوں کے لئے خواہ وہ کسی طبقہ سے ہوں قابل فہم ہے۔
٢۔ یہ راستہ براہ راست ( خداء علیم و قدیر) کی طرف ہدایت کرتا ہے، جبکہ فلسفہ و کلام کے اکثر براہین پہلے مرحلہ میں ایک ایسے موجود کو ثابت کرنا چاہتے ہیں جو (واجب الوجود) ہے اور اس کی صفات، علم و قدرت، حکمت و خالقیت اور ربوبیت کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
٣۔یہ راستہ ہر شی سے زیادہ فطرت کو بیدار کرنے اور فطری معرفت دلانے میں اثر انداز ہے اسی راستہ کو طے کرنے کے بعد انسان میں ایک ایسی عرفانی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ گویا وہ دست خدا کو جہان کی خلقت اور اسکی تدبیر میں مشاھدہ کرتے ہوئے محسوس کررہا ہے وہی دست خدا کہ جس سے اس کی فطرت آشنا ہے۔
انھیں خصوصیات کی وجہ سے اس راستہ کو انبیاء اور دینی رہبروں نے عام لوگوں کے لئے انتخاب کیا اور لوگوں کو اس راستہ کی طرف آنے کی دعوت دی،اور خواص کے لئے ایک دوسرے طریقہ کا ر کا انتخاب کیا یا ملحدوں اور مادی فلاسفہ کے مقابلہ میں مخصوص دلائل پیش کئے۔
آشنا نشانیاں ۔
خدا شناسی کا آسان راستہ جہان میں خدا کی آیات پر غور و فکر اور قرآن کی تعبیر کے مطابق آیات الٰہی میں تفکرکرنا ہے زمین و آسمان اور انسان کا وجود بلکہ کل جہان کی ہر شی ایک مطلوب و مقصود نشانی کے وجود سے آشنا ہے او ر ساعت قلب کی سوئیوں کو اس مرکز ہستی کی طرف ہدایت کر رہی ہیں کہ جو ھمہ وقت ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔یہی کتاب جو آپ کے ہاتھ میں ہے اسی کی نشانیوں میں سے ہے، کیا ایسانہیں ہے کہ اس کے مطالعہ سے اس کے مؤلف اور اس کے ہدف سے آپ آشنا ہوں گے؟ کیا آپ یہ احتمال دے سکتے ہیں کہ یہ کتاب خود بہ خود وجود میں آگئی ہے اور اس کا کوئی مؤلف و مصنف نہیں ہے؟ کیا یہ احمقانہ تصور نہیں ہے کہ کوئی یہ تصور کر بیٹھے کہ سیکڑوں جلد پر مشتمل دائرة المعارف کی کتاب ایک دھماکے سے وجود میں آ گئی، اس کے ذرّات نے حروف کی شکل اختیار کر لی اور دوسرے چھوٹے چھوٹے دھماکوں سے کاغذات بن گئے اور پھر چند دھماکوں سے پوری کتاب مرتب ہوگئی۔
کیا اس عظیم ھستی کی خلقت کو بے شمار اسرار و حکمت کے باوجود آنکھ بند کر کے ایک حادثہ مان لینا اس تصور سے ہزار گُنا احمقانہ نہیں ہے کہ جسے ہم نے بیان کیا؟!
ہاں، ہر باہدف نظام ا پنے ناظم کے عظیم ہدف پر دلالت کرتا ہے اور ایسے باھدف نظام تو اس جہان میں بے شمار ہیں کہ جن میں سب کی باز گشت ایک ہی چیز کی طرف ہے یعنی خالق حکیم نے
اس جہان کو خلق کیاہے اور اس کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔
گلستان کے دامن میں کھلنے والا پھول اور پھولوں کا درخت ،خاک و را کھ کی آغوش سے اپنی مختلف شکل و صورت میں سر اٹھاتا ہے سیب کا ایک تنا ور درخت تنہا ایک معمولی بیج کا نتیجہ ہے جو ہر سال سیکڑوں خوش ذائقہ اور لذیذ پھل عطا کرتا ہے، یہی حال بقیہ درختوں کا بھی ہے۔
اسی طرح وہ بلبل جو درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھی نغمہ سرائی کرتی ہے،انڈے کی چھال توڑ کر باہر آنے والا چوزہ زمین پر دانے چگنے کے لئے نوک مارتا ہے یا گائے کا پیدا ہونے والا بچھڑا سیر ہونے کے لئے اپنی ماں کے پستان ڈھونڈھتا ہے یا نوزاد (نو مولود) کی بھوک مٹانے کے لئے مائووں کے پستان میں اترنے والا دودھ یہ سب کچھ اسی کی آشکار نشانیاں ہیں۔
واقعاًآپ تصور کریں کہ نو مولود کے متولد ہوتے ہی ماں کے پستان میں دودھ کا آ جانا کیسا مرتب اور دقیق نظام ہے۔
وہ مچھلیاں جو انڈے دینے کے لئے پہلی مرتبہ سیکڑوں کیلو میٹر کا راستہ طے کرتی ہیں یا وہ پرندے جو دریائی گھاس پھوس میں اپنے گھونسلوں کو بخوبی پہچان لیتے ہیں یہاں تک کہ ایک بار بھی بھولے سے کسی دوسرے کے گھونسلے میں قدم نہیں رکھتے یا پھر شہد کی مکھیاں جو خوشبودار پھولوں کے رسوں کو حاصل کرنے کے لئے صبح اپنے آشیانے(چھتہ) سے باہر آتی ہیں، طولانی مسافتوں کو طے کرتی ہیں اور شام ہوتے ہی مستقیم طور پر اپنے (چھتہ) لوٹ آتی ہیں... یہ سب کی سب اس کی نشانیاں ہیں ،اور سب سے زیادہ عجیب مسئلہ تو یہ ہے کہ شہد کی مکھیاں اور گائے ، بھینس ، بھیڑ، بکریاں اپنی احتیاج سے کہیں زیادہ دودھ اور شہد دیتی ہیں تا کہ خدا کا برگزیدہ انسان اس سے استفادہ کر سکے۔
خود انسان کے بدن میں نہایت پیچیدہ اور حکیمانہ نظام قابل مشاہدہ ہیں منظم مجموعوں سے بدن کی ترکیب اور ہر مجموعہ کامتناسب اعضاسے مرکب ہونا اور ہر عضو کا لاکھوں زندہ خلیوں سے ترکیب پانا جبکہ یہ سب کے سب تنہا ایک خلیہ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان تمام خلیوں کا ایک خاص ترکیبات سے وجود میں آنا اور پھر ہر عضوبدن کا ایک خاص مقام پر واقع ہونا ، اور تمام اعضاء بدن کا
کسی خاص ھدف کے تحت حرکت کرنا، جیسے پھیپھڑوں کے ذریعہ ا کسیجن کا حاصل کرنا اور پھر خون کے گلبل(globule)کے ذریعہ انھیں بدن کے مخنلف اعضاء تک پہنچ جانا نیز ایک معین مقدار میں جگر کے ذریعہ قند کی کمی کو پورا کرنا، نئے خلیوں کی پیدائش کے ذریعہ آسیب دیدہ عضلات کو بدلنا اور مختلف غدوں سے حاصل ہونے والے ہارمون اور سفید گلبل کے ذریعہ ضرررساں جراثیم سے مقابلہ جو بدن کو منظم رکھنے اور اس کی حیات کو باقی رکھنے کے لئے نمایاں کام انجام دیتے ہیں... یہ سب کی سب خداوند متعال کی نشانیاں ہیں، اور یہ عجیب نظام ہے کہ سیکڑوں سال گذرنے کے بعد ہزاروں دانشمند اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے کہ یہ تمام امور کس کے وسیلہ سے برقرار ہیں۔
ہر خلیہ اپنے چھوٹے سسٹم کے ساتھ کسی نہ کسی ھدف کے تحت اور خلیوں کا ہر دستہ ایک ایسے عضو کو تشکیل دیتا ہے جو خود با ھدف نظام ہے اور ایسے سیکڑوں سسٹم اپنی پیچیدگیوں کے ساتھ پورے ایک بدن پر حاکم ہیں، سلسلہ یہیں پر تمام نہیں ہوتا ،بلکہ موجودات کے اندرایسے ہزارں اور لاکھوں سسٹم ایسی بے کراں ہستی کو تشکیل دیتے ہیں جسے جہان طبیعت کا نام دیا جاتا ہے جونظم و کمال کے ساتھ حکیم واحد کے ہاتھوں جاری و ساری ہیں۔ اور یہ بات واضح و روشن ہے کہ علم و دانش جتنا بھی پیشرفت اور ترقی کرے گا اتنے ہی حکمت الٰہی کے اسرا رو رموز آشکار ہو تے جائیں گے اور یہی نشانیاں پاک نفس اور صاف طبیعت والوں کے لئے کافی ہیں۔
source : http://www.alhassanain.com