اسلام میں عید نوروز کا کیا مقام ہے اور ائمہ اطہار (ع) نے کیوں اس عید کی تائید کی ہے؟ اس سوال کے جواب میں آیت اللہ العظمی مظاہری نے بیان کیا:عید کی قسمیںہم ایرانیوں کی عیدوں کی تین قسمیں ہیں: پہلی: اسلامی عیدیں، جو تمام مسلمان مناتے ہیں جسے عید فطر، عید قربان کہ ان دو عیدوں میں نماز عید بھی وارد ہوئی ہے۔ اور اس نماز کے قنوت میں بھی اس دن کے عید ہونے کا تذکرہ ہوا ہے۔ اسی طریقہ سے عید میلاد پیغمبر(ص)، عید مبعث۔دوسری قسم، مذہبی عیدیں ہیں جو بہت ساری ہیں جیسا کہ مذہب شیعہ کے اندر بھی پائی جاتی ہیں عید غدیر، پندہ شعبان، عید زہرا، وغیرہتیسری قسم، ملی اور قومی عید ہے جیسے ہم ایرانیوں کی عید نوروز ہے یعنی یہ عید ایرانیوں کی عید ہے۔عید نوروز اسلام کی نظر میںروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ طاہرین(ع) نے نہ صرف اس عید کو رد نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کی ہے۔ مرحوم محدث قمی نے مفاتیح الجنان میں امام صادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ (ع) نے معلی بن خنیس سے فرمایا: جب عید نوروز ہو تو غسل کرنا، نیا لباس پہننا، مہندی لگانا، حمام جانا، اچھی خوشبو استعمال کرنا۔ اس کے بعد فرمایا: مستحب ہے عید نوروز کے دن روزہ رکھنا، اور نماز ظہر و عصر کے بعد چار رکعت نماز ادا کرنا دو دو رکعتیں کر کے، جس کی پہلی رکعت میں حمد کے بعد دس مرتبہ انا انزلنا، دوسری رکعت میں دس مرتبہ قل یا ایھا الکافرون، تیسری رکعت میں دس مرتبہ قل ھو اللہ احد اور چوتھی رکعت میں دس مرتبہ سورہ فلق اور دس مرتبہ سورہ ناس کی تلاوت کرنا۔ اس کے بعد ایک دعا نقل کرتے ہیں جو نماز کا حصہ نہیں ہے جسے سجدہ اور سجدہ کے علاوہ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔(۱)اس دعا میں ایک جملہ ہے جس میں فرماتے ہیں «فَضَّلْتَهُ وَ كَرَّمْتَهُ» یعنی خدایا تو نے اس عید کو فضیلت دی اور تو نے اسے بزرگی عطا کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ معصومین (ع) نے اس عید کی قومی عید ہونے کے عنوان سے تائید کی ہے۔شاید ائمہ معصومین (ع) کی تائید کوئی اور دلیل رکھتی ہو۔ بعض روایات میں ملتا ہے کہ عید غدیر یعنی جس دن علی علیہ السلام کو رسول پاک نے مولا بنایا یہی وہ دن عید نوروز کا دن تھا۔ مجھے نہیں معلوم یہ بات درست ہے یا نہیں۔ علم نجوم اور علم اعداد سے کچھ اور فضیلتیں بھی اس دن کے لیے بیان کی گئی ہیں مجھے نہیں معلوم وہ کس حد تک درست ہیں۔ البتہ جو چیز میرے لیے یقینی ہے وہ یہ ہے کہ اس دن کی کچھ خصوصیات ہیں جو اسلام میں مورد تائید واقع ہوئی ہیں۔پہلی خصوصیتعید نوروز پر نظافت اور صفائی ستھرائی ہے۔ لوگ نئے لباس پہنتے ہیں، حمام جاتے ہیں، گھروں کو صاف کرتے ہیں، اسلام کہتا ہے: النظافةُ مِنَ الْايمان ، نظافت ایمان کی نشانی ہے۔ اس روایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو شخص نظافت کی رعایت نہیں کرتا واقعی مسلمان نہیں ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے: (يا بَني ادَمَ خُذُوا زينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ)[2]اے اولاد آدم ہر مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنے آپ کو مزین کرو۔جب مسجد میں جانا چاہو، کسی اجتماع میں جانا چاہو، تو پاکیزہ ہو کر جاو، اپنے دانتوں کو مسواک کرو، نیا لباس پہنو، عطر لگاو، اگر جوراب یا لباس بدبو دے رہا ہے تو اسے تبدیل کر کے جاو، پاک و پاکیزہ ہو کر مجمع میں داخل ہو۔ حتی پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:«لَوْ لا اَنْ اَشُقَّ عَلي اُمَتّي لَاَمَرْتُهُمْ بِالسِّواكِ مَعَ كلِّ صَلاةٍ»[3]اگر مجھے اپنی امت پر سختی کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر نماز سے پہلے مسواک کو واجب قرار دے دیتا۔اسلام کو یہ پسند نہیں ہے کہ لباس گران قیمت ہو۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ لباس پاکیزہ ہو صاف ستھرا ہو۔سفید لباس پہننے پر اسلام کی تاکیداسلام میں جو سفید لباس پہننے کی تاکید ہوئی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سفید لباس پر میل صاف دکھائی دیتی ہے اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ اسے دھوئے۔ لیکن اگر کسی مسلمان کے کپڑے میلے کچیلے ہیں، جوتے اور جورابیں بدبودار ہیں، اگر وہ مسلمان ظاہری طور پر صاف ستھرا نہیں ہے تو اس کا اسلام کامل نہیں ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ جب انسان کسی مجمع میں داخل ہو تو صاف ستھرا ہو۔ روایات میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ جب گھر سے باہر نکلتے تھے تو اپنے لباس کو مرتب کرتے تھے عمامہ کو مرتب کرتے تھے شیشہ دیکھتے تھے اگر شیشہ نہیں ہوتا تھا تو پانی والے برتن میں نگاہ کرتے تھے تاکہ کہیں آپ کا عمامہ ٹیڑا نہ ہو۔ (۴) یہ جو عید نوروز کے موقع پر گھروں میں ہر چیز کو رد و بدل کیا جاتا ہے ادھر ادھر کیا جاتا ہے جسے ’’خانہ تکانی‘‘ کہتے ہیں یہ اچھی چیز ہے روایات میں ہے کہ گھر میں کوڑا کا جمع ہونا، مکڑے کا جالا پایا جانا گھر میں فقر لاتا ہے۔ اور خدا کی رحمت اس گھر سے دور ہو جاتی ہے۔ ملائکہ چلے جاتے ہیں اور شیاطین آجاتے ہیں۔ روایات میں گھر کو صاف رکھنے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔خواتین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شوہر کے گھر آنے سے پہلے اپنے آپ اور گھر کو مرتب کریں۔ جو لباس شوہر کو پسند ہے وہ پہنیں، بچوں کو صاف رکھیں، گھر کو صاف رکھیں، اگر کھانے کا وقت ہے تو دسترخوان لگائیں۔۔۔ وگرنہ شوہر داری کے اعتبار سے ناکام ہیں۔ اور اگر کوئی خاتون شوہر داری میں کامیاب نہیں ہے شوہر داری کے وظیفہ کے اچھے طریقہ سے انجام نہیں دے پا رہی ہے معلوم نہیں ہے کہ وہ جنت میں جائے گی۔اور اسی طرح مرد کی بھی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بھی گھر میں اپنے آپ کو صاف رکھے۔ عورت کا اصلی کام خانہ داری اور بچہ داری ہے اس کے بعد سماج میں کوئی دوسری مشغولیت انجام دے سکتی ہے اگر ان دو ذمہ داریوں کو چھوڑ کر کوئی تیسری ذمہ داری اٹھا لیتی ہے تو وہ گناہگار ہے۔اس وجہ سے اسلام عید نوروز کی تائید کرتا ہے چونکہ اس عید میں صفائی ستھرائی کے کام زیادہ انجام پاتے ہیں۔دوسری خصوصیتمہمان داری اور مہمان نوازی۔ مہمان بلانے اور مہمانی پر جانے کو اسلام دوست رکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:«المؤمِنُ يألَفُ و يُؤلَفُ و لا خَيْرَ في مَنْ لا يَألَفْ وَلا يُؤلَف»[5]یعنی مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ مانوس ہو ان کے ساتھ رفت و آمد رکھے اور دوسرے بھی اس کے ساتھ مانوس ہوں۔ یعنی وہ بھی لوگوں کو دوست رکھے اور لوگ بھی اسے دوست رکھیں۔ اس کے بعد فرمایا: اگر کوئی گوشہ نشینی اختیار کر لے دوسروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دے تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔منفی تقویٰ کو اسلام پسند نہیں کرتا، منفی تقوی کا مطلب یہ ہے کہ انسان گوشہ نشین ہو کر، دوسروں سے دور ہو کر تقویٰ اختیار کرے، چونکہ اکیلا ہو جائے گا نہ کسی کی غیبت کرے گا، نہ کسی پر تہمت لگائے گا نہ کسی سے جھوٹ بولے گا نہ کسی نامحرم کو دیکھے گا۔۔۔۔ اگر چہ یہ اچھی چیز ہے لیکن اسلام اسے دوست نہیں رکھتا۔ اسلام سماج کے درمیان رہ کر ان صفات کو دیکھنا چاہتا ہے۔اسلام مثبت تقوی کا مطالبہ کرتا ہے یعنی آپ سماج کے اندر رہیں اور غیبت نہ کریں، لوگوں کے بیچ میں رہیں اور کسی پر تہمت نہ لگائیں، جھوٹ نہ بولیں نامحرموں کو نہ دیکھیں۔لہذا اس حوالے سے بھی عید نوروز اسلام کی مورد تائید قرار پاتی ہے۔حوالہ جات[1]. مفاتيح، اعمال عيد نوروز (فصل يازدهم).[2]. سوره ی اعراف، آيه ی 31.[3]. بحارالانوار، جلد 73، صفحه ی 126 و فروع كافي، جلد 3، صفحه ی 22.[4]. بحارالانوار، جلد 16، صفحه ی 249[5]. كنزالعمال، جلد 1، صفحه ی 142، حديث شماره ی 679
جب عید نوروز ہو تو غسل کرنا، نیا لباس پہننا، مہندی لگانا، حمام جانا، اچھی خوشبو استعمال کرنا۔ اس کے بعد فرمایا: مستحب ہے عید نوروز کے دن روزہ رکھنا، اور نماز ظہر و عصر کے بعد چار رکعت نماز ادا کرنا دو دو رکعتیں کر کے، جس کی پہلی رکعت میں حمد کے بعد دس مرتبہ انا انزلنا، دوسری رکعت میں دس مرتبہ قل یا ایھا الکافرون، تیسری رکعت میں دس مرتبہ قل ھو اللہ احد اور چوتھی رکعت میں دس مرتبہ سورہ فلق اور دس مرتبہ سورہ ناس کی تلاوت کرنا۔
جب عید نوروز ہو تو غسل کرنا، نیا لباس پہننا، مہندی لگانا، حمام جانا، اچھی خوشبو استعمال کرنا۔ اس کے بعد فرمایا: مستحب ہے عید نوروز کے دن روزہ رکھنا، اور نماز ظہر و عصر کے بعد چار رکعت نماز ادا کرنا دو دو رکعتیں کر کے، جس کی پہلی رکعت میں حمد کے بعد دس مرتبہ انا انزلنا، دوسری رکعت میں دس مرتبہ قل یا ایھا الکافرون، تیسری رکعت میں دس مرتبہ قل ھو اللہ احد اور چوتھی رکعت میں دس مرتبہ سورہ فلق اور دس مرتبہ سورہ ناس کی تلاوت کرنا۔
source : abna