اردو
Thursday 19th of December 2024
0
نفر 0

قرآن کریم میں ولایت اور اولوالامر کا بیان

گزشتہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں پر حضرت علی(ع) کی ولایت کا بیان ہوا تھا۔ بالکل یہی مفہوم قرآن کریم کی اس آیت کا بھی ہے:اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُہوَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ۔ 

تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔

حضرت ابن عباس، حضرت ابوذر، حضرت انسبن مالک اور حضرت علی(ع) وغیرہ سے ایک روایت مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: مسلمان فقراء میں سے ایک فقیر مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا اور بھیک مانگنے لگا۔ اس وقت حضرت علی(ع) نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی بات سے امام کا دل پسیجا۔ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے پیچھے اشارہ کیا۔ آپ کی انگلی میں سرخ عقیق یمنی کی ایک انگوٹھی تھی جسے آپ نماز کے دوران پہنتے تھے۔ آپ نے سائل کو اشارہ سے سمجھایا کہ وہ انگوٹھی اتار لے۔ پس اس نے انگوٹھی اتار لی، آپ کے لئے دعا کی اور چلا گیا۔ ابھی کوئی شخص مسجد سے باہر نکلنے نہیں پایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام خدا کا پیغام: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ الله لے کر اترے ۲ اور حسان بن ثابت نے اس بارے میں اشعار کہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

قرآن کریم میں ولایت اور اولوالامر کا بیان

الف۔ قرآن میں ولایت علی (ع)

گزشتہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں پر حضرت علی(ع) کی ولایت کا بیان ہوا تھا۔ بالکل یہی مفہوم قرآن کریم کی اس آیت کا بھی ہے:

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُہوَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رَاکِعُوْنَ۔ ۱

تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔

حضرت ابن عباس، حضرت ابوذر، حضرت انسبن مالک اور حضرت علی(ع) وغیرہ سے ایک روایت مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: مسلمان فقراء میں سے ایک فقیر مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا اور بھیک مانگنے لگا۔ اس وقت حضرت علی(ع) نماز میں مشغول تھے۔ سائل کی بات سے امام کا دل پسیجا۔ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے پیچھے اشارہ کیا۔ آپ کی انگلی میں سرخ عقیق یمنی کی ایک انگوٹھی تھی جسے آپ نماز کے دوران پہنتے تھے۔ آپ نے سائل کو اشارہ سے سمجھایا کہ وہ انگوٹھی اتار لے۔ پس اس نے انگوٹھی اتار لی، آپ کے لئے دعا کی اور چلا گیا۔ ابھی کوئی شخص مسجد سے باہر نکلنے نہیں پایا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام خدا کا پیغام: اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ الله لے کر اترے ۲ اور حسان بن ثابت نے اس بارے میں اشعار کہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

ابا حسن تفدیک نفسی و مھجتی

وکل بطی ء فی الھدی و مسارع

فانت الذی اعطیت اذ انت راکع

فدتک نفوس القوم یا خیر راکع

فانزل فیک الله خیر ولایة

 فاثبتھا فی محکمات الشرائع ۳

اے ابولحسن میری جان اور روح آپ پر فدا ہوں نیز میدان ہدایت کا ہر تندور اور کندور شخص تجھ پر فدا ہو

کیونکہ تو ہی تھا جس نے حالت رکوع میں (انگشتری) عطا کی تھی۔ اے بہترین رکوع کرنے والے! تجھ پر ملت کی جانیں قربان ہوں۔

 اللہ نے تیری شان میں سب سے بہترین ولایت اتاری اور اس کو قرآن کی محکم آیات میں ہمیشہ کے لئے درج کر لیا۔

اس آیت کی دلالت پر اعتراض

بعض لوگوں نے مذکورہ روایات کے مفہوم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ سابقہ آیت:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَھُمْ رَاکِعُوْن

میں جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ پس حضرت علی(ع) کے لئے جو واحد ہیں جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟

یہ اعتراض محض ایک توہم ہے اگر واحد کا صیغہ استعمال کیا جائے اور اس سے مراد جمع لی جائے تو یہ غلط ہے۔ لیکن اس کے برعکس (یعنی لفظ جمع استعمال کر کے واحد کو مراد لینا) درست ہے۔ اس کا استعمال بھی عام اور رائج ہے۔ قرآن کریم میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر سورة منافقین کی یہ آیات ملاحظہ ہوں:

اِذَا جَآء َکَ الْمُنٰافِقُوْنَ قَالُوْانَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُللهِ م وَاللهُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہط وَاللهُ یَشْھَدُاِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ۴

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْارُءُ وْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ۔ ۵

اور اس کے علاوہ

ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْاعَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَفْقَھُوْنَO یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّج وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِہوَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ

الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ ۶

طبری نے اس سورة کی تفسیر میں کہا ہے:

ان تمام آیات میں مراد عبداللہ بن ابی سلول منافق ہے۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اول سے آخر تک یہ پوری سورہ اتاری ہے اور ہم نے جو کچھ عرض کیا اہل تاویل نے بھی وہی کچھ کہا ہے نیز روایات بھی یہی کہتی ہیں۔

سیوطی نے ان آیات کی تفسیر میں ابن عباسسے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

سورہ منافقین میں اللہ نے جتنی بھی آیات اتاری ہیں ان سب میں عبداللہ بن ابی ہی مراد ہے۔۷

تفاسیر و سیرت کی کتب کی روشنی میں خلاصہ کلام کچھ یوں ہے:

حضرت عمربن خطاب کے غلام صحابی رسول حضرت جہجاہ غفاریکا غزوہ بنی مصطلق کے بعد بنی خزرج کے حلیف سنان جہنی کے ساتھ پانی پر جھگڑا ہوا اور ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔ جہنمی نے چلا کر پکارا:

اے انصاریو!

اور جہجاہ نے پکار کر کہا:

اے مہاجرو!

یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی اور اس قوم کے چند افراد غضبناک ہو گئے۔ ان لوگوں میں ایک جوان حضر زیدبن ارقم بھی تھے۔ عبداللہ نے کہا:

کیا یہ ان لوگوں کا کرتوت ہے؟ ان لوگوں نے ہماری سرزمین کے اندر ہمارے ساتھ نسب اور تعداد میں مقابلہ کیا ہے۔ اللہ کی قسم ہم نے ان قریشی سانپوں کو اپنی آستینوں میں جس طرح پالا ہے

اس پر کسی کا یہ قول صادق آتا ہے:

اپنے کتے کو موٹا تازہ کرو تاکہ تجھے کھا جائے۔ خبردار رہو اللہ کی قسم اگر ہم واپس مدینہ پہنچ گئے تو عزت و الا، ذلت والے کو ضرور نکال باہر کرے گا۔

اس کے بعد اس نے اپنی قوم کے حاضرین کی طرف رخ کیا اور کہا:

یہ تمہارے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے۔ تو نے اپنی سرزمین ان کے لئے مباح کر دی۔ ان کے ساتھ اپنے اموال کو تقسیم کیا۔ جان لو اللہ کی قسم ! اگر تم انہیں محروم کر دو ان چیزوں سے جو تمہارے اختیار میں ہیں تو یہ تمہاری سرزمین سے چلے جائیں گے۔

یہ بات حضرت زیدبن ارقم نے سنی۔ انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی اور آپ(ص) کو اس بات سے مطلع کیا۔ اس وقت حضرت عمربن خطاب وہاں موجود تھے۔ یہ سن کر حضرت عمرخطاب نے کہا :

یا رسول اللہ(ص) اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔

آپ نے فرمایا

اس صورت میں یثرب میں کافی خون خرابہ ہو گا۔

حضرت عمرنے کہا:

یا رسول اللہ(ص)! اگر آپ کو یہ پسند نہیں کہ کوئی مہاجر اسے قتل کرے تو سعدبن معاذ اور سعد بن مسلمہکو حکم دیں کہ وہ دونوں اسے قتل کر دیں۔

فرمایا:یہ مجھے پسند نہیں کہ لوگ کہیں: محمد(ص) تو اپنے صحابہ کو قتل کرتا ہے۔

پھر عبداللہ بن ابی رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گیا اور قسم کھائی کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس پر انصار نے حضرت زیدکی ملامت کی اور عبداللہ سے کہا:

اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے جاؤ تو وہ تمہارے لئے مغفرت کی دعا کریں گے۔

یہ سن کر اس نے اپنا سر پھرا لیا اور کہا:

تم لوگوں نے حکم دیا کہ ایمان لے آؤں تو میں ایمان لے آیا۔ پھر تم لوگوں نے مجھے اپنے مال سے زکات دینے کے لئے کہا تو میں نے دے دی۔ اب بس یہی رہ گیا کہ میں محمد(ص) کو سجدہ کروں۔

تب اس کے بارے میں مذکورہ سورة نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے قول:ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ۸

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں: جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرنا یہاں تک کہ یہ بکھر جائیں۔

نیز اسی سورہ میں خدا کے قول :وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْارُءُ وْسَھُمْ۹

اور جب ان سے کہا جائے: آوٴ کہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہیں۔

سے مراد عبداللہ بن ابی ہی ہے۔

اس سورة میں عبداللہ بن ابی جو اکیلا بات کر رہا تھا اور واحد تھا اس کے بارے میں اللہ

تعالیٰ نے جمع کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور فرمایا ہے:

ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ۔

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں:

نیز فرمایا:

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْارُءُ وْسَھُمْ۔

اور جب ان سے کہا جائے: آوٴ کہ اللہ کا رسول تمہارے لئے مغفرت مانگے تو وہ سر جھٹک دیتے ہیں۔

یہاں بات کرنے والا بھی واحد ہے اور فاعل بھی جیسا کہ اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے اور تمام روایات و احادیث یہی کہتی ہیں۔ ہم نے اسے فقط بطور مثال پیش کیا ہے ورنہ اس کی مثالیں قرآن مجید میں فراوان ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُوٴْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ھُوَ اُذُنٌ۔ ۱۰

اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی(ص) کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں۔

نیز یہ ارشاد :اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ ۱۱

جب کچھ لوگوں نے ان (مومنین) سے کہا: لوگ تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں۔

اور قرآن کی یہ آیت:یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ۔

وہ کہتے تھے کہ کیا ہمیں بھی کچھ ملے گا؟

ان آیات میں اور اس قسم کی دیگر آیتوں میں جمع کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جبکہ ان سے مراد واحد ہیں۔ قرآن میں اس کی مثالیں وافر ہیں۔

-----------------------------------------------------------------------

حوالہ جات

۱ سورة المائدہ۔ آیت ۵۵

۲ تفسیر طبری ج۶ صفحہ ۱۸۶، اسباب النزول للواحدی صفحہ ۱۳۳، شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۲۶۱، ۱۶۴، انساب الاشراف بلاذری صفحہ ۲۲۵ ج۱، غرایب القرآن نیشاپوری بر حاشیہ تفسیر طبری ج۶ صفحہ ۱۶۷، تفسیر در منثور ج۲ صفحہ ۲۹۳۔

۳ کفایة الطالب باب ۶۱ صفحہ ۲۲۸، البدایہ والنہایہ ج۷ صفحہ ۳۵۷

۴ سورة منافقون آیت ۱         

۵ سورة منافقون آیت ۵

۶ سورة منافقون آیات ۷۔۸      

۷ تفسیر ابن جریر طبری ج۲۸ صفحہ ۲۷۰، در منثور ج۶ صفحہ ۲۲۳

۸ سورة منافقون آیت ۷                   

۹ سورہ منافقون آیت نمبر ۵   

۱۰ سورة التوبہ آیت ۶۱

۱۱ سورہ آل عمران آیت ۱۷۳

 


source : http://www.shiastudies.com/urdu/modules.php?name=News&file=article&sid=469
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اھل بيت (ع) کے متعلق نازل ھونے والي آيات
قیامت، قرآن و عقل کی روشنی میں
''سیرة النبی ۖ'' مولانا شبلی نعمانی اور ''اُسوة ...
قرآن کی نگاہ میں جوان
قيام عاشورا سے درس ( تيسرا حصّہ )
حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے
اسلامی رسالت کے بعض نقوش
قرآن کریم میں ولایت اور اولوالامر کا بیان
حضرت علی (ع) کی شخصیت نہج البلاغہ کی نظر میں
قرآن مجيد اور خواتين

 
user comment