جہاد یعنی عظیم مقدس ہدف کے لئے جد و جہد۔ اس کے مخصوص میدان ہیں۔ ایک میدان مسلح افواج کے شعبوں میں شمولیت ہے۔ اس کا سیاسی میدان بھی ہے، علمی میدان بھی ہے اور اخلاقی میدان بھی۔ جہاد کی صداقت و حقانیت کا معیار یہ ہے کہ یہ عمل جب انجام پائے تو خاص سمت اور رخ کا حامل ہو اور سامنے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اسی کو جد و جہد کہتے ہیں اور جہاد اسی کا نام ہے۔ اگر اس میں الہی ہدف اور پہلو ملحوظ ہوگا تو اس میں تقدس بھی پیدا ہو جائے گا۔
میں اپنے عزیز نوجوانوں کو حقیقی جہاد کی دعوت دیتا ہوں۔ جہاد صرف میدان جنگ میں جاکر لڑنے کا ہی نام نہیں ہے۔ میدان عمل و اخلاق میں سعی پیہم اور سیاسی و تحقیقاتی امور میں تعاون و شراکت بھی جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے میں صحیح طرز فکر اور ثقافت کی ترویج بھی جہاد ہے، کیونکہ دشمن کی جانب سے گمراہ کن اقدامات کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ ہماری فکریں منحرف کر سکتا ہے، ہمیں غلطیوں کا شکار بنا سکتاہے۔ جو شخص بھی عوام کی ذہنی بیداری و آگاہی کے لئے کام کرے، فکری انحراف کا سد باب کرے، غلط فہمی پھیلنے سے روکے، چونکہ وہ دشمن کے مد مقابل کھڑا ہے اس لئے اس کی یہ سعی و کوشش جہاد کہلائے گی۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس جہاد میں حریف سامراجی عناصر ہیں، دشمن وہ افراد ہیں جو ایران، اسلام، شناخت و تشخص، قومیت، اسلام نوازی اور اسلامی صفات و اوصاف سے عناد رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے سلسلے میں سختگیر ہونا چاہئے۔ یہ کفار کون لوگ ہیں؟ ہر اس شخص کے ساتھ تو سختگیری نہیں کی جا سکتی جسے اسلام سے نسبت نہیں۔ جو شخص آپ سے دشمنی کا برتاؤ نہیں کرتا، آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف نہیں ہے، آپ کی قوم اور ملت کی نابودی کے در پے نہیں ہے، وہ خواہ کسی اور دین کا ماننے والا ہی کیوں نہ ہو اس سے آپ اچھا سلوک کیجئے، نیک برتاؤ کیجئے۔ جس کافر سے سختی سے پیش آنے کا حکم ہے وہ یہ نہیں ہے۔ سختگیری ایسے افراد کے ساتھ کرنا چاہئے جو آپ کی شناخت و تشخص، اسلام، قومیت، ملک، ارضی سالمیت، خود مختاری، وقار، عزو شان، عزت و آبرو، آداب و روایات اور ثقافت و اقدار کے دشمن ہوں۔ یہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں عام ہونا چاہئے۔ درگذشت اور رعایت مسلمانوں کے مابین رائج ہونا چاہئے۔
source : www.tebyan.net