احکام اسلامی میں سے ایک حکم امانت داری ہے ۔کیونکہ ایک مضبوط و سالم معاشرہ کے لئے بنیادی طور پر باہمی اعتماد کا ہونا لازم و ضروری ہے۔اسی لئے صرف اسی معاشرے کو خوشبخت و سعادت مند سمجھنا چاہئے جس کے افراد کے درمیان مکمل رشتہ اتحاد و اطمینان پایا جاتا ہو ،لیکن اگر معاشرے کے افراد اپنے عمومی فرائض کی سرحدوں کو پار کر لیں اور دوسروں کے حقوق کے ساتھ خیانت کرنے لگیں تو وہیں سے معاشرے کے زوال کی ابتدا ہونے لگتی ہے۔اسی لئے قرآن و حدیث میںامانتداری کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے:اے ایمان والو خدا اور رسول اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو جبکہ تم جانتے بھی ہو۔ (سورہ انفال،آیة ۷۲)
قرآن مومنین کے صفات میں سے ایک صفت ”امانت داری “کو قرار دیتے ہوئے فرما رہا ہے: ”اور جو مومنین اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ رکھنے والے ہیں ۔۔۔ درحقیقت یہی وارثان جنت ہیں۔ (سورہ مومنون آیت ۸و۰۱)
حضرت امام محمد باقر(ع) اورحضرت امام جعفر صادق (ع) کے عظیم شاگرد ”زرارہ “ فرماتے ہیں کہ اس آیة میں اس بات کا حکم دیا جارہا ہے کہ ولایت اور امامت کو انکے اہل تک پہنچا دو۔(تفسیر برھان ،جلد۱،صفحہ ۰۸۳)
دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہو رہا ہے:”بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو (سورہ نساء،آیة ۸۵)
علامہ جوادی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :”لفظ امانت عام ہے وہ مال ہو یا علم یاراز یا احکام دین یا کوئی شے جس کو خدا نے بندے کے پاس رکھوادیا ہے اس کا اہل تک پہچانا ضروری ہے اور خیانت کرنا حرام ہے اور اسی لئے رسول امین ،خدا سے قرآن و اہلبیت(ع) لائے اورامت کے حوالے کر گئے، اپنے ساتھ واپس لے کر نہیں گئے ۔“
لیکن افسوس یہ کہ امت نے اس امانت کا پاس نہیں کیابلکہ آپ اور اسلام کی تمام نصیحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ کے بعداہلبیت(ع) کے ساتھ ایسا برتاﺅ کیا کہ قلم بھی اس کی عکاسی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے ۔ لعنة اللّٰہ علی الظالمین۔
روایات میں امانت اور امانت داری کی بہت تاکید کی گئی ہے اور خیانت کرنے والے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:جو بھی امانت میں خیانت کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مشکوة الانوار،ص۲۵)
دوسری جگہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص بھی امانت کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا ہے و ہ دین بھی نہیں رکھتا ہے۔“(بحار ج۳۷،ص۶۱۱)
حضرت امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:”جو شخص امانت دار نہیں ہے اس کا کوئی دین نہیں ہے۔“ (بحار الانوار ،ج۲۷،ص۸۹۱)
دوسری جگہ حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیںکہ پیغمبر اکرم نے آخری لحظات میں تین بار مجھ سے کہا:اے ابوالحسن امانت کو ادا کر دینا چا ہے امانت صحیح آدمیوں کی ہو یا غلط چاہے کم ہو یا زیادہ حتی کہ سوئی اور دھاگہ میں بھی اس کا خیال رکھنا۔“ (بحار الانوار ،ج۷۷،ص ۳۷۲)
بار دیگر حضرت امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : ”جو شخص بھی امانت میں خیانت کرے اور صاحب مال کو اس کی چیز نہ لوٹائے یہاں تک کہ اس کی موت آجائے تو وہ ہمارے دین پر نہیں مرا ہے اوروہ خدا سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ خداوند عالم اس پر غضبناک ہوگا۔“ (بحار الانوار ،ج۵۷،۱۷۱)
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: ” فقط لوگوں کے طولانی رکوع اور سجود پر نگاہ نہ کرو کیونکہ ممکن ہے یہ کام و ہ عادتاً کرنے لگے ہوں اور اگر ترک کریں گے تو انکے لئے باعث ناراحتی ہوگا بلکہ لوگوں کی صداقت اور امانت داری پر نگاہ کرو۔“ (اصول کافی ،ج۲،ص۵۰۱۔نور الثقلین ،ج۱،ص۶۹۴)
چونکہ اسلام میں امانتداری کی بہت زیادہ اہمیت ہے اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خاص توجہ تھی اور آپ نے عملاً اس کا مظاہرہ اس طرح سے فرمایا کہ آپ کا لقب ہی ”امین“ پڑ گیا حتی کہ مشرکین و کفار بھی آپ پر اعتماد کرتے تھے اور آپ کو امین جانتے تھے۔جس کے بہت سے نمونے ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں ،سات ہجری میں جب پیغمبر ۰۰۶۱ جانثاروں کے ساتھ خیبر کو فتح کرنے کے لئے روانہ ہوئے توآپ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں تک کہ غذا کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ جانور جنکا کھانا مکروہ ہے مانند اسب و قاطر سے بھی آپ کے جانثاروں کو استفادہ کرنا پڑرہاتھا اسی دوران ایک یھودی چرواہا جو کہ یہودیوں کی بھیڑوں(گوسفند) کو چراتا تھا پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا اس کے ہمراہ بہت سی بھیڑیںبھی تھیں جنکو اس نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں پیش کیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس مشکل وقت میں کہ جس میں غذا کی شدید کمی تھی کمال صراحت سے انکار کردیا اور اس سے فرمایا کہ یہ بھیڑیںتمہارے پاس دوسروں کی امانت ہیں اور میرے دین میں امانت میں خیانت جائز نہیں ہے تمہارے لئے ضروری ہے کہ ان گوسفندوں کو ان کے مالکان تک پلٹاﺅ اس نے ایسا ہی کیا ۔
پیغمبر اکرم کے اس عمل سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان چاہے جتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو اسے امانت میں خیانت کا حق حاصل نہیں ہے چاہے وہ مال جو اس کے نزدیک ہے وہ کسی غیر مسلم ہی کا کیوں نہ ہو۔جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
تین چیزیں ایسی ہیں کہ خداوند عالم نے کسی کو بھی ان سے مخالفت کی اجازت نہیں دی ہے ۔ (۱) ادائے امانت ہر شخص کے بارے میں چاہے وہ نیکو کار ہو یا بدکار۔(۲) عھد وپیمان کی وفا چاہے وہ بدکار ہو یا نیکو کار۔(۳) والدین کے ساتھ نیکی چاہے وہ کافرہوں یا مسلم ،نیکوکار ہوں یا بدکار۔ (بحار،ج۲۷،ص۲۹)
بار دیگر آپ علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”خدا وندا عالم نے کسی بھی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا ہے جز صداقت اور امانت داری کے ساتھ چاہے صاحب امانت کافر ہو یا بدکار۔ (اصول کافی ،ج۲،ص۵۰۱)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آج کے معاشرہ میں جو فساد و انحراف پایا جاتا ہے اس کی مختلف علتیں ہیں ۔لیکن جب ہم ان علل و اسباب کو تلاش کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ معنوی افلاس ،اخلاق کی پستی،روحانی کمزوری ،ہمارے معاشرے میں پیدا ہوئی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس درماندگی اور بدبختی کی سب سے بڑی علت لوگوں کے افکار و عقول اور تمام شعبہ ھای حیات پر خیانت کا غالب ہو جانا ہے ۔یہ بات بدیہی ہے کہ عمومی رفاہت اور فکری سکون صرف امن عامہ ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور آجکل لوگوں کے اندر جو اضطراب اور فقدان امن عامہ کا عمومی وجود ہے اس کی علت صرف معاشرہ میں خیانت کا پھوٹ پڑنا ہے۔
البتہ امانت کی مختلف قسمیں ہیں ایک امانت مادی کہ جو ہمارا مقصود اس مضمون میں ہے دوسری امانت ظاہر ی ہے مانند انسان کے اعضائے جسمی ،آنکھ،کان ،ہاتھ ،پیر،اولاد وغیرہ کہ یہ بھی انسان کے پاس خدا کی امانت ہیں اس لئے ہمیں اس بات کا خیال کرنا چاہئے کہ ہم ان کے ذریعہ سے حرام کام نہ کریں اور انکی حفاظت کریں تاکہ یہ گناہ سے دور رہ سکیں یا امانات باطنی و معنوی مانند نعمت عقل ،نعمت قرآن ،دین و رہبران دین وغیرہ کہ ہم ان کا حق پایمال نہ کریں اسی طرح سے ہماری عقل کہ جس کو اسلام اور مسلمین کے خلاف استعمال نہ کریں ہم اپنی برائی پر پردہ ڈالنے کے لئے قرآن و حدیث کا غلط استعمال نہ کریں ہم اپنی غلط بات کو ثابت کرنے کے لئے غلط طریقہ سے قرآن و حدیث سے اپنے مقصد کا حکم استخراج کر کے اسلام کو بدنام نہ کریں کیونکہ یہ سب چیزیں امانت میں خیانت شمار ہوتی ہیں اور اسلام نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔اور آخر میں ہم بار گاہ خدا وندی میں اہلبیت علیہم السلام کے وسیلہ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں امانت داری کی صفت سے آراستہ کرتے ہوئے امانت داروں میں شمار کرے۔
source : http://hedayatorg.com