ھل بيت کي عظمت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ قرآن مجيد کى بے شمار آيات ہيں جو اھل بيت اطہارعليہم السلام کے فضائل و مناقب کے گرد گھوم رہى ہيں اور انہيں حضرات معصمومين عليہم السلام کے کردار کے مختلف پہلووں کى طرف اشارہ کر رہى ہيں بلکہ بعض روايات کى بنا پر تو کل قرآن کا تعلق ان کے مناقب، ان کے مخالفين کے نقائص ومثالب، ان کے اعمال و کردار اور ان کى سيرت و حيات کے آئين و دستور سے ہے ليکن ذيل ميں صرف ان آيات کى طرف اشارہ کيا جا رہا ہے جن کى شان نزول کے بارے ميں عام مسلمان مفسرين بھى اقرار کيا ہے کہ ان کا نزول اھل بيت اطہارعليہم السلام کے مناقب اى ان کے مخالفين کے نقائص کے سلسلہ ميں ہوا ہے-
حضرت امام زين العابدين عليہ السلام کا ارشاد ہے کہ "نحن الذين عندناعلم الکتاب و بيان مافيہ"ہم اھل بيت ہي ہيں جن کے پاس علم کتاب اور اسميں جو کچھ بيان کيا گيا ہے اس کا علم ہے -
رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي حديث ہے کہ "علي يعلم الناس من بعدي تاويل القرآن و مالايعلمون "علي ميرے بعد لوگوں کو تاويل قرآن اور جوکچھ نہيں جانتے اس کي تعليم دينگے-
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام تاکيد کے ساتھ فرمايا کرتے تھے کہ "سلوني عن کتاب اللہ فانہ ليس ميں آيۃ الا وقد عرفت بليل نزلت ام بنھار في سھل ام جبل "مجھ سے کتاب خدا کےبارےميں سوال کرو ،ميں ہرآيت کے بارےميں جانتاہوں خواہ وہ رات ميں نازل ہوئي ہويا دن ميں، دشت ميں نازل ہوئي ہو يا پہاڑي پر -
عبداللہ ابن مسعود نے روايت کي ہےکہ "ان القرآن نزل علي سبعۃ احرف مامنھا حرف الا لہ ظہرو بطن و ان علي ابن ابي طالب عندہ علم الظاہرو الباطن-
قرآن سات حرفوں پرنازل ہوا ہے اور انميں ايسا کوئي حرف نہيں جسکا ظاہر اور باطن نہ ہواور علي ابن ابي طالب کے پاس ظاہر اور باطن کا علم ہے -
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں کہ قرآن سے پوچھو،سوال کرو ،آپ کا ارشاد ہے "ذالک القرآن فاستنطقوہ ،ولن ينطق ،ولکن اخبرکم ،الا ان فيہ علم ما ياتي - يہ قرآن ہے اس سے سوال کرو تاکہ وہ تم سے کلام کرے وہ ہرگز کلام نہيں کرے گاليکن ميں ميں تمہيں بتاتاہوں، جان لوکہ قرآن ميں آيندہ کا علم ہے - ( جاری ہے )
source : tebyan