[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
مولانا سید ثمر علی نقوی
مقدمہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام انسان کی تمام فطری ضروریات کا مکمل حل پیش کرتا ہے۔ احکام اسلام فطرت انسانی سے پوری طرح ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ اسلام صرف انسان کی روحانی و اخروی زندگی کیلئے راہنمائی نہیں کرتا بلکہ انسان کی مادی اور دنیاوی زندگی کیلئے بھی ایک واضح نظام پیش کرتا ہے۔بعثت انبیاء کا مقصد ہی معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔
''ولقد ارسلنا رسلنابا البینات وانزلنا معھم الکتاب و المیزان لیقوم الناس باالقسط''
] بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں[١
.اس آیہ مجیدہ میں نزول کتاب کا مقصد قسط و عدالت کا قیام بتایا گیا ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ۖ نے بعثت کے ساتھ ہی انسانی معاشرہ کی ہدایت کا کام شروع کیا اور اسے چند عرصہ ہی میں معراج و کمال کی منزل تک پہنچادیا۔
انسانی معاشرہ کیلئے یہ ایسا جامع اور زیبا ترین موقع تھا جو ہر میدان میں انسانی ضرورتوں کی تکمیل کی صورت میں اسے حاصل ہوا۔ لیکن افسوس کہ موقع پرست اور ابن الوقت قسم کے افراد نے انسانی ترقی کی اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں اور انسانوں کو الہی حاکمیت کے سائے سے محروم رکھکر ظلم و جہالت کی تاریکیوں میں رکھنے کی کوشش کی لیکن ہادیان بر حق نے ہر دور میں انسانوں تک نور الہی کی شعاعیں پہنچانے کا فریضہ انجام دیا ۔ آج ہم آخری معصوم کی الہی ہدایت کے زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
حضرت حجة کی غیبت کبری کے دور میں بھی انسان کو ہدایت سے محروم نہیں رکھا گیا بلکہ اس دور میںبھی حضرت حجت کے جانشین فقہاء کی ولایت کے ذریعے کمال انسان تک پہنچنے کا انتظام موجود ہے۔ دور حاضر میں نظریہ ''ولایت فقیہ'' اسلامی موضوعات میں نہایت اہم شمار ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس میں اسلامی معاشرے کی قیادت اور رہبری کے بارے بحث کی جاتی ہے ۔ ''ولایت فقیہ'' کے قائلین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ ولایت حقیقت میں ولایت پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ اطہار کے بعد ہے۔ لہذا اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ایک فقیہ اسلامی معاشرے کا زعیم اور راہبر ہوتا ہے اور لوگوں کے مال و جان پر بھی ''ولایت '' یعنی حق اولویت رکھتا ہے کیونکہ ولایت پیغمبر ۖ و ائمہ اطہار کے تحت الہی اختیارات کے ساتھ حکومت اسلامی کو تشکیل دینے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
اصل ولایت فقیہ، شیعہ علماء و دانشمندان کے نزدیک مورد اتفاق ہے کیونکہ اصل ولایت پیغمبر ۖ اور آئمہ اطہار میں تمام علماء شیعہ کا اتفاق ہے ۔اختلاف صرف اس مسئلہ میں ہے کہ ولایت معصومین اسی عمومیت کے ساتھ فقہاء کو بھی حاصل ہے یا نہیں ؟ اس مقالہ میں ''نظریہ ولایت فقیہ''کی وضاحت اور اس کے اثبات پر بحث کی جائیگی لیکن اس نظریہ کے اثبات سے قبل دو اہم مطالب کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے ایک'' انسان شناسی'' دوسرا'' دین اور سیاست'' کا رابطہ ۔لہذا ان مطالب کی مختصر وضاحت بھی ضروری ہے۔
١۔ انسان کی حقیقت
حقیقت انسان کے بارے میں مختلف نظریات موجود ہیں ہر مذہب ایک خاص زاویہ سے انسان کے متعلق بحث کرتا ہے ۔جن کا ذکر کرنا اس مقالہ میں ضروری نہیں ۔ قرآن کی نظر میں انسان ایک ایسا موجود ہے جو ایک طرف فطرت الہی کا حامل ہے تو دوسری طرف طبیعت مادی کا بھی مالک ہے۔''فطرت'' سے اعلی معارف ،معنویات اور نیکی و سعادت کی طرف دعوت دیتی ہے جبکہ طبیعت اسے مادیات ، شہوات، نفسانی خواہشات اور پستیوں کی جانب بلاتی ہے۔
نتیجہ میں انسانی زندگی طبیعت اور فطرت کے درمیان مسلسل جنگ کا ایک میدان ہے ۔ اگر اس پیکار میں انسانی طبیعت نے فطرت پر قابو پالیا اور فطرت کو طبیعت کے ماتحت کر لیا تو قرآن مجید کی نظر میں یہ انسان ایک منحرف اور گمراہ انسان بن جاتا ہے۔جو نہ صرف اشرف المخلوقات نہیں رہتا بلکہ حیوانات سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حیوانات کی غرض خلقت انسان کیلئے مسخر ہوناہے اور انسان کی غرض خلقت علم و معرفت کے سائے میں معبود حقیقی کے سامنے خاضع ہوناہے لیکن جب یہ انسان اس فطرت کو دبا کر غرض خلقت کی خلاف عمل کرتا ہے تو پھر حیوانات سے بھی پست تر ہو جاتا ہے ۔ارشاد رب العزت ہے:
''ام تحسب ان اکثرہم یسمعون او یعقلون ان ہم الا کالانعام بل ہم اضل سبیلا''
]کیا اپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہر گز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ۔٢
اکثریت دلیل ہے کہ بعض افراد کسی نہ کسی وقت بات سن لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح راہ راست پر آجاتے ہیں لیکن انسان صاحب عقل ہونے کے باوجود راہ حق سے بہک جاتاہے اور پھر جانور خود ہی بہکتا ہے دوسروں کو گمراہ نہیں کرتا جبکہ انسان دونوں کام انجام دیتا ہے۔اگر فطرت فاتح ہوئی اور طبیعت اس کی فطرت کے تابع ہوگئی تو اس صورت میں انسان ہدایت پاجاتا ہے اور حق کی راہ پر گامزن ہو کر کمال کی اس چوٹی تک پہنچ جاتا ہے کہ ملائکہ بھی اسے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
پس انسان کا اشرف المخلوقات ہونا در حقیقت اس روح و جان کے باعث ہے جس کا قرآن میں واضح ذکر موجود ہے ۔ارشاد رب العزت ہے :
''واذقال ربک للملائکہ انی خالق بشرا من صلصال من حماء مسنون فاذا سویتہ و نفخت فیہ من روحی فقعو الہ ساجدین''
]اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا تھا کہ میںسیاہی مائل نرم کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔پھر جب میں مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح حیات پھونک دوںتو سب کے سب سجدہ میں گر پڑنا۔[٣
اسی روح کی وجہ سے انسان غور و فکر کرتا ہے یعنی ''قوت عاقلہ''کی وجہ سے حیوان ناطق بن کر دیگر حیوانات سے ممتاز ہو جاتاہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے
''ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ وجعل لکم السمع والابصار والافئدہ قلیلا ماتشکرون''
]پھر اسے معتدل بنایا اور اسمیںاپنی روح پھونکدی اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل نبائے مگر تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو[٤
انسان ایسا عجوبہ روزگار ہے کہ جس نفس و روح کی وجہ سے خلیفةاللہ کی منزل پر فائز ہوتا ہے اسی نفس کے باعث ہی مختلف قسم کی خواہشات اورجبلتوںکا مجموعہ ہے ۔''ونفس وماسواھا فالھمھا فجورھا وتقواھا''
]اور نفس کی قسم اور اس کی جس نے اسے معتدل کیا پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی [٥
خالق کائنات سورہ شمس میں ،شمس و قمر ،لیل و نہار اور ارض وسما کے ساتھ قسم کھانے کے بعد اس نفس کی قسم کھائی ہے جس کی تخلیق کے بعد اللہ نے اس میں ،خیرو شر ،پاکیزگی و پلیدی ،فسق وفجور اور تقوی کی سمجھ ، ودیعت فرمائی ۔لیکن کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کو پاک رکھا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس نفس کے شعور کو دبائے رکھایعنی فطرت کی آواز کو دبایا۔
مذکورہ آیات کے علاوہ دیگر بہت سی آیات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ انسان کو روحانی اور مادی زندگی کا سفر طے کرنے کیلئے ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو اس کی تمام مادی و معنوی احتیاجات کو پورا کر سکے ۔ اگر کوئی قانونی مجموعہ اس کی صرف ایک طرف کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیاتو یہ ناقص ہوگا جس کے تحت پرورش پانے والا انسان نامکمل بلکہ غیر حقیقی انسان ہوگا۔
آج کا انسان علم، ثقافت رہن و سہن اور بہت سے آداب و رسوم کے مطابق ماضی کے انسان سے اختلافات رکھتا ہے لیکن انسا ن کے فطری اور طبیعی رجحانات مشابہ اور یکسان ہونے کی ایک مثال ہنر کی طرف اس کا رجحان ہے۔انسان حسن و زیبائی کا دلدادہ ہے خواہ یہ حسن فطرت کے مناظر میں ہو یا ظاہری ہنری زیبائی ،انسان ان سے لذت محسوس کرتا ہے ۔
علاوہ ازین، انسان ایک موجود اجتماعی اور معاشرتی ہے ۔ اس میں یہ بحث ہے کہ انسان جبری طور پر معاشرتی زندگی گزارنے پر خلق ہوا ہے یعنی طبیعت انسانی کا تقاضا ہے کہ انسان خود بخود ایسی زندگی گزارتا ہے یا کوئی عقلانی عامل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اجتماعی زندگی اختیار کرنا چاہیے اور اپنے مفادات کے پیش نظر اجتماعی ہونے کو ترجیح دیتا ہے حقیقت جو بھی ہو لیکن یہ مسلم ہے کہ انسان کی زندگی اجتماعی اور معاشرتی قسم کی ہے۔
اجتماعی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مفادات میں ٹکراو کی کیفیت پیدا ہو جس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انسان کو ایسا طرز معاشرت اپنانا ہے کہ جس میں ممکنہ حد تک اس ٹکراو کو ختم کرتے ہوئے دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی فضا پیدا ہو لہذا ہر انسان اپنے معاملات کو اسطرح منظم کرے کہ دوسروں کے حقوق ضایع نہ ہونے پائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عقل انسانی حکم کرتی ہے کہ کچھ حدود و قیود کا ہونا ضروری ہے جن کی رعایت و پاسداری کرنا ہر انسان پر لازم ہو وگرنہ جنگ و جدل کی کیفیت پیدا ہونے کی وجہ سے کوئی شخص بھی اپنے حقوق حاصل نہ کر سکے گا اور اسطرح معاشرہ ہی تشکیل نہ پاسکے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حدود کیسی ہوں ؟اور ان حدود کو متعین کون کرے ؟
اس کا جواب جو بھی ہو لیکن معاشرہ کے استمرار کیلئے ایک ''قانون''کا ہونا ضروری ہے۔ مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ دینی نقطہ نظر سے یہ حدود ، الہی حدود ہونی چاہیں اور ان حدودیا ''قانون '' کا تعین صرف خالق انسان کر سکتا ہے اس کی دلیل بعد میں بیان کی جائے گی۔
٢۔دین اور سیاست
خالق کائنات نے انسانی معاشرہ کی بقاء کی خاطر ایک جامع نظام زندگی عطا کیا ہے جسے ''دین ''کہا جاتا ہے۔قرآن مجید اور تاریخ کے مطابق ادیان کی تاریخی حقیقت اس بات پر گواہ ہے کہ ادیان مر سل کی تعداد خدا کے رسولوں کی تعداد کے برابر ہے ۔یہاں پر رسول سے مراد صاحب شریعت نبی ہے جس پر خدا کی طرف سے لوگوں تک شریعت پہنچانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔٦
گذشتہ بحث میں یہ گزر چکا کہ انسان متمدن ہونے کی بناپر ایک قانون کا محتاج ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے یہ قانون خداوند متعال کی جانب سے متعین ہونا چاہیے علاوہ از ین قرآن و حدیث کی رو سے خداوند متعال نے ایسے قوانین نازل فرمائے ہیں جو انسانی معاشرہ میں تعادل اور عدالت اجتماعی کو بر قرار کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔ سورہ حدید کی آیت ٢٥ میںجو ''کتاب و میزان ''کا ذکر آیا ہے اس سے مراد ''قانون'' ہی ہے ۔
قانون کے الہی ہونے پر مختصر طور سے یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ قانون کا اصل مقصد معاشرہ میں عدل و انصاف بر قرار کرناہے اور یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب معاشرہ کے اندر ایسے قوانین نافذ ہوں جن میں انسان کی تمام جہات کو ملحوظ رکھا گیا ہو کیونکہ قوانین پر عمل کر کے انسان مادی و معنوی ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے لہذا کامل ترین قانون وہ ہو گا جو انسان کو مادی و روحانی کمالات تک پہچانے میں معاون و مددگار ہو لیکن اگر قانون میں صرف ایک جہت کو مد نظر رکھا گیا ہو تو یہ کامل قانون نہیں ہوگا اور انسان کیلئے نہ صرف مفید نہیں ہو سکتا بلکہ نہایت درجہ نقصان دہ ہو گا چونکہ ایسے قانون سے انسان اپنا توازن بر قرار نہ رکھ سکے گا اور انسان کا غیر متوازن ہونا معاشرے کے غیر متعادل ہونے کا موجب ہے جس کی بنا پر معاشرہ میںبہت بڑا بگاڑپیدا ہو سکتا ہے جو انسانی مقصد کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
ایسا جامع قانون صرف وہی ہستی پیش کر سکتی ہے جو خالق انسان ہو ااور اس کی تمام ضروریات و احتیاجات سے مکمل آگاہی رکھتا ہو یہ صرف اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے ۔علاوہ برین قانون وضع کرنے والی ہستی کو ہر قسم کی خود غرضی اور خود پسندی سے پاک ہونا چاہیے تاکہ کسی کا حق پامال نہ ہو ۔اسلامی نقطہ نظر سے ''ربوبیت تشریعی''کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان احکام الہی کے سامنے سر تسلیم خم رہے اور خدا کے علاوہ کسی کے دستور و قانون کو قبول نہ کرے ۔٧
خداوند متعال قرآن مجید میں اہل کتاب کے متعلق فرماتاہے
''اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ''
]ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو رب بنالیاہے ۔[٨
رب بنالینے کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ ان علماء کی پرستش و عبادت کرتے تھے بلکہ روایات میں اس کی تفسیر یہ بیان ہوئی ہے کہ لوگ خدا کے مقابلے میں اپنے علماء کی بات کو قانون کا درجہ دیتے اور قانون الہی کی طرح اس پر کار بند ہو جاتے۔
حضرت امام باقر ـ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
''واللہ ماصلو الھم ولہ صاموا ولکن اطاعوھم فی معصیةاللہ''
]یعنی یہ لوگ اپنے علماء کیلئے نہ روزے رکھتے اور نہ نماز پڑھتے تھے بلکہ اللہ کی مخالفت میں ان علماء کی اطاعت و پیروی کرتے۔[
دشمن اسلام بالخصوص استعمار نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رکھنے اور ان پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی خاطر یہ پروپیگنڈا کیاکہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ،یہ دین زندگی کا دین نہیں ،معاشرے کیلئے اس کے پاس نہ کوئی قانون ہے اور نہ نظام بلکہ دین صرف انسان کی روحانی تربیت کیلئے چند عبادی احکام پیش کرتا ہے۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ بعض سادہ لوح متدین طبقہ نے بھی یقین کرلیا کہ اسلام صرف خالق و مخلوق کے درمیان رابطے کا نام ہے۔
حضرت امام خمینی فرماتے ہیں :آپ حضرات جو جوان ہیں اپنی زندگی میں اسلام کے قوانین و نظام کا تعارف کروانے میں سنجیدگی اختیار کریں ،ایسا نہ ہو کہ اسلام کی حقیقت مخفی رہ جائے ۔اور لوگ یہ سوچنے لگیں کہ عیسائیت کی طرح اسلام بھی چند ایسے احکام کا نام ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ ہوتے ہیں اور یہ کہ مسجد اور کلیسا میں کوئی فرق نہیں (حالانکہ)جب مغرب میں کوئی خبر نہ تھی ،وہاں کے باشندے وحشی تھے امریکہ نیم وحشی اور سرخ پوست باشندوں کی زمین تھی ،اس وقت دو وسیع سلطنتیں ایران اور روم اپنے حکمرانوں کے ظلم و استبد اد اور عدم مساوات کا شکار تھیں لوگوں کو حکومت اور قانون کا دور دور تک پتہ نہ تھا خداوند عالم نے اپنے رسول ۖ کے واسطے سے ایسے قوانین نازل فرمائے جن کی عظمت سے انسان تعجب میں پڑجائے ۔تمام امور کے لیے اسلام ،قانون و آداب لیکر آیا ہے۔٩
یہ بات کس طرح قابل تصور ہے کہ وہ دین جو انسان کو کمال و سعادت کی طرف ہدایت و رہنمائی کرنے کیلئے آیا ہے ۔حکو مت جیسے امور ]جن کی تمام انسانی معاشروں کو ضرورت ہے[کے سلسلے میں خاموش اور لاتعلق رہے ۔ متون اسلامی کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ احکام کی ساخت و ترکیب ایسی ہے جو حکومت کے وجود کی متقاضی ہے ۔ جیسے احکام جہاد و قصاص و تعزیرات اور مالیات ]خمس و زکوة[وغیرہ کے احکام حضر ت امام رضا اسلامی حکومت کے وجود کی علت کے سلسلے میں فرماتے ہیں ''ہم کسی ایسے گروہ یا امت کا سراغ نہیں پاتے کہ جس نے حاکم اور سر پرست کے بغیر زندگی بسر کی ہو ۔کیونکہ لوگوں کے دینی اور دنیوی امور کے نظم و ضبط کیلئے ایک عاقل و مدبر حاکم کی ضرورت ہوتی ہے۔
لہذا یہ امر، حکمت الہی کے شایان شان نہیں کہ اپنی مخلوق کو کسی قائد و حاکم کے بغیر یوں ہی چھوڑ دے جبکہ خالق کائنات بخوبی جانتاہے کہ لوگوں کو بہر حال ایک حاکم کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرے کو استحکام ، نظم و انتظام اور دوام بخشے ،دشمنوں کے ساتھ جنگ کے وقت لوگوں کی قیادت و راہبری کرے ،عمومی مال و ثروت کو لوگوں کے درمیاں تقسیم کرے ، ان کیلئے نماز جمعہ و جماعت قائم کرے اور ظالموں کو مظلوموں پر ظلم کرنے سے روکے۔١٠.
مذکورہ حدیث کی رو سے خداوند عالم کا یہ ارادہ ہے کہ انسان امور سیاست میں اپنی ذمہ دایاں انجام دے تو پھر کیسے یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ خدا ایسا دین نازل کرے جو سیاست سے خالی ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ دین و سیاست کا منکر ہونا انسان کے وجود کے منکر ہونے کے مترادف ہے کیونکہ دین یعنی ایسا جامع نظام جو وجود انسانی کو کمال تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ،واضح ہے فقط نظام کا موجود ہونا اس مقصد کے حصول کیلئے کافی نہیں جب تک یہ نظام عملی طور پر نافذ نہ ہو ۔نظام کے نفاذ کا دوسرا نام'' حکومت یا سیاست ''ہے پس کس طرح ممکن ہے کہ خدائے علیم و حکیم ایک طرف انسان کو کمال کی منازل طے کرنے کا حکم دے لیکن دوسری طرف اس نظام ]دین[ کو انسانی اصلاح کیلئے ممنوع قرار دے۔ بے شک اصل اولی یہ ہے کہ صرف اللہ تعالی جو ہمارا خلق و مالک ہے وہی ہمارے تمام امور کا والی بھی ہے: '' الالہ الخلق و الامر'' ]آگاہ رہو فیصلہ کرنے کا حق صرف اسی (اللہ)کو حاصل ہے[١١
خلق بھی وہی کرتا ہے اور پھر اپنی مخلوق کی مصلحت کے مطابق احکام صادر کرنا یا مفسدہ کے پیش نظر کچھ امور سے نہی ]منع [ کرنا بھی اسی سے مختص ہے ۔
''مالھم من دونہ من ولی ولا یشرک فی حکمہ احدا''
] ان لوگوں کیلئے اس اللہ کے سوا کوئی سر پرست نہیں ہے اور نہ وہ کسی کو اپنی حکومت میں شریک کرتا ہے [۔١٢
یہ حاکم اصلی و حقیقی اپنے قوانین کو ہم تک وحی و نبوت کے ذریعے پہنچا تا ہے اور اپنے انبیاء اور معصوم نما یندوں کے ذریعے ان احکام کو نافذ کرتا ہے ۔پس جو احکام اللہ تعالی کی جانب سے بذریعہ وحی ہم تک پہنچتے ہیں ان پر عمل کرنا واجب ہے۔عقل بھی اسی بات کا حکم لگاتی ہے کہ ہر اس مرشد و ہادی کی اطاعت واجب ہے جس کے بارے میں انسان کو یقین ہو جائے کہ اس کا تعلق ہدایت انسانی اور مصلحت اجتماعی کے ساتھ قائم ہے۔
عقل شکر منعم اور تعظیم خالق کو بھی واجب قرار دیتی ہے اور اس کے ترک کرنے کو مذموم وقبیح قرار دیتی ہے مخصوصا اگر ترک کرنا باعث نافرمانی ہو تو عقل اس کی مذمت کرتی ہے شاید الہی ملاک کے تحت عقل حکم کرتی ہے کہ اطاعت الہی بھی واجب ہے بلکہ والدین کی اطاعت بھی اسی قسم سے ہے۔شرعی حکم سے قطع نظر ،عقل والدین کی اطاعت کو حسن اورنافرمانی کو قبیح قرار دیتی ہے۔١٣.
دین سے سیاست کو جدا کرنے کا مطلب یہ ہو گاکہ اصلاً دین نہیں ہے جبکہ دین کے احکام چونکہ انسان کیلئے آئے ہیںاور گذشتہ بحث کے مطابق انسان مدنی با لطبع ہے یعنی اس کی زندگی معاشرتی تعلقات اور لین دین پر موقوف ہے ۔نیز معاشرتی زندگی گزارنے میں غالبا مختلف اورمتضاد خواہشات کے زیر اثر قرار پاتا ہے تو کیسے ممکن ہے اسطرح کے انسان کیلئے خدا وہ قانون نازل نہ کرے جو اس کی معاشرتی زندگی کی بقا میں موثر ہوں اور اس کی متضاد خواہشات کو کنٹرول نہ کرے اس مطلب سے انکار کرنا انسان کو شتربے مہار سمجھنے کے مترادف ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ دین صرف روحانی ہدایت کیلئے احکام صادر کرتا ہے اور باقی احکام خود انسان وضع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان پھر خالق ہے مخلوق نہیں کیونکہ تمام احتیاجات سے آگاہی صرف خالق کو ہوسکتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ تمام احکام اجتماعی و سیاسی و عبادی کے وضع کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے جو دین کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں ۔پھر ان قوانین کو نافذ و اجرا کرنا بھی اللہ تعالی کا حق ہے تاکہ جس مقصد کیلئے قوانین وضع کیے ہیں وہ ضائع نہ ہو ،اور مقصد، انسانی خواہشات کو تعادل میں لانا اور ہر ایک کو اس کی اپنی حدود میں رکھنا ہے تاکہ ایک دوسرے پر ظلم نہ ہونے پائے اور کسی کا حق ضائع نہ ہوجائے۔
اگر احکام الہی کو نافذ کرنے والا حاکم عادل ، موجود نہ ہو تو الہی قوانین بدل جائیں اور دین میں بد عتوں کا رواج بڑھ جائے گا۔اسی دلیل کی بنا پر مسلمانوںحتی غیر مسلموں کے درمیاں بھی اس بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی اور نہ ہے کہ اسلام ایک خاص نظام حکومت کا حامل دین ہے اور مدینہ منورہ میں پیغمبر اسلام ۖ کے ذریعے حکومت کی تشکیل اس نظام کا ایک مصداق ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب''علی عبد الرزاق''نے١٣٤٣ھ میں مملکت مصر میں''الاسلام و اصول الحکم''کتاب لکھ کر حکومت نبوی ۖ کا انکار کرتے ہوئے ادعا کیا کہ آنحضرت ۖ صرف خدا کے پیغمبر تھے اور انہوں نے کبھی حکومت کی تشکیل کیلئے کسی قسم کا اقدام نہیں کیا ،تو تمام دنیا کے سنی علماء نے اس کے خلاف کفر کا فتوی ٰصادر کر دیا۔١٤. کیونکہ پیغمبر اکرم ۖ کے ذریعہ معاشرے کی ولایت و حکومت کیلئے کیے گئے علمی اقدامات کے بارے میں ایسے دلائل و برہاں موجود ہیں جن کا انکار صاحبان عقل و دانش کیلئے ناممکن ہے ۔
شیعہ عقیدے کے مطابق پیغمبر اکرم ۖ نے نہ صرف حکومت اسلامی تشکیل دی بلکہ اس حکومت کے استمرار کیلئے اپنا خلیفہ بھی معین فرمایا ۔یہ استعمار کا پروپکنڈہ ہے کہ اسلام میں حکومت و سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں تاکہ اسطرح مسلمانوں کا استحصال کر سکیں ۔
حضرت امام خمینی اس سلسلے میں فرماتے ہیں :''استعماری طاقتوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام، حکومت کا حامل نہیں ہے حکومتی نظام اس کے پاس نہیں ہے اور اگر ہم مان بھی لیں کہ اس کے پاس کچھ احکام ہیں تو قوة مجریہ نہیں ہے ۔
مختصر یہ کہ اسلام صرف قانون بنا سکتاہے ۔ظاہر ہے اس قسم کے پروپیگنڈے ان کی سیاست کا ایک جزء ہیں اور یہ اس لیے ہیں کہ مسلمان ، سیاست اور سیاست کی بنیاد سے الگ رہیں اور یہی چیز ہمارے سیاسی عقیدہ کے خلاف ہے ۔ہم ولایت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت رسول اکرم ۖ کو اپنا خلیفہ معین کرنا چاہیے اور انہوں نے معین بھی کیا۔١٥.
ولایت فقیہ
گذشتہ ابحاث میں بیان ہوا کہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں معاشرے کیلئے ایک حاکم کی کتنی ضرورت ہے اور خدا کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ حاکمیت کا حق رکھتا ہو ۔ انسان کی پوری ہستی خداوند عالم کی مرہون منت ہے اس لیے یہی سزاوار ہے کہ وہ خدا کے اوامر و نواہی کا بے چون و چرا مطیع و فرمانبردارہو۔١٦
اب اگر خدائے تعالی ہم سے کسی خاص شخص یا گروہ کی اطاعت کا مطالبہ کرے تو ہم بھی اس کے حکم کی اطاعت کریں گے یا اگر اس نے حاکم کیلئے کچھ شرائط بیان فرمائے اور اس شخص کے تعین کیلئے واجد شرائط افراد میں سے مناسب ترین فرد کے انتخاب کا اختیار ہم کو دیدیا تو اس صورت میں بھی ہم خدا کے مطیع ہوں گے۔
حقیقی اور بالذات ولایت ، اللہ کیلئے ثابت ہے اور عقل حکم کرتی ہے کہ اس کی اطاعت واجب اور مخالفت حرام ہے اور اس میں کوئی شریک نہیں :
''اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات الی النور''
] صاحبان ایمان کاولی صرف اللہ ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے[ ١٧
البتہ خود اللہ تعالی نے اس ولایت کاایک درجہ اپنے رسول ۖ یا بعض انبیاء کو نیز شیعہ مکتب فکر کے نزدیک ائمہ معصومین کو بھی تفویض کیا ہے۔
لہذا یہ حضرات بھی اس ولایت اعطائی ]خدادادی [ کی بنا پر واجب الاطاعت ہیں ۔پس بالذات ولی اللہ ہے لیکن ایک طولی سلسلہ کے تحت رسول ۖ و نائبین رسول ۖ بھی ولایت کے حامل ہو سکتے ہیں۔
ارشاد رب العزت ہے :''ومن یتولی اللہ ورسولہ والذین امنوا فان حزب اللہ ھم الغالبون''
]اور جو بھی اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا ولی (سرپرست)بنائے گا تو (اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائگا اور )بے شک اللہ ہی کی جماعت غالب آنے والی ہے [١٨
اس آیہ مجیدہ کی رو سے ''ولایت الہی''کے طول میں خدا کے علاوہ اسی کے اذن سے جہاں اس کا رسول ۖ ولایت رکھتا ہے وہیں صاحبان ایمان کو بھی ولایت حاصل ہے۔البتہ ''الذین امنوا''کا بارز مصداق آئمہ معصومین ہیں ۔لیکن معصومین کی غیبت میں ان کے نائبین بھی ''امنوا'' کا ادنی مصداق قرار پاتے ہوئے ولایت کے حامل ہو سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ میں شمولیت کیلئے جہاں اللہ کی ولایت پر ایمان ضروری ہے وہیں اس کے رسول اور صاحبان ایمان کی ولایت پر ایمان بھی لازمی ہے۔
شیعہ مذہب کے اصول میں کلی طور پر جو خاص اہمیت امامت کو حاصل تھی اور ہے وہ اس امر پر مبنی ہے کہ یہ حکومت جو رسول ۖ خدا کے ذمہ تھی ،آپۖ نے اپنے بعد اسے ائمہ اہل بیت کو سونپی اس لحاظ سے شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول خدا ۖ مقام نبوت و رسالت کے علاوہ منصب امامت پر بھی فائز تھے ۔ منصب نبوت ،عالم تکوینی و تشریعی میںاسرار الہی سے آگاہی کا منصب ہے اور منصب رسالت ، خداکی طرف سے ایسے پیغمبر کو حاصل ہوتا ہے جو اس پر مامور ہو کہ جو کچھ وہ جانتا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے اور ان کی ہدایت کرے، منصب امامت کے معنی حکومت اور معاشرے میں نظم بر قرار کرنے کے ہیں ۔١٩
خداوند متعال جب کسی کو ولایت دیتا ہے تو اسکی اطاعت کو بھی واجب قرار دیتا ہے البتہ بالذات واجب الاطاعت، صرف خداکی ذات اقدس ہے لیکن اگر کسی کی اطاعت کو خدا واجب قرار دے تو اذن الہی کی وجہ سے وہ بھی واجب الاطاعت قرار پائے گا۔ارشاد رب العزت ہے :
''اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامرمنکم''
]ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمیں سے ہیں[٢٠
اس آیت کے ضمن میں امام خمینی فرماتے ہیں کہ خدا نے اس آیت میںقیامت تک حکومت اسلام کی تشکیل کا حکم صادرفرمایاہے،اور واضح ہے کی ان تین کے علاوہ کسی کی اطاعت کو واجب قرار نہیں دیا نیز امت اسلامی پر اولو الامر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایک حکومت اسلامی ہو تاکہ ہرج و مرج لازم نہ آئے۔٢١
''ولایت ''کے لغوی و اصطلاحی معانی پر ایک نظر
ولایت عربی زبان میں مادة''ول ی'' سے ہے اور عربی زبان کے ماہرین لغت کے بیان کے مطابق یہ مادہ یکتا اور ایک معنی کا حامل ہے ۔ ولی کے اصل معنی ''نزدیکی ''اور ''قریب ''کے ہیں ۔لفظ''مولی '' اسی ''ولی''سے مشتق ہے بعض نے اس کے ٢٧ معانی ذکر کیے ہیں لیکن وضع ایک کیلئے ہوا ہے باقی معانی میں اسی اصل مناسبت ]قرب [کی وجہ سے استعمال ہوتا ہے۔
لغت کے لحاظ سے یہ ''قربت'' دو طرفہ ہے یعنی جب کہا جائے ''ولیہ'']وہ اس کے قریب ہے [
تو اس کا مطلب لغوی طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ اگر یہ اس کے نزدیک ہے تو وہ بھی اس کے نزدیک ہے ،لیکن قرآن کی نظر میں''ولایت ''سے مراد ایک خاص قسم کا قرب ہے ممکن ہے کہ ایک طرف سے قربت حاصل ہو لیکن دوسری طرف سے حاصل نہ ہو مثلا خدا مومن اور کافر دونوں کے قریب ہے لیکن مومن اپنے اعمال صالحہ کی بدولت خدا کے قریب ہے جبکہ کافر اپنے برے اعمال کی بنا پر خدا سے دور ہے ۔٢٢
''اولئک ینادون من مکان بعید'' ]ان لوگوںکو بہت دور سے پکارا جائیگا[٢٣
لفظ ''ولی'' کے تین معانی ذکر ہوئے ہیں۔١.دوست ٢.دوستدار ]خیر خواہ[ ٣.یاور ]مددگار[ ۔
ان کے علاوہ '' ولایت '' کے دو اور معنی بھی ذکر ہوئے ہیں ۔١.سلطنت وقہر و غلبہ ٢.قیادت و حکومت۔٢٤
اصطلاحی معنی
فقہی اصطلاح میں لفظ ولایت دو جگہوں پر استعمال ہوا ہے :
١.وہ مواقع جہاں پر مولّیٰ علیہ ]جس پر ولایت ہو[ اپنے امور کو چلانے کی قدرت نہ رکھتا ہو جیسے میت ،نادان،دیوانہ، نابالغ وغیرہ ایسے مواقع پر ولایت سر پر ستی کے معنی میں ہے۔
٢. وہ مواقع جہاں مولّیٰ ]جس پر ولایت ہو [ اپنے امور کو چلانے کی قدرت رکھتا ہے اس کے باوجود کچھ ایسے امور ہیں جن میں کسی دوسرے شخص کی سر پرستی اور ولایت کی بھی ضرورت ہے ۔یہاں پر ''ولایت '' معاشرے کے مسائل اور امور کو ادارہ کرنے اور نظم قائم کرنے کے معنی میں ہے جو کہ وہی سیاسی ''ولایت''ہے ۔
اگرچہ فقیہ ولایت کے مذکورہ دونوں معنی کامالک ہوتا ہے لیکن اس بحث میں ولایت فقیہ سے مراد مذکور دوسری اصطلاح ہے کیونکہ جو فقیہ معاشرے کی ولایت کا حامل ہوتا ہے در حقیقت وہ اس معاشرے کے تمام افراد حتی تمام فقہاء اور خود اپنی ذات پر بھی ولایت رکھتا ہے۔٢٥
source : shiasearch.ir