علاوہ ازين کہ اگر فرض کريں کہ خداوند متعال ـ جو واجب الوجود ہے ـ پھر بھي ايک علت کا محتاج ہے جو اس کو وجود ميں لائي ہے، تو تسلسلِ باطل سے دوچار ہونگے؛ کيونکہ اگر ہم علت و معلولات اور خالق و مخلوقات کا ايک سلسلہ فرض کريں ـ جن ميں واجب الوجود بالذات موجود نہ ہو کہ جس کے لئے کسي علت اور خالق کي ضرورت نہ ہو تو ـ وہ سلسلہ مجموعي طور پر بھي اور ان ميں سے ہر ايک بھي، کبھي بذات خود واجب اور لازم (واجب الوجود يا واجب بالذات) نہ ہوسکے گا اور وجود بھي نہ پاسکے گا؛ کيونکہ ہر معلول و موجود صرف اس وقت وجوب اور پھر ـ مرتبے کے لحاظ سے ـ وجود پاتا ہے کہ اس ميں عدم کا امکان نہ ہو- اگر فرض کريں کہ اس چيز کا وجود 1001 شرطوں سے مشروط ہو اور حتي اس سلسلے ميں سے ايک حلقہ بھي موجود نہ ہو ہوسکتا اور وجود، وجوب کي صفت سے متصف نہيں ہوسکتا؛ کيونکہ امر بديہي ہے کہ وہ وجود ـ اس لئے کہ خود ممکن الوجود ہے ـ اپنے آپ کو واجب نہيں بنا سکتا اور اس کي علت کا بھي يہي حال ہوگا-
پس [اگر اگر فرض کريں کہ کوئي واجب الوجود نہيں ہے اور جس ذات کو ہم واجب الوجود اور علۃالعِلَل کہتے ہيں وہ خود بھي معلول ہو يعني واجب الوجود نہ ہو تو] خالق و مخلوقات اور علت و معلولات کا پورا سلسلہ امکان کے مرحلے ميں ہوگا اور وجوب کے مرحلے ميں نہ پہنچ سکے گا حالانکہ جب تک وجوب کے مرحلے ميں پہنچے گا، وجود ہي نہيں پاسکے گا چنانچہ صرف اسي صورت ميں موجودات کو وجود ملے گا جب اس سلسلے ميں ايک واجب الوجود بالذات ہو اور تب ہي اس سلسلے ميں عدم کے تمام امکانات ختم ہوجائيں گے- ليکن چونکہ نظام وجود، موجود ہے، پس واجب ہے اور کيونکہ واجب ہے پس اس نظام کي چوٹي پر ايک واجب الوجود ہے اور اس ذات کا وجوب ہي ہے جو تمام ممکنات کو فيضِ وجود بخشتا ہے- (2) (ختم شد)
حوالہ جات:
(2) اصول فلسفه و روش رئاليزم، ج 5، صص 74- 76.
source : www.tebyan.net