اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

کس طرح القاعدہ اور داعش اسلام اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنے ؟

کس طرح القاعدہ اور داعش اسلام اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنے ؟


ایسے حالات میں کافی ہے کہ آپ تل ابیب اور واشنگٹن کے ایکشن روم کا تصور کریں کہ وہاں بیٹھے لوگ کس قدر خوشحال اور شادمان ہیں کہ جو اس قدر سادگی اور حماقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق مجدی احمد حسین ایک جانا پہچانا مصری چہرہ ہے کہ جس نے حسنی مبارک کے دور میں کئی بار مبارزے اور جیل کا مزہ چکھا ہے ۔وہ جو کہ سابقہ حزب العمل کا دبیر کل اور موجودہ الاستقلال کا اپنے ملک میں جنرل سیکریٹری ہے ،اس نے ایک مقالے میں القاعدہ اور اس سے پیدا شدہ گروہوں جیسے داعش کے نظریے اور عمل کے بارے میں تحقیق کی ہے اور ایک نظر اس ماجرا کے پیچھے چھپے امریکی ہاتھوں پر بھی ڈالی ہے ۔اس مقالے کا ترجمہ کہ جو مصر کی استقلال پارٹی کی سرکاری سایٹ پر نشر ہوا ہے قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے :

میں نے اپنی تحریروں میں مکرر لکھا ہے کہ اسلامی ممالک میں القاعدہ کی مسلحانہ کاروائیوںاور بے گناہ مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کے قتل کا میں مخالف رہا ہوں ،اور اس کو میں نےاپنی کتاب ،امریکہ طاغوت عصر میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔ان میں سے ایک کاروائی کہ جو میرے لیے نہایت دردناک تھی ،ترکی میں ایک برطانوی بینک میں دھماکہ تھا کہ اس کاروائی میں صرف ترکی کے بے گناہ کارکن اور شہری مارے گئے اور میرے نزدیک یہ انسانی جانوں کو ناچیز شمار کرنا تھا ،اور اس طرح القاعدہ کے طرز تفکر میں خطر ناک ترین چیز وہ فتوے ہیں کہ جو انسانوں کی جانوں کو حقیر حساب کرتے ہیں حالانکہ انسانوں کا خون اور ان کی جان اسلام میں نہایت اہم اور محترم ہے ۔پس اس چیز کی وضاحت کرنے کی اجازت دیں کہ کس طرح القاعدہ اور داعش جیسے گروہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے وبال بنے اور ان کے فائدے سے زیادہ ان کا نقصان ہواالبتہ اگر یہ مان لیں کہ ان کا کوئی فائدہ تھا !

داعش عراق نام کے اسلامی ملک اور ملت عراق کی سر حدوں کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ صرف اہل سنت کو تسلیم کرتا ہے اور وہ بھی وہ اہل سنت کہ جو ان کے طرفدار اور حلیف ہیں !!کہ ان کا یہ عقیدہ ایک سیاسی سادگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔انہوں نے عراق کے ایک حصے میں مستقل حکومت کا اعلان کیا ہے اور ایک شخص کو امیر اور کچھ دوسروں کو وزیر مقرر کیا ہے ۔در واقع حکومت کا ان کا تصور ایک بچکانہ کارٹون کے مانند ہے ،انہوں نے کسی علاقے کو فتح کرنے اور اس پر قبضہ کر کے اس میں حکومت کی تشکیل میں خلط ملط کر دیا ہے ۔

روس کے خلاف عالمی جہاد نام کا موجود ،

اس وقت القاعدہ کے مجاہدین اور امریکہ کی جاسوسی تنظیموں کے درمیان گہرےرابطے کے بارے میں کافی اطلاعات موجود ہیں کہ جن میں سے بہت سی منتشر ہو چکی ہیں ،اور ہم نے بھی طے کر رکھا ہے کہ کسی اور مقام پر ان اطلاعات کو نشر کریں گے ،لیکن اس مقالے میں ہم روس کے خلاف جنگ کی روش اور اس کے ماڈل پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے اور اس نتائج کے بارے میں تجزیہ و تحلیل پیش کریں گے ۔جنگ کی اس روش کی بنیاد چند محوروں پر رکھی گئی تھی :

۱۔جہادیوں کو روس کے خلاف جنگ کرنے کے لیے زمین کے مختلف حصوں سے اکٹھا کرنا اور اس کا مقصد بھی واضح تھا :ایک سپر پاور کے ساتھ جنگ کہ جو دنیا کی دوسری طاقت تھی ،اور عنقریب وہ مادی اور فوجی لحاظ سے امریکہ پر بھی سبقت لے جانے والی تھی ۔بلکہ بعض حساس رپورٹوں کی بنیاد پر وہ امریکہ سے سبقت لے جا چکی تھی ۔

۲۔چونکہ ہم بڑی طاقت کے ساتھ لڑ رہے ہیں ،تو لوہے کے مقابلے میں لوہے سے مدد لینا چاہیے ،نتیجے میں امریکہ سے مدد لینے کی بھی وجہ تھی ؛ہم ایک ظالم سے دوسرے ظالم کے خلاف لڑنے کے لیے مدد لے رہے ہیں ،اور اس کے بعد اس کی باری آنے والی ہے ۔البتہ ظالموں سے ظالموں کے خلاف مدد لینا ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں مختلف نظریے ہیں ،اور میری نظر میں یہ ہمیشہ جائز نہیں ہے ،اور ہمارے موضوع بحث میں بھی جائز نہیں تھی اور جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ مدد لینا سیاسی یا ڈیپلومیٹیک نہیں تھا ،بلکہ فوجی اور لیجسلیٹیکی اور اس سے بالا سطح کی تھی ،امریکیوں نے جہادیوں کو ہتھیار دیے ،ان کو ٹریننگ دی ،اور اطلاعات میں ان کی مدد کی ہے ،اور البتہ امریکیوں کو بھی اس کا دھیان تھا کہ یہ شیر جس کو وہ پال رہے ہیں ایک دن ممکن ہے ،اپنے مالک کی روزی کو بھی ہڑپ کر جائے ،لہذا پہلے دن سے ہی وہ جنگ کے بعد کے دنوں کی فکر میں تھے ،اور اسی دن کے لیے انہوں نے ،مصر کے سلفیوں کی پارٹی حزب النور کو بنایا تھا ،میں اسے حزب النور کہہ رہا ہوں اس لیے کہ حزب النور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے لیے بڑی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے ۔اور اسی پارٹی کی برکت سے لوگ آج یہ سمجھ پائے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص لمبی داڑھی رکھتا ہو اور اس کی نماز بھی قضا نہ ہو اور وہ اپنی نماز میں گریہ بھی کرتا ہو اور اس کے بعد معلوم ہو کہ وہ جاسوس تھا ۔نور پارٹی نے ہمیں سکھایا کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اہل فقہ ہو اور فقہ میں اس نے کتاب بھی لکھی ہو اور اس کے بعد معلوم ہو کہ وہ جاسوس تھا ۔ممکن ہے کہ کوئی شخص تجوید کے ساتھ حافظ قرآن ہو اور اغیار کا نوکر بھی ہو ۔الازھر کے سابقہ شیخ طنطاوی کی طرح کہ جو حافظ قرآن تھا اور جو فتوی بھی بادشاہ چاہتا تھا وہ صادر کر دیتا تھا ۔

حزب النور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے لیے بڑی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے ۔اور اسی پارٹی کی برکت سے لوگ آج یہ سمجھ پائے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص لمبی داڑھی رکھتا ہو اور اس کی نماز بھی قضا نہ ہو اور وہ اپنی نماز میں گریہ بھی کرتا ہو اور اس کے بعد معلوم ہو کہ وہ جاسوس تھا ۔نور پارٹی نے ہمیں سکھایا کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اہل فقہ ہو اور فقہ میں اس نے کتاب بھی لکھی ہو اور اس کے بعد معلوم ہو کہ وہ جاسوس تھا ۔ممکن ہے کہ کوئی شخص تجوید کے ساتھ حافظ قرآن ہو اور اغیار کا نوکر بھی ہو ۔

روس کے خلاف جہاد میں مالی امداد کے سلسلے میں ایک دلچسپ داستان ہے کہ جسے ایک پاکستانی حکمران نے مجھ سے بیان کیا :امریکہ کے جاسوسی حکام کے ساتھ ایک بات چیت میں افغان مجاہدین مزید مالی امداد کی درخواست کرتے ہیں ،امریکی بھی ان کو جواب دیتے ہیں کہ مزید مالی امداد کے لیے کانگریس کی حمایت کی ضرورت ہے ،جس کا اپنا شیڈیول ہے اور اس کی مقدار بھی معین ہے ۔لیکن ہم آپ کی مشکل کو اس طرح حل کریں گے کہ ڈالر چھاپنے والی ایک مشین ہم تمہیں دیں گے کہ جس کے نوٹ اصلی ہوں گے اور اس طرح ہمیں کانگریس سے بھی نجات مل جائے گی ،اور اس پیش کش پر امریکہ کی اطلاعات کے نمایندے کی نظارت میں عمل کیا گیا تا کہ ضرورت سے زیادہ ڈالر نہ چھاپے جائیں !!وہ معرکہ اتحاد جماہیر شوروی کو ختم کرنے کے لیے تھا ،اور اس جنگ میں مجاہدین نے بھی جو کچھ چاہا وہ انہیں ملا یہاں تک کہ کاندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے امریکی اسٹینگر میزایل بھی ملے کہ جنہوں نے روس کے بہت سارے ہوائی جہازوں کو بھی گرایا ،مجاہدین نے یہ ہتھیار ،مارکیٹ سے نہیں لیے تھے ۔

۳۔روس کے خلاف جنگ چو طرفہ جنگ تھی اور صرف امریکہ تک منحصر نہیں تھی ،بلکہ پاکستان اور امریکہ کے تسلط والے خلیجی ملک بھی امریکہ کے حلیف تھے اور انور سادات نے بھی روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا ،تا کہ کیمپ ڈیویڈ میں مصر کو اسرائیل اور امریکہ کے ہاتھوں فروخت کر دینے کے مسئلے پر سرپوش رکھ سکے ۔طبعا خلیج فارس کے ملکوں نے اس پر دسیوں ارب ڈالر خرچ کیے کہ یاسر عرفات نے یہ مبلغ ۴۰ ارب ڈالر بتایا تھا ،کہ اگر یہ ملک اس رقم کا نصف بھی فلسطین کی آزادی پر خرچ کرتے تو فلسطین کب کا آزاد ہو چکا ہوتا ۔اور مجاہدین کے نفوذ کا اہم ترین عامل یہی تھا ،اور اس طرح مصر ،پاکستان ،سعودی عرب ،قطر ، اور امارات کی جاسوسی ا یجینسیوں نے ان مجاہدین کی تربیت کا کام شروع کیا کہ جو سب کے سب مسلمان تھے ،داڑھی بھی رکھتے تھے اور اکثر اپنی نمازوں میں روتے بھی تھے ،اور قرآن کے حوالے سے بات کرتے تھے ،اہم چیز یہ ہے کہ اس چینل نے روس کے ساتھ جنگ ختم ہو جانے کے بعد بھی اپنی ترقی کے کام کو جاری رکھا ۔

۴۔اگر روس کی شکست اور روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کام مکمل ہو جاتا ،تو ہم ان تمام امور سے چشم پوشی کر سکتے تھے اور اس تجربے کے بارے میں تحقیق کا کام مورخین پر چھوڑ دیتے ،لیکن مشکل اس وقت شروع ہوئی جب یہ طے ہوا کہ یہ جہادی اور مسلحانہ تجربہ مختلف ملکوں میں کیا جائے ۔

۵۔طالبان کے حکومت تک پہونچنے کے بعد ،افغانستان یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف عالمی جنگ کے محاذ میں تبدیل ہو گیا ،لیکن اس نے مشرقی ترکستان میں ،چین کے ساتھ ،اور چچینیا ،داغستان ،قفقاز ، تاجیکستان ،اور ازبکستان میں روس کے ساتھ بھی جنگ چھیڑ دی ،اور اس طرح افغانستان دنیا کے بہت سارے ملکوں کےساتھ مزاحمت ایجاد کرنے والے ملک میں تبدیل ہو گیا۔

۶۔۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کا حادثہ ہوا اور القاعدہ نے اس کا سہرا اپنے سر لینے پر اصرار کیا ،لیکن بعد کے حوادث نے ثابت کر دیا کہ یہ حملہ ایک امریکی صہیونی سازش تھی جس کا مقصد اسلام کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کرنا تھا ،اس لیے کہ اس کے باوجود کہ القاعدہ کا ایسا حملہ کر نے کا ارادہ تھا ،لیکن امریکیوں نے بھی جان بوجھ کر یہ موقعہ القاعدہ کودیا تا کہ وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے اور اس کی مدد بھی کی اور ان دونوں عمارتوں کی بنیادوں میں طاقتور دھماکہ خیز مواد رکھا اور تیسری عمارت کو بھی ہوائی جہاز ٹکرائے بغیر انہوں نے گرا دیا ،اور بعد میں محکم دلایل سے پتہ چلا کہ پینٹاگون کی عمارت سے ایک میزائل ٹکرایا تھا نہ کہ بویینگ ہوائی جہاز !

اہم یہ ہے کہ اسامہ بن لادن نے امریکہ کے ساتھ جنگ پر زور دیا ،اور القاعدہ کی کچھ ویڈیو فیلمیں منتشر کیں جو اس سلسلے میں القاعدہ کی ذمہ داری کو ظاہر کر رہی تھیں ،اور امریکی بھی یہی چاہتے تھے تا کہ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنا سکیں اور اسلام کے خلاف اس دور کی صلیبی جنگ کا اعلان کر دیں اور اپنے پہلے قدم کے طور پر عراق اور ٖافغانستان سے شروع کریں ۔

دنیائے اسلام کا تجزیہ القاعدہ کا شعار بن گیااس طرح کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی گروہ یا تنظیم اس سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کے انتہائی حساس نوعیت کےدسیوں سال سے التواء میں پڑے ہوئے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے ، اور ہر اسلامی اور عربی ملک کو چند حصوں میں تقسیم کردے ۔

۷۔اس کے باوجود کہ طالبان اور القاعدہ افغانستان میں اپنی حکومت کو نہیں بچا سکے اور انہوں نے خود پر امریکہ کے حملے کو آسان بنا دیا ،اور اس کے باوجود کہ القاعدہ والے غاروں میں پناہ گزین ہو گئے ،اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ غاریں پیشاور اورپاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بڑے ویلا اور اپارٹمینٹ تھے،لیکن وہ ایک اور انحراف کا شکار ہوئے ،اور وہ اسلامی حکومت کی تشکیل چاہے چھوٹی سی ہی ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو چاہے وہ کسی ایک اسلامی ملک کے کچھ حصے میں ہی کیوں نہ ہو ۔انہوں نے بعد میں یہ طے کیا کہ دنیائے اسلام کے کسی نقطے پر اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنائے ،اور عراق ،شام ،سومالیہ ،یمن ،مالی ،پاکستان اور لیبیا میں خیالی حکومتیں تشکیل دیں ،اور اس طرح القاعدہ کا شعار دنیائے اسلام کا تجزیہ کرنا بن گیا ، دنیائے اسلام کا تجزیہ القاعدہ کا شعار بن گیااس طرح کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی گروہ یا تنظیم اس سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کے انتہائی حساس نوعیت کےدسیوں سال سے التواء میں پڑے ہوئے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکے ، اور ہر اسلامی اور عربی ملک کو چند حصوں میں تقسیم کردے ۔ اس لیے کہ ایسی فضا میں اسرائیل پھلے پھولے گا اور مشرق وسطی تباہ ہو جائے گا اور امریکہ بھی اس کے خلاف اسلامی ممالک کے کابوس کے قیام کے شر سے خلاص ہو جائے گا ۔

بہر حال القاعدہ نے چھوٹی چھوٹی حکومتیں تشکیل دینے کے اپنے منصوبے کو جاری رکھا ،اس لیے کہ وہ خود کو واقعی معنوں میں اسلام پسند مانتے ہیں اور نژاد قبیلے اور قوم کو تسلیم نہیں کرتے ،کہ قرآن نے اپنی آیات میں ان امور کو تسلیم کیا ہے اور اپنی آیات میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے بہر حال یہ گروہ عراق نام کے اسلامی ملک اور ملت عراق کی سر حدوں کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ صرف اہل سنت کو تسلیم کرتا ہے اور وہ بھی وہ اہل سنت کہ جو ان کے طرفدار اور حلیف ہیں !!کہ ان کا یہ عقیدہ ایک سیاسی سادگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔انہوں نے عراق کے ایک حصے میں مستقل حکومت کا اعلان کیا ہے اور ایک شخص کو امیر اور کچھ دوسروں کو وزیر مقرر کیا ہے ۔در واقع حکومت کا ان کا تصور ایک بچکانہ کارٹون کے مانند ہے ،انہوں نے کسی علاقے کو فتح کرنے اور اس پر قبضہ کر کے اس میں حکومت کی تشکیل میں خلط ملط کر دیا ہے ۔بہر حال قبضہ کیے ہوئے ممالک عوام کی طاقت سے چلتے ہیں ،لیکن اس کا مطلب حکومت تشکیل دینا نہیں ،اس لیے کہ کسی ملک کے ایک چھوٹے سے حصے میں حکومت کی تشکیل کسی عقلمند انسان کا مقصد نہیں ہو سکتا ۔البتہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مدینے میں پیغمبر ص نے جو حکومت قائم کی تھی اس کو نمونہء عمل بنا کر یہ تصور کریں ،کہ مدینے کی حکومت کا یہ تصور بالکل سطحی ہے اس لیے کہ اس کی بنیاد متغیرات پر ہے ثابت رہنے والی چیزوں پر نہیں ۔اس لیے کہ جزیرۃ العرب میں کوئی وفاقی حکومت نہیں تھی ،اور مکہ اس جزیرے کا معنوی ،دینی ،تجارتی ،اور ثقافتی پایتخت تھا کہ جس میں قریش رہتے تھے ،لیکن کسی مرکزی فوج اور مرکزی سیاسی طاقت کے بغیر ،اس زمانے کی سیاسی پارٹیاں وہی قبائل تھے ،اور پیغمبر ص کی اور مومنوں کی مدینے کی جانب ہجرت کا مقصد ،اوس و خزرج کو جذب کرنا تھا ،اور پیغمبر کا ارادہ تھا کہ جتنی جلدی ہو سکا مکہ واپس جائیں گے ،اور ایسا ۸ سال کے بعد ممکن ہو پایا ،اور یہ واپسی دین کی تبلیغ کی خاطر تھی ،اور پیغمبر ص کی جنگیں بھی دشمنوں کے افراد کو پست ہمت کرنے کا ایک ذریعہ تھیں ۔

بے گناہ شہریوں کو مارنا با اتفاق حرام ہے ،اسی طرح عراق کو ۶۰ فیصد کی آبادی سے پاک کرنا بھی واقعیت سے دور اور دیوانگی ہے کہ جس سے پورا عراق خون میں ڈوب جائے گا ایسے حالات میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ تل ابیب اور واشنگٹن کے ایکشن روم کا تصور کریں کہ وہاں بیٹھے لوگ کس قدر خوشحال اور شادمان ہیں کہ جو اس قدر سادگی اور حماقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اور عرب ایک دوسرے کو مار رہے ہیں تا کہ ان کے مقاصد پورے ہوں ۔

اس بنیاد پر ہم شام ،عراق ،مصر ،یمن اور سومالیہ کو تقسیم کر کے اسلامی حکومت تشکیل نہیں دے پائیں گے

بلکہ ان سیاسی ملکوں کی حفاظت کر کے اور اتحاد کا دامن تھام کر ہی اسلامی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے ۔

القاعدہ والے عراق میں اپنے اس غلط منصوبے کی راہ میں ایک بڑی مشکل کا سامنا کر رہے ہیں ۔مشکل یہ تھی کہ عراق کے شیعہ اس ملک کی آبادی کا کم سے کم ۶۰ فیصد ہیں ۔اور چونکہ ھندوستان کا مدرسہء دیوبند کہ جو طالبان اور القاعدہ کا مدرسہ ہے ،شیعوں کو کافر قرار دیتا ہے ،تو عراق کے شیعہ ان کی نظر میں ایسے افراد ہیں کہ جنہوں نے اسلامی ملک پر قبضہ کر رکھا ہے لہذا وہ ان کے خون کو مباح سمجھتے ہیں ،اور ایک بار پھر ہم القاعدہ کے ذریعے انسانوں کی جانوں کو حقیر سمجھنے کا ناٹک دیکھ رہے ہیں،اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیعوں کی مسجدوں میں بمب رکھے جا رہے ہیں اور نمازیوں کو قتل کیا جا رہا ہے یا شیعوں کے اجتماع کے مراکز جیسے محلوں میں بمب نصب کیے جارہے ہیں تاکہ عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو قتل کریں ،اور ان شیعوں کو جو دینی پروگراموں کے لیے کربلا یا نجف اشرف جاتے ہیں قتل کریں ۔القاعدہ کا دعوی ہے کہ شیعہ بھی بدلا لیتے ہیں ۔ہم اگر یہ مان لیں کہ شیعہ بھی مقابلہ کرتے ہیں ،تب بھی اس فتنے کو روکنا چاہیے تا کہ عراقی ایک بار پھر ماضی کی طرح ایک ساتھ اور باہم زندگی بسر کریں بے گناہ شہریوں کو مارنا با اتفاق حرام ہے ،اسی طرح عراق کو ۶۰ فیصد کی آبادی سے پاک کرنا بھی واقعیت سے دور اور دیوانگی ہے کہ جس سے پورا عراق خون میں ڈوب جائے گا ایسے حالات میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ تل ابیب اور واشنگٹن کے ایکشن روم کا تصور کریں کہ وہاں بیٹھے لوگ کس قدر خوشحال اور شادمان ہیں کہ جو اس قدر سادگی اور حماقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اور عرب ایک دوسرے کو مار رہے ہیں تا کہ ان کے مقاصد پورے ہوں ۔ اس صورت میں امت عرب اور مسلمان ،کیونکر اقتصادی انقلاب یا ترقی ،اور اجتماعی عدل کے قیام کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ؟

 


source : abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا زندگی ...
احادیث حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب بتاتی ہیں
کمال ایمان کے مراتب
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
انسانی زندگی پر قیامت کا اثر
حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا ...
لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں

 
user comment