حضرت وہیب بن منبہ فرماتے ہیں ۔
جب عید آتی ہے ۔ شیطان چلا چلا کر روتا ہے ۔
اس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں ۔ اے سردار آپ کیوں غضب ناک اور اداس ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ہائے افسوس اللہ تعالیٰ نے آج کے دن امت محمد کو بخش دیا ہے لہذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کر دو ۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے ۔ کہ رمضان المبارک کے گزرتے ہی اور نماز عید ادا کرنے کے بعد ہی ہم نماز کی باقاعدگی کو چھوڑ دیتے ہیں
۔ بے مقصد اور بے ہم آہنگ سرگرمیوں اور مشاغل میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ اور اکثر اوقات وہ افعال و اعمال کرنے لگتے ہیں ۔ جو اسلام کی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان المبارک میں کی گئی عبادات خشیت الہٰی کے جذبات اور اخلاص و عجز پر قائم رکھنے والے محرکات ہمارے قلب و روح میں راسخ ہو جائیں۔ اور یہ عادات ہمارے اعضاء و جوارح میں واضح طور پر دکھائی دیں۔ ہماری گفتار اور کردار ہماری ریاضت کے گواہ بن جائیں۔ ہماری زندگیوں سے جھوٹ، عناد، بغض، کینہ، نفاق، غیبت، بد اخلاقی، بد زبانی، چغلی، بہتان، حسد ، تکبر، خیانت، سود خوری، بد دیانتی، اور بے انصافی جیسے رذائل رخصت ہو جائیں۔
ہماری زندگیاں اسوہ رسول اللہ کے عین مطابق ہو جائیں۔ ہمارا طریق معاشرت اخلاق و آداب سے مزین ہو جائے ہماری گفتگو شیریں زبانی اور خوش بیانی سے لبریز ہو جائے نہ اس میں تضع و بناوٹ کا شائبہ رہے اور نہ مبالغہ آمیزی کی آمیزش ، ہمارا وجود دوسروں کے لیے ہمدردی و خیر خواہی، محبت، وفا کا پیکربن جائے۔، اور یہی اس عید کے دن کا تقاضا بھی ہے۔ اور لمحہ موجود کی ضرورت بھی۔
سرکار دو عالم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے عید کی رات کو طلب ثواب کے لیے قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا۔ جس دن تمام دل مر جائیں گے پھر ارشاد فرمایا کہ جس نے پانچ راتوں کو عبادت و اطاعت میں گزارا جنت کا مستحق ہو گیا۔ ذوالحجہ کی آٹھویں رات، عرفہ کی رات، عیدالاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، اور شعبان کی پندرہویں شب۔ عید الفطر کا دن ہمیں ضبط نفس اور احتساب ذات و اعمال کا درس دیتا ہے۔ تقوی ٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے کا پیام دیتا ہے۔ ہمارے من میں تسلیم و رضا اور اخلاص و مروت کی قندیلیں روشن کرتا ہے۔
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=75428