اسلامی انقلاب سے پہلے کا ایران
اسلامی انقلاب کی حقیقت کو جاننے اور اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت کو سمجھنے کیلئے طاغوتی حکومت کے ایران کو سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور ثقافتی حوالے سے دکھانا ضروری ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے کے داخلی اور خارجی حالات و واقعات کو بغور دیکھے بغیر اس الٰہی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت و ترقی کی عظمت کو اسلامی انقلاب کے بعد کے دور میں درک نہیں کیا جاسکتا۔ اسی بنا پر طاغوتی دور حکومت کے ایران کی صورت حال کا مختصر طور پر جائزہ لیتے ہیں:
الف: سیاسی صورتحال
اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کا سیاسی نظام موروثی سلطنت اور بادشاہت تھا۔ بادشاہ بنانے میں ایرانی عوام کی کوئی مداخلت و مشارکت نہ تھی۔ سلطنتی نظام حکومت کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بادشاہ کو ہر طرح کا مکمل اختیار حاصل تھا، اس کا حکم، فرمان خدا شمار کیا جاتا تھا۔ ایران میں آخری سلطنتی حکومت، منحوس پہلوی کی حکومت تھی۔ اس مغرب زدہ حکومت پر رضا شاہ براجمان تھا اور وہ ایک ظالم ڈکٹیٹر تھا، وہ بدکردار، بے رحم اور غیر پرست تھا۔ محمد رضا پہلوی غیروں کی کرم فرمائیوں سے اقتدار پر قابض ہوا اور اس کے وجود میں شیطانی خصلتیں پائی جاتی تھیں۔ ایرانی عوام کی تذلیل کرنا اور غیروں کی تحسین کرنا، اس کی عادات میں سے تھا۔
شاہ ایران اپنی ایسی ہی سوچ کی بنا پر 1353 شمسی میں ایک مطبوعاتی کانفرنس میں کہتا ہے:
یہ لوگ کچھ کرنے کے اہل نہیں ہیں، بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں ۔ ۔ ۔ ( روح اللہ حسینیان، فساد دربار)
شاہ کے کئی ایک حواریوں کی سوچ بھی اسی قسم کی تھی۔ مثال کے طور پر جب تیل کے کارخانوں کو قومیانے کا سلسلہ چل رہا تھا، اس وقت کے وزیراعظم جناب رزم آرا پارلیمنٹ میں، اس کام کیلئے بنائی جانے والی کمیٹی کے اراکین کی موجودگی میں، بعض پارلیمنٹرین جو اِس بات کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہے تھے، اِن کے خلاف اونچی آواز میں بولتے ہوئے کہتے ہیں: "وہ ایرانی جو ایک لوٹا نہیں بنا سکتے، تم لوگ چاہتے ہو کہ وہ ریفائینری کو چلائیں۔؟
شاہ اور اس کی حکومت کے اندر اس قسم کی ذہنی مفلوجی نے ملک میں بہت سی مشکلات پیدا کر رکھی تھیں، منجملہ قومی پسماندگی، ملک کی قسمت پر غیروں کا تسلط تھا۔ پہلوی دور میں عوام کی بات کرنے والے اداروں کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی، اگر کبھی انتخابات منعقد ہوتے تو وہ صرف نورا کشتی ہوا کرتے تھے۔ شاہ کے دربار میں مالیاتی بے قاعدگیاں، اخلاقی و جنسی بے راہ روی سے ہر خاص و عام مطلع تھا، اس بارے میں بہت سے شواہد موجود ہیں۔ طاغوت کے دور میں ایرانی مفادات سے مراد صرف پہلوی خاندان کے مفادات تھے۔ یہ خاندان اپنی عیاشیوں اور بیرون ملک سفر کیلئے بیت المال کو باپ کی وراثت سمجھ کر خرچ کرتے تھے۔ غیروں سے گہری وابستگی، رضا شاہ اور محمد رضا شاہ کی خصوصیات میں تھی۔ رضا شاہ کی برطانیہ سے وابستگی کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ تہران کی کانفرنس میں چرچل اور روزولٹ اس کے بارے میں کہتے ہیں:
We brought him, we took him. ہم خود اسے لائے تھے اور ہم نے ہی اسے ہٹایا ہے۔ (حسین فردوست ، ظہور و سقوط پہلوی، ج ۱، ص ۸۲)
محمد رضا بھی غیروں کی مدد سے اقتدار تک پہنچا اور خود کو اُن کا احسان مند سمجھتا تھا۔ نیویارک ٹائم اخبار لکھتا ہے:
تختہ پلٹنے کے بعد ایک محفل میں شاہ نے اپنا گلاس اٹھایا اور مشرق وسطٰی میں سی آئی اے کے سربراہ روزولٹ کی مہربانیوں پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:
خدا کی قسم میرا یہ تخت و تاج، میری عوام، فوج اور آپ کا مرہون منت ہے۔ ( گازیور وسکی، امریکہ کی خارجہ سیاست اور شاہ، ص ۲۸)
ایسے لوگ، تیل کی دولت، فوج اور ساواک کی قوت کے بل بوتے پر اپنی ظالمانہ ڈکٹیٹر شپ قائم کئے ہوئے تھے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیتے تھے۔ آزادی چاہنے والوں اور مجاہدین سے جیلیں بھری پڑی تھیں۔ ایران میں 57 سالہ حکومت کے دوران رضا شاہ اور اس کے بیٹے کی اہم پالیسی اسلام اور دینی تعلیمات کے ساتھ جنگ اور دشمنی تھی۔
ب: اجتماعی صورتحال
1290 ہجری شمسی، مشروطہ تحریک کے ابتدائی دنوں میں ایران کی کل آبادی تقریباً دس ملین تھی اور اکثریت دیہات میں رہتی تھی۔ ان میں سے 20 فی صد لوگ پانچ ہراز کی آبادی والے شہروں میں رہتے تھے، جبکہ تہران کی کل آبادی 200 ہزار افراد تھی۔ غلط پالیسیوں اور پہلوی حکومت کے استعماری طور طریقوں کی بنا پر دیہاتی لوگوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے دیہات تباہ ہونا شروع ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے 1357 ہجری شمسی تک ایران کے شہروں کی آبادی بیس ملین سے تجاوز کر گئی۔ دیہی افراد کی شہروں کی طرف ہجرت، غربت اور بے چارگی کی وجہ سے تھی۔ شہر میں رہنے والوں کی نسبت دیہی علاقوں کے لوگوں کی زندگی بہت مشکل تھی۔ کسی طرح کے وسائل و ذرائع نہ تھے، علاج و معالجہ کی سہولیات نہ تھیں، سڑکیں نہ تھیں، بجلی نہ تھی۔ دیہی افراد کی زندگی بہت سی مشکلات و خطرات میں گھری ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے نوزاد اور چھوٹے بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ 1353 میں سرکاری شماریات کے مطابق دیہی آبادی میں ایسے بچے جو سکول جانے کی عمر تک کو پہنچے تھے، ان میں سے 39 فی بچے ایسے تھے جو سرکاری تعلیم سے استفادہ کرسکتے تھے جبکہ شہروں میں یہ تناسب 90 فی صد تک تھا۔
ایرانی کی معیشت میں دیہی علاقوں کی اہمیت کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ 1340 کے شروع تک ایران اپنی بنیادی غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں خود کفیل تھا بلکہ ملکی مالیاتی کمیوں کو پورا کرنے کے لیے روئی، فروٹ اور خشک میوہ جات کی برآمدات کرسکتا تھا۔ ان کی اپنی غلط حکمت عملیوں اور تباہ کن زمینی اصلاحات کی وجہ سے ایران کی زراعت تباہ ہوگئی، جس کی بنا پر غیروں کی اقتصادیات سے وابستہ ہوگئے۔ دیہی افراد نے شہروں کی طرف رخ کیا اور شہروں میں مضافاتی آبادیاں بڑھنے لگیں، اس کے نتیجہ میں طبقاتی فرق زیادہ نمایاں ہونے لگے۔ نقل مکانی سے پہلے دیہاتیوں کی ایک سادہ زندگی تھی، لیکن شہروں میں آکر وہ گھر بنانے والے، سڑکوں پر کام کرنے والے اور کارخانوں کے مزدور بن گئے۔
ج: اقتصادی صورتحال
پہلوی حکومت کے آخری سالوں میں مکمل طور پر ایرانی معیشت غیروں سے وابستہ تھی۔
شاہ کی حکومت اپنی زندگی کے آخری سالوں میں روزانہ تقریباً چھ ملین تیل کے ڈرم فروخت کرتی تھی۔ اس کے ذریعے وہ ایرانیوں کی ضروریات زندگی کی اشیا باہر سے خریدتی تھی۔ اس حکومت نے ایران کی داخلی و خارجی معیشت کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی ضروریات زندگی کیلئے بھی ہمیں غیروں کا محتاج بنا دیا تھا۔ طاغوت کی حکومت میں یہاں سب سے اہم کام مشینری کو اسمبل کرنا تھا۔ کام اور آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ایرانیوں کی زندگی عذاب بن گئی تھی، جبکہ دوسری جانب شہروں میں چند ایک لوگ خوشحال زندگی بھی گذار رہے تھے۔ دیہاتوں سے نقل مکانی کرنے والے لوگ جو شہروں کے مضافات میں بدترین زندگی گذار رہے تھے، قبل از انقلاب ایرانی آبادی کی اکثریت کو تشکیل دے رہے تھے۔ ملک کی آمدنی کا بیشتر حصہ ملکی حکومتی اخراجات کے نام پر خرچ ہو جاتا تھا، اس کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہ تھا۔
د: ثقافتی صورتحال
طاغوتی حکومت کی ثقافتی سرگرمیوں میں سر فہرست، قومی اور اسلامی ثقافت کی دھجیاں اڑانا تھا۔ اسلام سے دور کرنا اور مغربی ثقافتی یلغار کو بڑھانا، طاغوتی حکومت کے ثقافتی شعبہ کا اہم کام تھا۔ ریڈیو، ٹیلی وژن، تھیٹر اور سینما، رسائل و جرائد، کتب، تعلیم و تربیت، یونیورسٹی اور اعلٰی تعلیمی ادارے، سب اس بات پر مامور تھے کہ ایرانیوں کی زندگی کو اسلامی اور قومی ثقافتی راہ و رسم سے دور کریں اور مغربی ننگی ثقافت کی طرف دھکیلیں۔ پہلوی دربار اور اس کا خاندان بھی ایران میں مغربی بد تہذیبی کو رواج دینے میں پیش قدم تھا۔ اخلاقی فساد اور فحاشی کے مرکز کھلے عام تھے، درباری لوگ اور پہلوی خاندان کے لوگ اِن مراکز کے پشت پناہ تھے۔
ہ: خارجہ سیاست اور دفاعی صورتحال
اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کی خارجہ اور دفاعی سیاست خود مختار نہ تھی۔ مغربی بلاک میں ایک تابعدار ملک تھا۔ بین الاقوامی روابط میں دو قطبی حاکم نظام کے تحت امریکی مفادات کے مطابق عمل کیا کرتا تھا۔ امریکہ کی دو قطبی سیاست میں ایرانی افواج جو کہ خلیج فارس میں ایک امریکی جرنیل کی حیثیت رکھتی تھیں، پوری طرح سے ایالات متحدہ کے کنٹرول میں تھیں۔ ہزاروں امریکی فوجی ایران کی افواج کے اہم عہدوں پر تعینات تھے۔ اسلامی انقلاب سے قبل ایران خطے میں مغربی مفادات کو محفوظ کرنے کی خاطر سابقہ روس کے مقابلے میں آزادی خواہ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اسی وجہ سے خطے میں صیہونست حکومت اور شاہ متحدہ پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ 1343 ہجری شمسی میں حکومت کی طرف سے اور پارلیمنٹ و سینیٹ میں کپٹیلزم قانون کی منظوری، ایران کی امریکہ سے وابستگی اور اپنی پستی کا واضح ثبوت ہے۔ درحقیقت ایرانیوں کی الگ مستقل قومی حیثیت اور حاکمیت پر شاہ کا اعتقاد نہ تھا اور اپنے اقتدار کے تسلسل کیلئے واحد دلیل امریکہ سے وابستگی کو سمجھتا تھا۔
گذشتہ 35 سالوں میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت
گذشتہ 35 سالوں میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت کو چار اہم شعبوں سیاسی، اقتصادی، علمی ٹیکنالوجی اور عسکری میدان میں مختصر بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس اجمالی خاکے میں واضح ہے کہ صرف اہم ترین پیشرفت کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے اور جزئیات پر بات نہیں ہوسکے گی۔
1۔ سیاسی پیشرفت
اسلامی انقلاب کی سیاسی پیشرفت کو داخلی اور خارجی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1/1: داخلی سیاست
ایران کے اندر اسلامی انقلاب ''استقلال آزادی جمہوری اسلامی‘‘ کے نعرے کے ساتھ کامیاب ہوا۔ اس میں ایک طرف تو دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی اور ڈکٹیٹر نظام کا خاتمہ ہوا اور دوسری طرف عوامی دینی حکومت ''اسلامی جمہوریہ‘‘ قائم ہوئی۔ اس حکومت کو عوام کی طرف سے 98 فی صد حمایت حاصل ہوئی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین اس کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ آئین کی اصل چھ میں ہے: اسلامی جمہوریہ ایران میں ملک کے تمام اہم امور عوام کی رائے سے طے کئے جائیں۔ ملک کیلئے صدر، پارلیمنٹ کے اراکین، شوریٰ کے اراکین، انتخابات کے ذریعے منتخب کئے جائیں۔ کچھ امور کو ریفرنڈم کے ذریعے عوامی حمایت سے طے کیا جائے۔ اسی آئینی اصول کے تحت گذشتہ 35 سالوں میں ایران میں عوامی حکومت برسر اقتدار آتی رہی ہے۔ تمام اداروں کے عہدیداران براہ راست یا بالواسطہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں حکومتی ڈھانچہ اور قدرت کے تمام ذرائع، ایران میں دینی تعلیمات اور مقدس شریعت سے اخذ شدہ ولایت فقیہ کے محور کے گرد اکٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک دینی انقلابی شکل اختیار کر لی ہے۔ اسلام کی بنیاد پر استقلال، آزادی، عدل اور ترقی ہی اسلامی جمہوریہ کی اصل پالیسی ہے۔ اس نظام کا یہی اصل نظریہ ہے اور نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد ہے۔
2/1: بین الاقوامی سیاست
''نہ شرقی نہ غربی۔ جمہوری اسلامی‘‘ ''استقلال آزادی۔ جمہوری اسلامی‘‘ کے نعرے ایک تلخ حقیقت تھے۔ یہ تلخ حقیقت یہی تھی کہ غیر ملکی تسلط کی وجہ سے ایران کا اپنا استقلال، اپنا وقار ختم ہوچکا تھا۔ اسلامی انقلاب کے ذریعے ایک طرف ایران نے غیر ملکی تسلط کو توڑ ڈالا اور دوسری طرف اپنے استقلال کو محفوظ کرتے ہوئے انقلابی آرمانوں کو حقیقت دی اور اسلامی جمہوریہ کے بلند اہداف و مقاصد کو آگے لے کر چلا۔ رضا شاہ اور محمد رضا شاہ کے دور میں پہلوی حکومت ہر حوالے سے غیروں پر بھروسہ کئے ہوئے تھی۔ اسلامی جمہوریہ نے عوامی طاقت کے ساتھ ایران کے استقلال کو محفوظ کر لیا اور عالمی استکباری طاقتوں بالخصوص امریکہ کے سامنے ڈٹ گئی۔ آج 35 سال اسی شان و شوکت کے ساتھ گذر چکے ہیں۔ دشمن کی تمام سازشیں ناکام ہوچکی ہیں۔ محروموں، پسے ہوئے لوگوں کی حمایت اور ظالموں جابروں کے سامنے ڈٹ جانا، اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ سیاست کے اس بنیادی اصول نے ایران کو دنیا بھر کی آزادی خواہ تحریکوں کی امید کا مرکز بنا دیا ہے۔
اسلامی انقلاب میں غیبی طاقتوں پر بھروسے نے بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی توازن کو برقرار رکھنے میں اسلامی انقلاب اہم کردار ادا کرنے لگا۔
یہ اثرات درج ذیل ہیں:
الف: سیاسی نظریات پر گہرے اثرات
ب: دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں اہم پیشرفت
دنیا کا دو قطبی نظام ٹوٹ گیا۔ مارکسزم پر اسلامی انقلاب کی طرف سے گہری ضرب لگائی گئی۔
ج: دنیائے اسلام اور اس سے باہر آزادی خواہ تحریکوں پر عمیق اثرات
آج اسلامی بیداری کو اسلامی انقلاب کی اہم کامیابیوں میں سے ایک شمار کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے اثرات کی وجہ سے خطے میں صیہونی حکومت کے خلاف مقاومت کا آغاز ہوا۔ 33 روزہ، 22 روزہ اور 8 روزہ جنگ نے صیہونست حکومت کے تمام حساب کتاب کو صفر کر دیا جبکہ شام کا بحران مقاومت کی تحریک کو ختم نہ کرسکا۔
د: اقوام عالم میں امریکہ کے ساتھ مقابلے کرنے اور اس کے سامنے ڈٹ جانے کی جرات پیدا ہوگئی۔
ہ: حقیقی اسلام کی پہچان میں اضافہ ہوا۔ اسلام، بلند و بالا اہداف رکھنے والے اور تہذیبوں کو بنانے والے دین کی صورت میں سامنے آیا۔
و: ایران، علاقائی سطح پر اور دور کے علاقوں میں بھی گہرے اثرات مرتب کرنے والا ملک قرار پایا۔
2۔ اقتصادی پیشرفت
اسلامی انقلاب کے ساتھ ایران کی معیشت اور ایرانی عوام کی معاشی صورتحال بالکل تبدیل ہوگئی۔ اگرچہ آج بھی اقتصادی پابندیوں اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے ملک کو بہت سی اقتصادی دشواریوں کا سامنا ہے، لیکن اسلامی انقلاب سے پہلے کی نسبت آج کا ایران اقتصادی و معاشی میدان میں بہت زیادہ مضبوط ہے، نیز عوام کی معاشی حالت کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اسلامی انقلاب کے فوراً بعد عوام کی غربت کو مٹانے کی خاطر کئی ایک انقلابی ادارے بنائے گئے۔ ان اداروں نے دیہاتوں میں اور چھوٹے شہروں میں فقر و غربت کو مٹانے میں اور ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں اہم و بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جہاد سازندگی، بنیاد مسکن، کمیتہ امام خمینی ؒ ، اِن اداروں کی ایک مثال ہیں۔ اسلامی انقلاب کے ساتھ ایران میں معمول کی زندگی میں تبدیلی کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کے کاموں کو دیکھتے ہوئے اور اسلامی جمہوریہ نے جو عوام کو سہولیات پہنچانے میں کردار ادا کیا، اس کو دیکھتے ہوئے ہر جگہ ترقی اور عدل کا احساس برقرار ہونے لگا۔
ذیل میں دیئے گئے نکات اس بڑی تبدیلی کی طرف ایک اشارہ ہے:
1۔ انقلاب سے پہلے ایرانی زراعت تباہ ہو جانے کی وجہ سے عوام کی روز مرہ ضروریات کی اشیا بیرون ملک سے آتی تھی، جیسے مرغ فرانس سے، گوشت آسٹریلیا سے، انڈے اسرائیل سے، سیب لبنان سے، دودھ وغیرہ ڈنمارک سے درآمد کئے جاتے تھے۔ سابق حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ایران اپنی زراعت پر صرف 33 دن گذار سکتا تھا۔ آج ایران کی آبادی دو برابر ہوگئی ہے، اس کے باوجود آج ایران 300 دن کیلئے ہر سال اپنی غذائی ضرورت کو ملک کے اندر سے پورا کرسکتا ہے۔ مستقبل قریب میں یہ خود انحصاری 100 فی صد ہو جائے گی۔
2۔ بچوں میں شرح اموات انتہائی کم سطح پر آگئی ہے اور اوسط عمر 58 سال سے 72 سال تک پہنچ گئی ہے۔ یہ چیز علامت ہے اس بات کی کہ ایران میں علاج معالجہ کی سہولیات نے کس قدر ترقی کی ہے۔
3۔ بجلی اور انرجی کے ذرائع کو استعمال کرنا، ترقی اور عوامی فلاح میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سال 1357 ہجری شمسی میں بجلی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 3399000 تھی، علاوہ ازاین کئی ایک دیہاتوں میں بالکل بجلی نہیں تھی۔ انقلاب کے بعد 1392 ہجری شمسی میں بجلی استعمال کرنے والوں کی تعداد 29 ملین سے تجاوز کر گئی ہے اور سال کے آخر میں یہ تعداد تیس ملین تک پہنچ جائے گی۔ یہ تعداد ملک میں بجلی کی صنعت میں ترقی کی علامت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بجلی ہر جگہ پہنچانے کیلئے کس قدر زیادہ گرڈ اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ اب ایران میں بجلی کی پیداوار اس سطح تک پہنچ گئی ہے کہ ہمسائیہ ممالک کو بجلی فروخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
4۔ قدرتی گیس بھی ایک اہم انرجی شمار کی جاتی ہے۔ ایران کے پاس گیس کے ۲۸/۳ ٹریلین میٹر مکعب ذخائر موجود ہونے کی وجہ سے، عالمی سطح پر روس کے بعد ایران دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس صورتحال کے باوجود 1357 ہجری شمسی میں پورے ملک میں صرف 57 ہزار گھروں کو گیس فراہم کی جاچکی تھی۔ آج 14 ملین سے زیادہ گھروں کو گیس کی فراہمی ہوچکی ہے۔ آج شہروں کے علاوہ بہت سے دیہات بھی گیس کی نعمت سے بہرہ مند ہیں۔
5۔ ریل کی پٹری کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 1291 میں جب ایران میں پہلی ریل گاڑی نے سیٹی بجائی، اس وقت سے 1357 تک 4565 کلو میٹر ریل کی پٹری بچھائی گئی۔ انقلاب کے بعد اب تک 10000 کلو میٹر ریل کی پٹری بچھائی جا چکی ہے جو کہ مجموعاً 15000 کلو میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انقلاب سے پہلے ہر سال بچھائی جانے والی ریلوے لائن 80 کلو میٹر تھی جبکہ انقلاب کے بعد یہ عدد 168 تک بڑھا دیا گیا۔
6۔ انقلاب سے پہلے ملک کے اندر غیر ملکی کمپنیوں کی مدد سے 25 فی صد ضرورت کی دوائیاں بنائی جا رہی تھیں۔ بہت سے بیمار علاج معالجہ کیلئے بیرون ملک سفر کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ آج ملکی باصلاحیت افراد کی مدد سے 96 فی صد ضرورت کی دوائیاں ملک کے اندر بنائی جا رہی ہیں۔ آج ایران دوائیوں کو برآمد کرنے والے ممالک میں شمار کیا جانے لگا ہے۔
7۔ انقلاب سے قبل ٹیلی فون کا محکمہ 121 سال سے کام کر رہا تھا۔ 1357 تک ملک میں ٹیلی فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 850 ہزار اور 800 افراد تھی جبکہ صرف 312 دیہاتوں میں ٹیلی فون ایکسچینج موجود تھی۔ اسلامی انقلاب کے بعد ٹیلی فون اور موبائل فون کی نعمت سے بہرہ مندی کے میدان میں ناقابل یقین پیشرفت نظر آتی ہے۔ آج 850800 افراد سے یہ تعداد تیس ملین تک پہنچ گئی ہے۔ 1357 میں ٹیلی فون ایکسچینج 4294 تھیں جبکہ آج یہ تعداد 26400 تک پہنچ گئی ہے۔ آج ملک میں ٹیلی فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 45000000 ہوگئی ہے۔ نوری فیبر کے استعمال سے آج پورے ملک میں تیس ملین انٹرنیٹ پوائنٹس کام کر رہے ہیں۔
8۔ آب رسانی، سڑکیں، مسافر گاڑیاں، داخلی اور خارجی مسافر، وغیرہ سب کچھ میں انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد انتہائی واضح فرق ہے جو کہ عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحال زندگی کی علامت ہے۔
(جاری)
تحریر: مرتضٰی عباس
source : www.abna.ir