''تشیع'' کے معنی نسبت، مشایعت، متابعت اور ولاء کے ہیں، یہ لفظ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے:
(وَ اِنَّ مِن شِیعَتِہِ لبرَاہِیمَ ذ جَائَ رَبَّہُ بِقَلبٍ سَلِیم)
ان کے شیعوں میں سے ابراہیم بھی ہیں جب وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں قلب سلیم کے ساتھ آئے۔
یعنی نوح کے پیروئوں میں سے ابراہیم بھی تھے جو خدا کی وحدانیت اور عدل کی طرف دعوت دیتے تھے ا ور نوح ہی کے نہج پر تھے۔
لیکن یہ لفظ علی بن ابی طالب اور آپ کے بعد آپ کی ذریت سے ہونے والے ائمہ سے محبت و نسبت رکھنے والوں کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ یہی رسول (ص) کے اہل بیت ہیں کہ جن کی شان میں آیت تطہیر اور آیت مودت نازل ہوئی ہے ۔
تاریخ اسلام میں یہ لفظ اہل بیت رسول (ص) سے محبت و نسبت اور ان کے مکتب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے شہرت پا گیا ہے ۔ اس محبت و نسبت اور اتباع کے دو معنی ہیں:سیاسی اتباع و نسبت (سیاسی امامت) اور ثقافتی و معارفی اتباع (فقہی و ثقافتی مرجعیت) یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعہ شیعیانِ اہل بیت پہچانے جاتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔
source : tebyan