عید سعید کے باوجود اسرائیلی ننگی جارحیت و بربریت غزہ پر جاری ہے، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 1100 کے قریب فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں، زخمیوں کی تعداد 6500 سے تجاوز کرچکی ہے اور کئی ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں، جاں بحق ہونیوالوں اور زخمیوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے، جس میں عورتیں اور بچے سب سے زیادہ ہیں۔ رہائشی مکانوں، مسجدوں، ہسپتالوں، سکولوں، اسپورٹس کلبوں، پبلک پارکس، بجلی کی تنصیبات، معذوروں کی بحالی کے مراکز تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، پینے کے پانی اور سیوریج کی متعدد تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے، جس سے کثیر تعداد میں فلسطینی شہری متاثر ہوئے ہیں۔ اسرائیلی بمباری نے اسکول، اسپتال، رہائشی عمارتون، سرکاری دفاتر و مساجد کو بھی شدید نقصان پہنچا کر غزہ کو ایک ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ 60 سالوں میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور تقریباً دو لاکھ فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کر دیا گیا، سفاکیت و بربریت کا کھیل جاری ہے۔
صیہونی حکومت گذشتہ کئی ہفتوں سے اپنی فضائیہ اور بحریہ کی مدد سے نہتے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری اور بربریت میں مصروف ہے، گھر گھر سے شہداء کے جنازے اٹھ رہے ہیں، غزہ میں ہر جگہ دھویں، آگ اور راکھ کے بادل اڑتے نظر آرہے ہیں، صیہونی فضائیہ جنگی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہے، بمباری سے سینکڑوں گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، عورتیں، بچے، بوڑھے کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر ایک گھنٹے میں اسرائیلی بمباری سے غزہ کا ایک معصوم بچہ جاں بحق ہوتا ہے، آخر قصور کیا ہے ان مسلمانوں کا، تین یہودی لڑکوں کے مبینہ اغوا کا معاملہ مذاکرات کی میز پر بھی حل ہوسکتا تھا، حماس نے تو اس سے واضح طور پر لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا اور اب اسرائیل نے بھی اس معاملے کو فلسطینیوں سے الگ کر دیا اور کہا کہ 3 فوجیوں کے اغوا میں حماس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، اب فلسطینیوں کا قصور یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں، پکے مسلمان ہیں اور وہ اقوام عالم میں عزت سے جینا اپنا حق سمجھتے ہیں، وہ اسرائیل کی دھونس کو نہیں مانتے، وہ مقاومت جانتے ہیں، وہ مقابلہ جانتے ہیں، وہ قربانیاں دینا جانتے ہیں، فلسطینیوں کا قصور یہی ہے کہ وہ داعشی نہیں ہیں بلکہ دفاعی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر فریقین سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے، بانکی مون نے اسرائیلی جارحیت کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اور قتل و غارت روکنے کی اپیل کی ہے، لیکن اسرائیلی جارحیت میں کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی ہے، فضائی حملوں کے بعد بھی اسرائیل کی دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور اب زمینی اور سمندری کارروائیوں کی کوشش کر رہا ہے، اسرائیلی درندگی کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری ہیں، دنیا بھر کے احتجاجی ریلیوں میں اسرائیلی پرچم نذر آتش کئے جا رہے ہیں، نتین یاہو کے پتلے جلائے جا رہے ہیں، امریکہ سے بھی برابر نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے، مختلف مذہبی جماعتوں کے قائدین اور جید علماء کرام نے اسرائیل کی فلسطین پر بمباری اور نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس بدترین اسرائیلی دہشت گردی کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے اشاروں پر نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
دانشوران ملت کا کہنا ہے کہ امریکہ، یورپ اور نام نہاد مسلم حکمران اسرائیل کی پشت پناہی کرکے صرف مشرق وسطٰی ہی نہیں پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات سے دو چار کر رہے ہیں، ترکی کے صدر عبداللہ گل نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ کرنے سے باز رہے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک غزہ پر حملے بند نہیں ہوتے، اقوام عالم کو تماشہ دیکھتے رہنے کی بجائے تنازعہ کا پائیدار حل تلاش کرنیکی کوشش کرنی چاہیے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک منصفانہ طریقے سے حملہ آور کا ہاتھ نہ روکا جائے، سویلین آبادی، سکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، رہائشی مکانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن 4 کی خلاف ورزی ہے اور خلاف ورزی کے مرتکب سفاک اور ظالم درندے مستوجب سزا ہیں، ان سب مذمتوں اور اپیلوں اور التماسوں کے باوجود صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ عالمی دباؤ کے باوجود حملے جاری رہیں گے۔
افسوس فلسطینیوں کیخلاف مظالم پر عالمی برادری، بین الاقوامی ادارے، مسلم ممالک، مسلم جہادی، خود ساختہ خلیفے، خودکش بمبار اور مسلم حکمران خاموش ہیں، اسرائیل کے سابق وزیر دفاع نے حال ہی میں کہہ دیا کہ اسرائیل کو سعودی عرب اور امارات کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، افسوس
source : www.shianet.in