اور یہ جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ھو اس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول ، رسول کے قرابتدار، ایتام، مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ھے اگر تمھارا ایمان اللہ پر ھے اور اس نصرت پر ھے جو ھم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رھی تھیں نازل کی تھی، اور اللہ ھی ھر شئی پر قادر ھے " ۔ 1
آیت کی تفسیر سے پھلے مسئلہ "خمس " میں شیعہ و سنی نظریات کی تھوڑی وضاحت ضروری ھے ۔
خمس مذھب شیعہ کی نظر میں
علمائے شیعہ کے نظریہ کے مطابق ، خمس کا تعلق کسی خاص منفعت و فائدہ سے نھیں بلکہ ھر طرح کی زاید منفعت سے ھوتا ھے ۔
فرض کیجئے ! آپ پچاس ھزار روپیہ میں کوئی مال خریدتے ھیں اور پھر اسے اسی قیمت میں فروخت کردیتے ھیں ، ایسی صورت میں آپ کو کوئی فائدہ نھیں پھونچتا ، لیکن اگر آپ اسے خریدی ھوئی قیمت سے زیادہ میں بیچیں تو آپ کو حصولِ سرمایہ کے ساتہ ساتہ فائدہ بھی ھوتا ھے ، پچاس ھزار روپیہ آپ کا سرمایہ ھے اور باقی پیسے آپ کی منفعت و درآمد ھے ۔
چونکہ آپ نے اس معاملہ اور خرید و فروخت میں اپنا وقت و محنت صرف کی ھے اسی لئے آپ اس حاصل شدہ منفعت و درآمد سے اپنا اور اپنے اھل و عیال کے ایک سال کا خرچ نکال سکتے ھیں ، اس شرط پر کہ اسراف نہ کریں ۔ اس کے بعد جو پیسہ بچتا ھے اسے در آمد زائد و منفعت اضافی کھتے ھیں اور اسی زائد درآمد پر خمس واجب ھوتا ھے۔یعنی اصل سرمایہ و سالانہ خرچ سے جو رقم بچ جائے اس میں خمس نکلتا ھے ۔ البتہ نا جائز در آمد و منفعت میں خمس بے معنی ھے ۔
حصول منفعت اور در آمد کے مختلف ذرائع ھیں کہ جن میںسے ایک کا ذکر اوپر گزر چکا ھے ۔
فائدہ حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ایسا خزانہ اور دفینہ وغیرہ ھے جس کے مالک کا علم نہ ھو ۔ چونکہ گزشتہ زمانے میں آج کی طرح بینک وغیرہ نھیں تھالھذا لوگ اپنے روپیہ، پیسہ، زر و جواھرات کو چور ڈاکوؤں کے خوف سے زمین کے اندر دفن کر دیا کرتے تھے پھر بسا اوقات اس جگہ کو فراموش کر دیتے یا ورثاء کو اطلاع دینے کی فرصت نہ مل پانے کے سبب مالکین اپنی قیمتی چیزیں کھو بیٹھتے تھے ۔ آج اگر اس طرح کی چیزیں کسی کے ھاتہ لگ جائیں تو اس پر بھی خمس واجب ھو گا ۔ کان اور غوطہ خوری کے ذریعہ ملنے والی اشیاء کا بھی یھی حکم ھے ۔ فقہ شیعہ ( جس کا اصلی منبع قرآن مجید اور احادیث معصوم علیھم السلام ھے ) کے مطابق حصول منفعت کا ایک ذریعہ غنائم جنگی بھی ھے ۔ جس کا پانچواں حصہ بعنوان خمس جدا کر کے بقیہ اموال سپاھیوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔
source : www.tebyan.net