نہج البلاغہ کا اجمالی تعارف
نہج البلاغہ وہ عظیم المرتبت کتاب ہے جس کو دونوں فریق کے علماء معتبر سمجھتے ہیں، یہ مقدس کتاب امام علی علیہ السلام کے پیغامات اور گفتار کا مجموعہ ہے جس کو علامہ بزرگوار شریف رضی علیہ الرحمہ نے تین حصوں میں ترتیب دیا ہے جن کا اجمالی تعارف کچھ یوں ہے:
۱۔ حصہ اول: خطبات
نہج البلاغہ کاسب سے پہلا اور مھم حصہ امام علی علیہ السلام کے خطبات پر مشتمل ہے جن کو امام علیہ السلام نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے، ان خطبوں کی کل تعداد (۲۴۱ ) خطبے ہیں جن میں سب سے طولانی خطبہ ۱۹۲ ہے جو خطبہٴ قاصعہ کے نام سے مشہور ہے اور سب سے چھوٹا خطبہ ۵۹ ہے۔
۲۔ حصہ دوم: خطوط
یہ حصہ امام علیہ السلام کے خطوط پر مشتمل ہے، جو آپ نے اپنے گورنروں اور دوستوں، دشمنوں، قاضیوں اور زکوٰة جمع کرنے والوںکے لئے لکھے ہیں، ان سبب میں طولانی خط ۵۳ ہے جو آپ نے اپنے مخلص صحابی مالک اشتر کو لکھا ہے اور سب سے چھوٹا ۷۹ ہے جو آپ نے فوج کے افسروں کو لکھا تھا۔
۳۔ حصہ سوم: کلمات قصار
نہج البلاغہ کا آخری حصہ ۴۸۰ چھوٹے بڑے حکمت آمیز کلمات پر مشتمل ہے جن کو کلمات قصار کھا جاتا ہے، یعنی مختصر کلمات، ان کو کلمات حکمت اور قصار الحِکم بھی کھا جاتا ہے، یہ حصہ اگرچہ مختصر بیان پر مشتمل ہے لیکن ان کے مضامین بہت بلند پایہ حیثیت رکھتے ہیں جو نہج البلاغہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں۔
مقدمہ
کسی شخصیت کی شناخت اور پہنچان کا سب سے مھم ذریعہ یہ ہے کہ وہ شخصیت اپنی پہچان خود کرائے، چونکہ ھر شخص اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت بہتر پہچانتا ہے، اسی قاعدے کی بنا پر آئیں امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو خود اُن کی زبان سے پہچانیں۔
چونکہ ایک طرف سے امام معصوم کی مکمل شناخت عام انسانوں کی قدرت سے باھر ہے اس لئے امام علی علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت کو ان کے بیانات عالیہ سے پہچانیں اور اُن کی سیرت طیبہ کی معرفت حاصل کریں، اور اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔
البتہ یھاں پر ایک اعتراض ذہن میں آسکتا ہے کہ اپنی تعریف اپنے منھ کرنا اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی تعلیمات کے مخالف ہے، آیا امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں جو اپنی مدح و تعریف فرمائی ہے یہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ھم آہنگ نھیں ہے؟
اس مختصر تحریر میں ھم اس اعتراض کا جواب بیان کریں گے تاکہ امام عالی مقام کی ملکوتی شخصیت اظھر من الشمس ہوجائے، انشاء اللہ، خداوندکریم ھماری مدد فرمائے اور اپنی توفیقات سے نوازے۔
پہلا باب
اپنی تعریف کی دلیلیں
اگر کوئی شخص اپنی ایسی تعریف کرے جو خلاف واقع ہو تو وہ قطعاً حرام ہے اور اگر وہ شخص اپنی تعریف کرنے میں سچا ہو اور تعریف حقیقت کے مطابق ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:
ایک مرتبہ ایسی تعریف بیان کرنے کی مصلحت تقاضا نھیں کرتی، اسی صورت میں اگر کوئی شخص اپنی تعریف کرتا ہے تو یہ تعریف قابل مذمت ہے، لیکن اگر تعریف سچی ہو اور مصلحت بھی اس کا تقاضا کرے تو اس صورت میں اپنی تعریف کرنا ضروری ہے۔
اس مذکورہ بیان کی روشنی میں دیکھیں اور غور فرمائیں کہ امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اپنی جو تعریف بیان فرمائی ہے وہ صداقت پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مصلحت نے اس کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے پہنچان اور شناخت کو لازم سمجھا، ھم ذیل میں چند دلیلوں کے پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔
۱۔ پہلی دلیل:
اتمام حجت:
پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے امام علی علیہ السلام کی شخصیت و مقام کو پس پشت ڈال دیا گیا، خلفاء کے پچیس سالہ دور حکومت میں امام علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت کو ظلمت و تاریکی کے حجاب میں چھپادیا گیا۔
جب امام علیہ السلام کو ظاھری خلافت ملی اس وقت بھی اُن کو اندرونی جنگوں میں اُلجھا دیا گیا اس زمانہ میں امام علیہ السلام کو جس نسل کاسامنا کرنا پڑا وہ جوان نسل آپ کی شخصیت سے آگاہ نھیں تھی، اس وجہ سے امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ آپ اس نسل جوان کے سامنے اپنا تعارف کرائیں اور اتمام حجت کریں تاکہ یہ جوان نسل اصحاب جمل و صفین کے فتنوں میں گمراہ نہ ہوجائیں، اس لئے امامِ امت ہونے کی بنا پر بھی امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اپنا تعارف کرائیں تاکہ لوگ آپ کی تعلیمات اور سیرت سے فیض حاصل کریں جیسا کہ انبیاء علیھم السلام بھی جب تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے اپنا تعارف کراتے تھے۔
دوسری دلیل: خدا کی نعمتوں پر شکر
امام علی علیہ السلام اپنی شخصیت کا تعارف اُن نعمتوں کے ذریعہ کراتے تھے جو خداوندعالم نے اپنے خصوصی فضل و کرم کی بنیاد پر امام علیہ السلام کو اُن نعمتوں سے مالامال فرمایا، امام علیہ السلام نعمت کی اہمیت اور نعمت دینے والے کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ اپنا تعارف یوں کراتے ہیں:
”میں ( علی) وہ ہوں جس نے عرب کے بڑے بڑے بہادروں کے چھکے چھڑا دئے تھے، میں وہ ہوں جس نے شرک کی آنکھیں نکال دیں اور عرش شرک کو لرزہ براندام کردیا، میں اپنے جھاد کے ذریعہ خدا پر کوئی احسان نھیں کرتا اور میں اپنی عبادت پر نازاں نھیں ہوں بلکہ میں اپنے پروردگار کی ان نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں“۔[1]
تیسری دلیل: حقائق تاریخی بیان کرنا
ھر حادثہ اور واقعہ تاریخ کے صفحات پر رقم ہوجاتا ہے، تاریخ نگار اور تاریخ لکھنے والے اُس کو بعد والی نسلوں کی طرف منتقل کرتے ہیں، ابھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتقال کیسے انجام پاتا ہے، آیا حقیقت اور مثبت حوادث کو نقل کیا جاتا ہے یا حقائق پر پردہ ڈال کر جھوٹ اور فریب کے ذریعہ؟ جب اسلام جزیرة العرب میں پھیلا تو بہت سی تبدیلیاں اور انقلاب وجود میں آئے ، درحالیکہ امام علی علیہ السلام کا نقش ظہور اسلام میں خاص اہمیت کا حامل تھا۔
لیکن جب پیغمبر اعظم (ص) اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف چل بسے اور جھان اسلام کی ریاست و حکومت میں تبدیلی آئی تو کافی بزرگ شخصیات کا مقام گرا دیا گیا اور بہت سے لوگوں کو مقام جعلی دے دیا گیا حتی کہ اُن کے لئے جھوٹے فضائل کو گڑھا گیا اور امام علی علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں میں گرانے کی سعی لاحاصل کی گئی، اسی وجہ سے جب امام علی علیہ السلام کو ظاھری خلافت ملی تو آپ پر لازم ہوگیا تھا کہ اپنی شناخت بھی کرادیں اورتاریخی حقائق سے پردہ اٹھادیں تاکہ آئندہ آنے والی نسل کے لئے آپ کی شخصیت منارہ نور بن کر مشعل راہ بن جائے۔
چوتھی دلیل: اپنی مظلومیت کا دفاع
جھان اسلام میں سیاسی تغیر و تبدل کی وجہ سے اجتماعی اور ثقافتی یلغار نے جنم لیا جس کا سب سے زیادہ اثر امام علی علیہ السلام کی شخصیت پر پڑا، چونکہ امام علیہ السلام اسلام کی مصلحت کی خاطر گوشہ نشین ہونے پر مجبور ہوگئے تھے، اس پُر آشوب دور میں بھی اپنی مظلومیت کو بیان کرتے رھے۔
خاص طور پر جب خوف زدہ کرنا اپنے عروج پر تھا اس زمانہ میں کچھ لوگ خوف و وحشت کی وجہ سے خاموش ہوگئے اور کچھ لوگ دنیا دار بن بیٹھے، اور اپنی زبانیں بند کرکے خاموشی اختیار کرلی، ایسے حالات میں علی علیہ السلام کی شناخت اور پہچان کرانا کسی کے بس میں نھیں تھا، چونکہ امام علیہ السلام کے مخالفین نے جب حکومت کی باگ ڈور ھاتھ میں لے لی تو برملاٴ اور علی الاعلان امام پر تبراٴ کیا جانے لگا، اور دیگر اصحاب کے فضائل بیان ہونے لگے، ان حالات میں امام علی علیہ السلام کو پہنچان کرانا بہت ضروری تھا، یعنی امام علیہ السلام اس زمانہ میں اپنی مظلومیت کا دفاع کرتے رھے اور لوگوں کو حقیقت حال سے باخبر کرنے کے لئے اپنی شناخت اور پہچان کو ضروری سمجھا۔
مذکورہ چار دلیلوں کی بنا پر کھا جاسکتا ہے بلکہ کہنا ضروری ہے کہ امام علی علیہ السلام نے اپنی جو تعریف فرمائی ہے وہ تعلیمات اسلامی سے ذرا بھی مخالف نھیں ہے، بلکہ اسلامی اقدار کا دفاع ہے۔
دوسرا باب
شخصیت امیر المومنین نہج البلاغہ کی نظر میں
ابھی ھم امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو انھیں کی زبانی بیان کرتے ہیں، آپ نے نہج البلاغہ میں جو آپ کے فرامین کا مجموعہ اور مقدس ترین کتاب ہے یہ ایسی با عظمت کتاب ہے جس کو دونوں فریق (سنی و شیعہ) کے علماء مقدس اور محترم سمجھتے ہیں، آپ نے اپنی شخصیت کا کچھ اس انداز میں تعارف کرایا ہے جو اختصار کے ساتھ آپ کے لئے باعث استفادہ ہیں۔
۱۔ عظمت علی (ع)پیغمبر اسلام کی نگاہ میں
(الف) علی (ع)، آغوش رسول(ص) کے پروردہ
امام علی علیہ السلام وہ ذات پُر برکت ہیں جن کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ کی پرورش رسول خدا (ص) کی آغوش میں ہوئی ہے، رسول خدا (ص) کی آغوش میں پرورش پانے والے کامل اور اکمل انسان نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ہیں:
” وَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوضَعِی مِن رَسُولِ الله بِالقَرَابَة القَرِیْبَةِ وَ المَنْزِلَةِ الخَصِیْصةَ وَضعنی ِفی حِجْرِہِ وَ اٴنَا وَلَدٌ یَضُمَّنِي إلیٰ صَدْرِہِ، وَ یَکْنُفْنِي فِی فَرَاشِہِ ۔۔۔ وَ کَان یَمْضَغُ الشَّی ثُمَّ یُلْقِمُنِیْہِ“۔[2]
”امام علیہ السلام فرماتے ہیں (اے لوگو) تم رسول خدا کے ساتھ میری منزلت کو جانتے ہو،میں آپ کا قریبی رشتہ دار اور آپ کے خواص سے ہوں، رسول اللہ مجھے بچپن میں اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اپنے سینے سے لگایا کرتے تھے، مجھے اپنے ساتھ سلاتے تھے، میرا بدن آپ کے بدن سے مس ہوتا تھا میں آپ کی خوشبو سونگھتا تھا۔
رسول خدا (ص) غذا کو اپنے مبارک دانتوں سے چباکر میرے منھ میں رکھتے تھے، رسول خدا (ص) میرے کردار میں کسی قسم کا کذب یا خطا نھیں پاتے تھے، میں چھوٹا ہی تھا کہ خدا نے اپنے رسول کے ساتھ ایک فرشتہ کو مقرر فرمایا جو آپ کو دن رات اخلاق و کرامات کی طرف راہنمائی کرتا تھا میں بھی اونٹنی کے بچے کی مانند جو اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، رسول اللہ (ص) مجھے ھر روز اچھے اخلاق سے ایک نقطہ تعلیم فرماتے اور مجھے اس پر عمل کرنے کا حکم دیتے تھے[3]
اس بیان سے واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ امام علیہ السلام کی پرورش خود رسول اللہ نے فرمائی تھی، کیونکہ رسول خدا (ص) امام علیہ السلام کو اپنے مشن کا وراث جانتے تھے، اتنا اہتمام اس لئے فرمایا۔
(ب) علی (ع)آغاز وحی میں پیغمبر کے ساتھ
امام علی علیہ السلام وہ بلند مقام شخصیت ہیں جنہوں نے نور وحی کو اپنی آنکھوں سے مشاھدہ فرمایا اس لئے تو رسول ختمی مرتبت نے فرمایا تھا، اے علی جو میں دیکھتا ہوں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں جو میں سنتا ہوں وہ آپ بھی سنتے ہیں۔
امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
”وَ لَقَدْ کَانَ یُجَاوُرِ فِي کُلّ سَنَةٍ بِحْرَاءَ فَاٴرَاہُ وَلَا یَراہُ غَیرِي، وَلَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وَاحِدٌ یَومَئِذٍ فِي إلاسُلَامِ غَیْرَ رَسُولَ الله (ص)، وَ خَدِیْجَةَ وَ اٴنَا ثَالِثُہُمَا“۔[4]
”امام فرماتے ہیں رسول خدا (ص) ھر سال کچھ عرصہ غار حرا میں جایا کرتے تھے، میں ان کو دیکھتا تھا میرے علاوہ کوئی انھیں نھیں دیکھتا تھا، اُس زمانہ میں واحد گھر جس میں رسول خدا (ص)اور جناب خدیجہ اور تیسر ا میں تھا کوئی اور گھر میں نھیں تھا“۔
اس کے بعد فرماتے ہیں:
”اٴرَیٰ نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةَ، وَ اٴشُمُّ رِیْحَ النَّبُوَةِ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشِّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ مَا ہَذِہِ الرَّنَّةُ، فَقَالَ (ص) ہٰذَا الشِّیْطَانُ قَدْ اٴیِسْ مِنْ عِبَادَتِہِ، إنَّکَ تَسْمَعُ مَا اٴَسْمَعُ وَ تَریٰ مَا اٴَریٰ إلاَّ اٴنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍ وَ لَکِنَّکَ لَوَزِیرٌ وَ اٴنَّکَ لَعَلیٰ خَیْرٍ“۔[5]
”میں نے نور وحی اور نور رسالت کو دیکھا، رسول خدا (ص) کی دلپذیر خوشبو کو سونگھتا تھا، میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کے رونے کی آواز کو سنا، اور میں نے رسول اکرم (ص) سے پوچھا: یا رسول اللہ یہ کس کے رونے کی آواز ہے تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: یہ شیطان رو رھا ہے چونکہ وہ آج سے اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے، اس کے بعد رسول (ص)نے فرمایا: یا علی جو میں سنتا ہوں آپ بھی سنتے ہیں، اور جو میں دیکھتا ہوں ، آپ بھی دیکھتے ہیں مگر آپ نبی نھیں ہیں، بلکہ میرے وزیر اور جانشین ہیں، اور آپ خیر پر ہیں“۔
ارئین کرام! ھم تمام امت اسلام کو چیلنج کرکے کہہ سکتے ہیں کہ آؤ ، رسول اسلام کے بعد کوئی ایسی شخصیت دکھاؤ جس کے بارے میں خود رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہو کہ آپ میرے جانشین اور وزیر ہیں، جو میں سنتا ہوں وہ آپ بھی سنتے ہیں جو میں دیکھتا ہوں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں، یہ فخر صرف اور صرف علی بن ابی طالب علیہ السلام کو حاصل ہے، لیکن دنیائے اسلام آج تک پریشان ہے کہ رسول اکرم (ص) کا حقیقی جانشین کون تھا، پس ھم یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ علی علیہ السلام کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ہیں۔
(ج) علی (ع)سب سے پہلے نماز پڑھنے والے
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
”اَللّٰہُمَّ اِنّي اٴوَّلَ مَنْ اٴَنَابَ وَ سَمِعَ وَ اٴجَابَ لَمْ یَسْبِقْنِی إلاَّ رَسول الله بالصَّلاة“۔[6]
”میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس نے رسول اکرم (ص) کی طرف رجحان پیدا کیا اور اُن کی دعوت کو سنااور قبول کیا، میں سب سے پہلا نماز گزار ہوں، رسول(ص) کے علاوہ کوئی شخص ”مجھ سے پہلا نمازی نھیں ہے“ اور مجھ سے سابق نھیں ہے۔
(د) علی (ع) جانثار رسول(ص)
امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۷ میں ارشاد فر ماتے ہیں:
”وَ لَقَدْ عَلِمَ المُسْتَحْفِظُونَ مِنْ اٴصْحَابِ مُحَمَّدٍ(ص) اٴَنِّی لَمْ اَرُدُّ عَلیٰ الله وَ لَا عَلیٰ رَسُولِہِ سَاعَةً قَطُّ، وَ لَقَدْ وَاسَیْتُہُ بِنَفْسِي فِي المَوَاطِنِ الَّتِي تَنْکُصُ فِیْہَا الاٴبْطَالُ وَ تَتَاٴخَّرُ فِیْہَا الاٴقْدَامُ، نَجْدَةً اٴکْرَمَنِي الله بِہَا“۔[7]
”اصحاب محمد میں سے صاحبان اسرار جانتے ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا و رسول (ص) کی مخالفت نھیں کی، بلکہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مشکل مقامات پر ان کی نصرت کی جھاں بڑے بڑے سورما بھاگ جاتے تھے، اور اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے تھے، خدا نے اس شجاعت و دلیری کے ذریعہ میری لاج رکھی ”اور میں نے پیامبر کا دفاع کیا“۔
قارئین کرام!یہ وہ خصوصیات اور خوبیاں ہیں جو فقط امام عالی مقام کا طرہ امتیاز تھیں کوئی با شعور انسان اس حقیقت کا انکار نھیں کرسکتا، لیکن وہ لوگ جن کے دلوں پر مھریں لگ چکی ہیں وہ کبھی حقیقت کو بیان نھیں کرسکتے اور نہ اس کو ہضم کرسکتے ہیں۔
حضرت علی (ع) کی علمی شخصیت
پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ”میں علم کا شھر ہوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ہے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ہونا ضروری ہے ایک دفعہ جاتے ہوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ہوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ہیں:
”فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ وَ لَا عَنْ فِیٴةٍ تَہْدِي مِاَئةً وَ تُضِلُّ مِاَئةً إلاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَہَا وَ قَائِدَہَا وَ سَائِقِہَا“[8]
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رہوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، ممکن نھیں ہے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ہوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ہے وہ بھی بتا سکتا ہوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں مطلع کرسکتاہوں“۔
قارئین کرام! یہ کلمات امام علی علیہ السلام کے علم کی ایک جھلک ہے، اور شاھد ہے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ہوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ہے۔
۳۔حضرت علی اور شھادت طلبی
کبھی آپ نے میدان جنگ سے فرار نہ فرمایا، نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲۲ میں فرماتے ہیں:
”وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُہُمْ إلیٰ اٴنْ اٴبْرَزَ لِلطَّعَانِ! وَ اٴنْ اٴَصْبِرْ لِلْجَلَادِ، ہَبَلَتْہُمْ الہَبُوْلُ، لَقَدْ کُنْتُ َو مَا اٴَہَدَّدَ بِالْحَرْبِ وَ لَا اٴَرْہَبُ بِالضَّرْبِ، وَ اِنِّي لَعَلیٰ یَقِیْنٍ مِنْ رَبِّي وَ غَیْرَ شُبْہَةٍ مِنْ دِیْنِي“۔[9]
”مجھے تعجب ہے اُن پر جو مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں ان کے نیزوں کے سامنے حاضر ہوجاؤں، اور ان کی تلوار کے سامنے صبر کروں، سوگواران کے غم میں روئیں، میں نہ جنگ سے ڈرتا ہوں اور نہ تلوار سے خوف زدہ ہوں، میں خدا پر یقین رکھتا ہوں، اور شک و شبہ میں مبتلا نھیں ہوں“۔
یہ کلمات امام علیہ السلام کے شوق شھادت پر واضح شاھد ہیں۔
۴۔ حضرت علی (ع)کی عدالت
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
”وَ الله لَقَدْ رَاٴئتُ عَقِیْلاً وَ قَدْ اٴمْلَقَ حَتیّٰ اَسْتَمَاحَنِي مِن بُرِّکُمْ صَاعاً وَ رَائتُ صِبْیَانَہُ شُعْثَ الشُّعُوْرِ غَبِرَ الاٴلْوَانِ مِنْ فَقْرِہِمْ کَاٴنَّمَا سوِّدَتْ وُجُوْہُہُمْ بِالْعَظْمِ وَ عَاوَدَنِي مُوٴَکِّداً“۔[10]
”خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ میرا بھائی عقیل تنگ دست ہے، اور اُس نے مجھ سے درخواست بھی کی کہ بیت المال سے کچھ وظیفہ بڑھادیں اور میں نے ان کے بچوں کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اُن کے بال اور رنگ متغیر ہوچکا تھا، عقیل نے بار بار اصرار بھی کیا۔۔۔ تاکہ میں عدالت سے ھاتھ اٹھالوں، لیکن میں نے لوھے کی گرم سلاخ کو عقیل کی طرف بڑھایا، عقیل چونکے، اے بھائی مجھے آگ سے جلانا چاہتے ہو تو میں نے کھا: اے عقیل تم دنیا کی آگ میں جلنا پسند نھیں کرتے لیکن مجھے جہنم کی آگ میں دھکیلنا چاہتے ہو جو زیادہ سخت ہے“۔
اسے عدالت محوری کھا جاتا ہے کہ سگے بھائی کو جو تنگدست بھی ہے بیت المال سے زیادہ دینا گوارہ نھیں کیا جاتا۔
۵۔ حضرت علی (ع) کا زھد و تقویٰ
امام علی علیہ السلام کے زھد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کو خبر دی گئی کہ عثمان بن حنیف جو بصرہ کا گورنر تھا وہ کسی ایسی دعوت میں اور ایسی محفل میں شامل ہوئے ہیں جھاں سب اُمراء شریک تھے، اس میں غریب نہ تھے، تو امام علی علیہ السلام نے اس کے پاس ایک خط لکھا اور متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
”اَلاَ وَ إنَّ لِکُلِّ مَامُوْمٍ اِمَاماً یَقْتَدِي بِہِ۔۔۔ اِلاَّ وَ اِنَّ اِمَامَکُمْ قَدْ اِکْتَفیٰ مِنْ دُنْیَاہُ بِطِمْرَیْہِ وَمِنْ طَعْمِہِ بِقُرْصَیْہِ“۔[11]
”اے حنیف کے بیٹے!“ آگاہ رہو کہ ھر ماموم کے لئے ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کے علم کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے، کیا تمھیں نھیں معلوم آپ کا امام دنیا سے دو پُرانے کپڑے پہن کر اور دو خشک روٹیاں کھا کر گزر بسر کرتا ہے، (اور تم ایسی دعوت میں شریک ہوتے ہو)
۶۔ نیاز مندوں کے ساتھ ھمدردی
امام علی علیہ السلام محتاج اور نیازمند لوگوں کے ساتھ ھمدردی فرماتے تھے، چنانچہ آپ ہی کا فرمان ہے:
”اَ اٴَقْنَعَ مِنْ نَفْسِي بِاٴنْ یُقَالُ ہَذَا اٴمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ وَ لَا اُشَارِکْہُم فِي مَکَارِہِ الدَّہْرِ“۔[12]
”کیا میں اس بات پر اپنے نفس کو قانع کرلوں کہ مجھے امیر المومنین کھا جائے، جبکہ ان کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں، بلکہ میں مشکلات میں ان کے لئے نمونہ بنوں گا، میں ”علی“ لذیذ غذا کھانے کے لئے پیدا نھیں ہوا ہوں جیسا کہ حیوانات کا پورا ھم و غم چارہ اور گھاس ہوتا ہے۔
امام علی علیہ السلام مقصد خلقت کو درد بانٹنے اور ھمدردی انسانیت کے اندر پیادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یعنی انسان کو عیش و عشرت کے لئے خلق نھیں کیا گیا ہے، بلکہ انسانیت کی ھمدردی کے لئے خلق کیا گیا ہے، یھی تو انسانیت کا امتیاز ہے۔
۷۔حضرت علی (ع)اور حق محوری
امام علیہ السلام حق پرست، حق جو، حق دوست اور حق گو تھے، جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: ”علی مع الحق، و الحق مع علی“، علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ہے، امام علیہ السلام کو پورا جھاد حق کے قیام کے لئے تھا، چنانچہ آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
”وَ الله لَہِیَ اٴحَبُّ إلَیَّ مِنْ إمْرَ تِکُمْ إلاَّ اٴَنْ اٴُقِیْمَ حَقّاً اٴوْ اٴَدْفَعَ بَاطِلاً“۔[13]
”قسم بہ خدا! میرے اس جوتے کی قیمت تم پر حکومت کرنے سے زیادہ ہے مگر یہ کہ اس کے ذریعہ سے حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو مٹا سکوں“۔
اس کے بعد اسی خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
”فَلا نْقَبَنَّ الْبَاطِلَ حَتّیٰ یَخْرُجُ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِہِ“۔[14]
”میں باطل کو شگافتہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں“۔
قارئین کرام! ان جملوں کی روشنی میں امام علی علیہ السلام کی حق دوستی اور حق محوری روشن ہوجاتی ہے۔
۸۔ حضرت علی اور وداع پیغمبر(ص)
امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے فدا کار سپاھی اور جانثار ساتھی تھے، اور آخری لمحات تک پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت ِاقدس میں رھے، یھاں تک کہ رسول اکرم (ص) کی رحلت کے وقت وداع کرنے والے بھی آپ ہی تھے، وداع پیغمبر کو نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ہیں:
”وَ لَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللهِ (ص) وَ إنَّ رَاسَہُ لَعَلٰی صَدْرِي، وَ لَقَدْ سَاٴَلَتْ نَفْسَہُ فِي کَفِّی فَاٴَمْرَرْتُہَا عَلیٰ وَجْہِي وَ لَقَدْ وَلَّیْتُ غُسْلَہُ وَ الْمَلَائِکَةُ اٴَعْوَانِي، فَضَجَّتِ الدَّارُ وَ الاٴَفْنیةُ مَلاٌ یَہْبِطُ وَ مَلاٌ یَعْرُجُ وَ مَا فَارَقَتْ سَمْعِي ہَیْنَمَةُ مِنْہُمْ یَصَلُّوْنَ عَلَیْہِ“۔[15]
”جب رسول خدا (ص) کی روح قبض ہوئی ان کا سر میرے سینے پر تھا، میرے ھاتھوں پر انھوں نے جان دی، میں نے ہی پیغمبر کو غسل دیا جبکہ ملائکہ میری مدد کررھے تھے، فرشتوں کی رونے کی آواز در و دیوار سے آرھی تھی، ان ملائکہ کا ایک گروہ نازل ہوتا تھا ایک آسمان کی طرف جاتا تھا، اُن کی دھیمی آواز میں سن رھا تھا جس کے ساتھ وہ پیغمبر پر دورد پڑھتے جاتے تھے، یھاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کو سپرد خاک کردیا گیا، لہٰذا رسول اسلام (ص) کی زندگی اور موت کے بارے میں مجھ سے بڑھ کر کوئی شخص آنحضرت (ص) کے قریب نہ تھا“۔
قارئین کرام! پیغمبر اکرم (ص) کی پوری زندگی میں علی علیہ السلام آپ کے محافظ اور جانثار کے طور پر آپ کی حفاظت میں مشغول رھے ھر میدان میں آپ کی آواز پر لبیک کہتے رھے یھاں تک رحلت کے موقع پر جب سب حضرات آپ کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں چلے گئے لیکن وارث رسول غسل و کفن میں مصروف رھا، ان روشن دلیلوں کے باوجود جو آپ کے وارث رسول ہونے میں شک کرے وہ شخص اپنی قسمت پر گریہ کرے، امام علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں یہ چند معروضات تھیں ، اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
خداوندعالم ھمیں آپ کے پیرو حقیقی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
________________________________________
[1] شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص ۲۹۶۔
[2] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[3] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[4] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[5] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[6] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱۔
[7] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۷۔
[8] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔
[9] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۲۔
[10] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۲۴۔
[11] نہج البلاغہ ، خطبہ ۴۵۔
[12] نہج البلاغہ ، خط نمبر ۴۵۔
[13] نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳۔
[14] نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳۔
[15] نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۷۔
source : abna