ہمارا عقيدہ ہے كہ اس واحد و يكتا پروردگار كے سوا كسى كو سجدہ كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ سجدہ انتہائي عاجزى اور خضوع كى علامت اور پرستش كا روشن مصداق ہے اور پرستش و عبوديّت صرف ذات خدا كے ساتھ مخصوص ہے-
قرآن مجيد كى اس آيت '' وللّہ يَسجُد مَن فى السموات و الارض'' (1) ميں كلمہ '' اللہ '' كو مقدم كيا گيا ہے اور يہ تقديم حصر پر دلالت كر رہى ہے يعنى زمين اور آسمان كى ہر چيز صرف اور صرف اللہ تعالى كو سجدہ كرتى ہے -
اسى طرح سورہ اعراف كى 206 نمبر آيت '' و لہ يسجدون'' بھى اس بات پر بہترين دليل ہے كہ سجدہ صرف اللہ تعالى كى ذات كے ساتھ مخصوص ہے-
حقيقت ميں سجدہ خضوع كا آخرى درجہ ہے اور يہ درجہ خداوند عالم كے ساتھ مخصوص ہے- لہذا كسى اور شخص يا چيز كے ليے سجدہ كرنا گويا خداوند عالم كے برابر قرار دينا ہے اور يہ درست نہيں ہے-
ہمارے نزديك توحيد كے معانى ميں سے ايك معنى '' توحيد در عبادت'' ہے يعنى پرستش اور عبادت صرف اللہ تعالى كے ساتھ مخصوص ہے اور اس كے بغير توحيد كامل نہيں ہوتى ہے-
دوسرے الفاظ ميں: غير خدا كى عبادت كرنا شرك كى ايك قسم ہے اور سجدہ عبادت شمار ہوتا ہے- اس ليے غير خدا كو سجدہ كرنا جائز نہيں ہے-
اور جو سجدہ ملائكہ نے حضرت آدم كو كيا تھا ( اور اسكا قرآن مجيد ميں كئي مقامات پر تذكرہ ہے ) مفسرين كے بقول يا تو يہ حضرت آدم(ع) كى تعظيم ، تكريم اور احترام كا سجدہ تھا نہ عبادت كا سجدہ، بلكہ اسى سجدہ سے ملائكہ كى مراد يہ تھى كہ چونكہ يہ سجدہ اللہ تعالى كے حكم كى تعميل ہے لہذا اس ذات حق كى عبوديت ہے - اور يا يہ شكر خدا كا سجدہ تھا-اسى طرح جو سجدہ حضرت يعقوب(ع) اورانكے بيوى بچّوں نے حضرت يوسف - كے ليے كيا تھا اور اسے قرآن مجيد نے '' خرَّ و لہ سُجَّداً'' اور سب انكے سامنے سجدہ ميں گر پڑے'' كے الفاظ كے ساتھ ياد كيا ہے- يہ بھى اللہ تعالى كے سامنے سجدہ شكر تھا- يا ايك قسم كى تعظيم، تكريم اور احترام كے معنى ميں سجدہ تھا-
اور قابل توجہ يہ ہے كہ '' وسائل الشيعہ'' كہ جو ہمارى كتب حديث كاايك مصدرشمار ہوتى ہے، ميں سجدہ نماز كے ابواب ميں ايك مكمل باب ''عدم جواز السجود بغير الله '' كے عنوان سے ذكر ہوا ہے اور اس ميں پيغمبر اكرم(ص) اور آئمہ معصومينسے سات احاديث نقل كى گئي ہيں كہ غير خدا كو سجدہ كرنا جائز نہيں ہے-(2)
حوالہ جات :
1) سورة رعد، آيہ 15
2)وسائل الشيعہ، جلد 4، ص 984
source : www.tebyan.net