قرآن مجيد کي مختلف آيتوں سے بخوبي واضح ھو جاتا ھے کہ وجود خدا پرايمان ويقين، اس کي طرف رغبت اور اس کي پرستش وعبادت کي طرف تمايل، فطري ھے يعني انساني خلقت و فطرت ميں داخل ھے۔
اس حقيقت کي بيان گر بعض آيتوں کے تذکرے سے پھلے چند نکات کي طرف توجہ مبذول کرنا ضروري ھے۔
معنائے لغوي
فطرت، مادہ" فطر "سے ھے جس کے معني کسي شے کو اس کے طول سے چيرنا ھے۔ دوسرے معني کسي بھي طرح کے چيرنے کے ھيں اور چونکہ خلقت، ظلمت، تاريکي اور عدم کو چيرنے کے مترادف ھے لھذا اس لفظ کے ايک اھم معني "خلقت" بھي ھيں۔اس لفظ سے ابداع اور اختراع کے معني بھي مراد لئے جاتے ھيں۔
فطرت "فِعلَہ" کے وزن پر ھے اور وزن فعلہ نوع پر دلالت کرتا ھے۔ لغت ميں فطرت کے معني ايک خاص طرح کي خلقت کے ھيں? لھذا "فطرت انسان" بھي ايک مخصوص طينت اور خلقت انسان کے معني ميں ھوگي۔
ظاھراً پھلي مرتبہ قرآن مجيد نے اس لفظ کو انسان کے متعلق استعمال کيا ھے۔ قرآن سے ما قبل لفظ فطرت کا ايسا کوئي استعمال مشاھدے ميں نھيں آيا ھے۔
"فطرت" قرآن ميں
قرآن مجيد ميں "فطر" کے مشتقات مختلف طريقے سے استعمال ھوئے ھيں۔ مثلاً "فطرالسموات والارض" "فطرکم اول مرة" فطرنا فطرني فاطر السموات و الارض يھاں قرآن کي مراد پيدا کرنے اور خلق کرنے سے ھے۔ لفظ "فطور" آيت "فارجع البصر ھل تري من فطور" ميں شگاف اور سوراخ کے معني ميں ھے اور لفظ "منفطر" آيت "السماء منفطر بہ" ميں شکافتہ کے معني ميں ليکن قرآن کريم ميں لفظ فطرت صرف ايک مرتبہ استعمال ھوا ھے اور وہ بھي لفظ الله کے ساتھ "فطرة الله" انسان کے ساتھ لفظ فطرت اس طرح آيا ھے: "فطرالناس عليھا"
فطرت ال?ھي انسان
کوئي بھي مکتب ھو ، اگر وہ انساني ھدايت و کمال اور سعادت ابدي کا دعوي کرتا ھے تو لازمي طور پر انسان کي ايک مخصوص تعريف اور حدود اربعہ بھي بيان کرتا ھے۔ اسي بنا پر انسان کے بارے ميں جيسي اس مکتب کي شناخت ھوتي ھے ويسا ھي اس کي سعادت کا راستہ اور وسيلہ بھي معين کرتا ھے۔
مکتب ال?ھي ميں بھي انسان کے بارے ميں کافي کچھ کھا گيا ھے ، قرآن ميں بھي اور روايات معصومين عليھم السلام ميں بھي کہ جن کے تمام جوانب پر تبصرہ کرنے کے لئے نہ جانے کتني صخيم کتابوں کي ضرورت پڑے گي۔
انسان کے بارے ميں اسلامي نقطہ نظر کو بيان کرنے والا بھترين لفظ "فطرت" ھے۔ لھذا انسان کے بارے ميں اسلام کي بيان کردہ تعريف کو "نظريہ فطرت" کا عنوان بھي ديا جاسکتا ھے۔
source : www.tebyan.net