اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

نبی اکرم(ص) کی امام حسین (ع) محبت

حضرت رسول خدا (ص) اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مند
نبی اکرم(ص) کی امام حسین (ع) محبت

ضرت رسول خدا (ص) اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں : ۱۔جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول کا فرمان ہے :’’من اراد ان ینظرالیٰ سید شباب اھل الجنۃ فلینظرالیٰ الحسین بن علی[1]‘‘۔’’جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ حسین بن علی کے چہرے کو دیکھے‘‘۔

۲۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (ص)امام حسین ؑ کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :’’اللھم انی احِبُّہ فاحبّہ[2] ‘‘۔’’پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ‘‘۔

۳۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم (ص) کے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین ؑ سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام ؑ کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آؤ ادھرآؤیہاں تک کہ آپ نے امام حسین ؑ کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ہاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:’’حسین منی وانامن حسین،احب اللّٰہ من احب حسینا،حسین سبط من الاسباط[3]‘‘۔’’حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں خدایاجو حسین ؑ محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین ؑ بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ‘‘

یہ حدیث نبی اکرم (ص)اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکا سی کرتی ہے، لیکن اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ’’حسین منی ‘‘حسین مجھ سے ہے ‘‘اس سے نبی اور حسین ؑ کے مابین نسبی رابطہ مراد نہیں ہے چونکہ اس میں کو ئی فا ئدہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی گہری اور دقیق بات ہے کہ حسین ؑ نبی کی روح کے حا مل ہیں وہ معاشرۂ انسا نی کی اصلاح اور اس میں مسا وات کے قا ئل ہیں۔لیکن آپ کا یہ فرمان:’’وانا من حسین ‘‘’’اور میں حسین سے ہوں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندۂ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی حسین ؑ سے ہیں کیونکہ امام حسین ؑ نے ہی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رہا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ہلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین ؑ نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔

۴۔سلمان فا رسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین ؑ آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ہوئے فر ما رہے تھے :’’انت سیدُ بْنُ سَیَّد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَءِمَۃِ،وَاَنْتَ حُجَّۃُ اللّٰہِ وَابْنُ حُجَّتِہِ،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَۃٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُھُمْ قَاءِمُھُمْ[4]‘‘۔’’آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ‘‘۔

۵۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین ؑ کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ’’نِعم المرکب رکبت یاغلام ،فاجا بہ الرسول :’’ونعم الراکب ھُوَ[5]‘‘۔’’کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ (ص)نے جواب میں فرمایا:’’یہ سوار بہت اچھا ہے ‘‘۔

۶۔رسول اللہ کا فرمان ہے :’’ھذا(یعنی :الحسین ؑ )امام بن امام ابوائمۃٍ تسعۃٍ[6]‘‘۔’’یہ یعنی امام حسین ؑ امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں‘‘۔

۷۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکر م (ص) عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہراؑ کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین ؑ کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہ ؑ سے فر مایا:’’اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَاءَہُ یُوْذِیْنِیْ؟‘‘۔’’کیا تمھیں نہیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ‘‘۔

یہ وہ بعض احا دیث تھیں جو رسول اسلام (ص)نے اپنے بیٹے امام حسین ؑ سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرما ئی ہیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ہیں جو آپ ؑ نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ ؑ کے اقدار کی حفاظت کر نے والا تھا ۔
نبی (ص)کا امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر دینا

نبی (ص)نے اپنے نواسے امام حسین ؑ کی شہادت کواتنا بیان کیاکہ مسلمانوں کو امام حسین ؑ کی شہادت کا یقین ہوگیا۔ابن عباس سے روایت ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں کو ئی شک و شبہ ہی نہیں تھا اور اہل بیت نے متعدد مرتبہ بیان فر مایا کہ حسین بن علی ؑ کربلا کے میدان میں قتل کر دئے جا ئیں گے[7]۔آسمان سے نبی اکرم (ص) کو یہ خبر دی گئی کہ عنقریب تمہارے بیٹے پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ اگر وہ پہاڑوں پرپڑتے تو وہ پگھل جا تے ،آپ نے متعدد مرتبہ امام حسین ؑ کے لئے گریہ کیا اس سلسلہ میں ہم آپ کے سا منے کچھ احا دیث پیس کر تے ہیں :۱۔ام الفضل بنت حارث سے روایت ہے :میں امام حسین ؑ کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے رسول اللہ (ص) کی خد مت میں پہنچی جب آپ میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جا ری تھے ۔میں نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا مشکل پیش آگئی ہے ؟!’’اَتَانِیْ جبرئیلُ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلُ ابنِیْ ھَذَا‘‘میرے پا س جبرئیل آئے اور انھوں نے مجھ کو یہ خبر دی ہے کہ میری امت عنقریب اس کو قتل کردے گی ‘‘آپ نے امام حسین ؑ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فر مایا۔ام الفضل جزع و فزع کرتی ہو ئی کہنے لگی :اس کو یعنی حسین کو قتل کردے گی ؟

’’نَعَم،وَاَتَانِیْ جِبْرَءِیْلُ بِتُرْبَۃٍ مِنْ تُرْبَتِہِ حَمْرَاءَ[8] ‘‘۔’’ہاں ،جبرئیل نے مجھے اس کی تربت کی سرخ مٹی لا کر دی ہے ‘‘ام الفضل گریہ و بکا کرنے لگی اور رسول بھی ان کے حزن و غم میں شریک ہوگئے ۔

۲۔ام المو منین ام سلمہ سے روایت ہے :ایک رات رسول اللہ سونے کیلئے بستر پر لیٹ گئے تو آپ مضطرب ہوکر بیدار ہوگئے ،اس کے بعد پھر لیٹ گئے اور پہلے سے زیادہ مضطرب ہونے کی صورت میں پھر بیدار ہوگئے ،پھر لیٹ گئے اور پھر بیدار ہوگئے حالانکہ آپ کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ چوم رہے تھے [9]میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ یہ کیسی مٹی ہے ؟’’اَخْبَرَنِیْ جِبْرَءِیْلُ اَنَّ ھٰذَا(یعنی:الحسین ؑ )یُقْتَلُ بِاَرْضِ الْعِرَاقِ۔فَقُلْتُ لِجِبْرَءِیْلَ : اَرِنِیْ تُرْبَۃَ الْاَرْضِ الَّتِیْ یُقْتَلُ بِھَاْفَھٰذِہِ تُرْبَتُہُ[10] ‘‘’’مجھے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ اس (حسین ؑ )کو عراق کی سر زمین پر قتل کر دیا جا ئے گا ۔ میں نے جبرئیل سے عرض کیا :مجھے اس سر زمین کی مٹی دکھاؤ جس پر حسین قتل کیا جا ئے گا یہ اسی جگہ کی مٹی ہے ‘‘۔

۳۔ام سلمہ سے روایت ہے :ایک دن پیغمبر اکرم (ص)میرے گھر میں تشریف فر ما تھے تو آپ نے فر مایا:’’لا یدخُلنَّ عَلَیَّ اَحَدُ‘‘’’میرے پا س کوئی نہ آئے ‘‘میں نے انتظار کیا پس حسین آئے اور آپ کے پا س پہنچ گئے ،میں نے نبی کی آواز سنی ،حسین ان کی آغوش میں(یا پہلو میں بیٹھے ہوئے )تھے آپ حسین ؑ کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے گریہ کر رہے تھے ، میں نے آنحضرت (ص)کی خدمت میں عرض کیا: خداکی قسم مجھ کو پتہ بھی نہ چل سکا اور حسین ؑ آ پ کے پا س آگئے ۔

آنحضرتؐ نے مجھ سے فر مایا:’’اِنَّ جِبْرَءِیْلَ کَانَ مَعَنَافِیْ الْبَیْتِ فَقَالَ :اَتُحِبُّہُ ؟فَقُلْتُ : نَعَمْ۔فَقَالَ:اَمَااِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ بِاَرْضٍ یُقَالُ لَھَاکَرْبَلَاءُ ‘‘۔’’جبرئیل گھر میں ہمارے پاس تھے تو انھوں نے کہا :کیا آپ حسینؑ کو بہت زیادہ چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا :ہاں ۔ تو جبرئیل نے کہا :آگاہ ہو جاؤ ! عنقریب آپ کی امت اس کو کر بلا نا می جگہ پر قتل کر دے گی ‘‘،جبرئیل نے اس جگہ کی مٹی رسول (ص)کو لا کر دی جس کو نبی نے مجھے دکھایا[11]۔

۴۔عائشہ سے روایت ہے:امام حسین ؑ آنحضرت (ص)کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے آنحضرت (ص) کو نیچے جھکنے کی طرف اشارہ کیا اور امام حسین ؑ آپ کے کندھے پر سوار ہوگئے توجبرئیل نے کہا : ’’اے محمد! کیا آپ حسین ؑ سے محبت کرتے ہیں ؟‘‘آنحضرت (ص)نے فرمایا:کیوں نہیں ،کیا میں اپنے بیٹے سے محبت نہ کروں؟‘‘جبرئیل نے عرض کیا :آپ کی امت عنقریب آپ کے بعد اس کو قتل کردے گی ‘‘جبرئیل نے کچھ دیر کے بعد آپ کو سفید مٹی لا کر دی ۔

عرض کیا :اس سر زمین پر آپ کے فرزند کو قتل کیا جا ئے گا ،اور اس سر زمین کا نام کربلا ہے ‘‘ جب جبرئیل آنحضرت ؐ کے پاس سے چلے گئے تو وہ مٹی رسول اللہ (ص) کے دست مبارک میں تھی اور آپ نے گریہ وبکا کرتے ہوئے فرمایا:اے عائشہ !جبرئیل نے مجھ کو خبر دی ہے کہ آپ کے بیٹے حسین کو کربلا کے میدان میں قتل کردیا جا ئے گا اور عنقریب میرے بعد میری امت میں فتنہ برپا ہوگا ‘‘۔اس کے بعد نبی اکرم (ص)اپنے اصحاب کے پا س تشریف لے گئے جہاں پر حضرت علی ؑ ،ابو بکر ، عمر ، حذیفہ ،عمار اورابوذرموجود تھے حالانکہ آپ گریہ فر ما رہے تھے، تو اصحاب نے سوال کیا :یارسول اللہ آپ گریہ کیوں کر رہے ہیں ؟آپ نے فرمایا:مجھے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ میرافرزند حسین ؑ کربلا کے میدان میں قتل کردیا جائے گا اور مجھے یہ مٹی لا کر دی ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ ان کا مرقد بھی اسی زمین پر ہوگا[12] ‘‘۔

۵۔رسول خدا کی ایک زوجہ زینب بنت جحش سے مروی ہے :نبی اکرم (ص) محو خواب تھے اور حسین ؑ گھر میں آئے اور میں ان سے غافل رہی یہاں تک کہ نبی اکرم (ص) نے ان کو اپنے شکم پر بیٹھالیا اس کے بعد نبی اکر م (ص) نے نماز ادا کی تو ان کو ساتھ رکھایہاں تک کہ جب آپ رکوع اور سجدہ کرتے تھے تو اس کو اپنی پیٹھ پر سوار کرتے تھے اور جب قیام کی حالت میں ہوتے تھے تو ان کو اٹھالیتے تھے ،جب آپ بیٹھتے تھے تو ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھاکر دعا کرتے تھے جب نماز تمام ہو گئی تو میں نے آنحضرت سے عرض کیا :آج میں نے وہ چیزیں دیکھی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں ؟تو آپ نے فرمایا:’’جبرئیل نے میرے پاس آکر مجھے خبر دی کہ میرے بیٹے کو قتل کردیا جا ئیگا، میں نے عرض کیا: تو مجھے دکھائیے کہاں قتل کیا جائے گا؟تو آپ نے مجھے سرخ مٹی دکھا ئی[13] ‘‘۔

۶۔ابن عباس سے مروی ہے :حسین ؑ نبی کی آغوش میں تھے تو جبرئیل نے کہا :’’کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟‘‘آنحضرت نے فرمایا:’’میں کیسے اس سے محبت نہ کروں یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ‘‘۔جبرئیل نے کہا :’’بیشک آپ کی امت عنقریب اس کو قتل کر دے گی، کیا میں اس کی قبر کی جگہ کی مٹی دکھاؤں؟‘‘جب آپ (جبرئیل )نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سرخ مٹی تھی[14] ۔

۷۔ابو اُ مامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ص)نے اپنی ازواج سے فرمایا:اس بچہ کو رونے نہ دینا یعنی ’’حسین ؑ کو‘‘مروی ہے :ایک روز جبرئیل رسول اللہ کے پاس ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور رسول اللہ (ص) نے ام سلمہ سے فرمایا: ’’کسی کو میرے پاس گھر میں نہ آنے دینا‘‘،جب حسین ؑ گھر میں پہنچے اور نبی کو گھر میں دیکھا تو آپ ان کے پاس جانا ہی چا ہتے تھے کہ ام سلمہ نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کو تسکین دینے لگی جب آپ زیادہ ضد کرنے لگے تو آپ کو چھوڑ دیاامام حسین ؑ جا کر نبی کی آغوش میں بیٹھ گئے تو جبرئیل نے کہا :’’آپ کی امت عنقریب آ پ کے اس فرزندکو قتل کردے گی ؟‘‘۔’’میری امت اس کو قتل کردے گی حالانکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتی ہے ؟‘‘۔’’ہاں ،آپ کی امت اس کو قتل کردے گی۔جبرئیل نے رسول (ص) کواس جگہ کی مٹی دیتے ہوئے فرمایا: اس طرح کی جگہ پرقتل کیا جائے گا، رسول ؐاللہ (ص) حسین ؑ کو پیار کرتے ہوئے نکلے ،آپ بے انتہا مغموم و رنجیدہ تھے۔ام سلمہ نے خیال کیا کہ نبی اکرم (ص) ان کے پاس بچہ کے پہنچ جانے کی وجہ سے رنجیدہ ہوئے ہیں، لہٰذا ام سلمہ نے ان سے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،آپ ہی کا تو فرمان ہے : ’’میرے اس بچہ کو رونے نہ دینا ‘‘ اور آپ ہی نے تو مجھے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کے پاس کسی کو نہ آنے دوں،حسین آگئے تو میں نے ان کو آپ کے پاس آنے دیا،نبی اکرم (ص) کو ئی جواب دئے بغیر اپنے اصحاب کے پاس پہنچے اور آپ نے بڑے رنج و غم کے عالم میں ان سے فرمایا:’’میری امت اس کو قتل کردے گی ‘‘اورامام حسین ؑ کی طرف اشارہ فرمایا۔ابوبکر اور عمر دونوں نے آنحضرت کے پاس جا کر عرض کیا :اے نبی خدا !وہ مو من ہیں یعنی مسلمان ہیں ؟آپ ؐ نے فرمایا : ’’ہاں ،یہ اس جگہ کی مٹی ہے ۔‘‘

۸۔انس بن حارث سے مروی ہے :نبی اکرم (ص) نے فرمایا:’’میرا یہ فرزند (حسین ؑ کی طرف اشارہ کیا )کربلا نام کی سر زمین پر قتل کیا جا ئے گا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو وہ اس کی مدد کرے ‘‘ جب امام حسین ؑ کربلا کیلئے نکلے تو آپ کے ساتھ انس بھی تھے جو آپ کے سامنے کربلا کے میدان میں شہید ہوئے[15] ۔

۹۔ام سلمہ سے مروی ہے :امام حسن ؑ اورامام حسین ؑ دونوں میرے گھر میں رسول اللہ کے سامنے کھیل رہے تھے تو جبرئیل نے نازل ہو کر فر مایا:’’اے محمد !آپ کی امت آپ کے بعد آپ کے اس فرزند کو قتل کردے گی ‘‘اور حسین کی طرف اشارہ کیا آپ گریہ کرنے لگے ،حسین ؑ کو اپنے سینہ سے لگالیا آپ کے دست مبارک میں کچھ مٹی تھی جس کو آپ سونگھ رہے تھے ،اور فر مارہے تھے :’’کرب و بلا پر وائے ہو ‘‘آپ نے اس مٹی کو ام سلمہ کو دیتے ہوئے فرمایا:’’جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا فرزند قتل کردیا گیا ہے ‘‘ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک شیشہ میں رکھ دیا ،آپ ہر روز اس کا مشاہدہ کرتی اور کہتی تھیں کہ دن یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جا ئے گی وہ دن بہت ہی عظیم ہوگا[16]۔

۱۰۔نبی اکرم (ص) نے خواب میں دیکھا ایک کتا ان کے خون میں لوٹ رہا ہے ،تو آپ نے اس خواب کی یہ تعبیر فرما ئی: ایک برص کا مریض آپ کے بیٹے حسین ؑ کو قتل کرے گااور آپ کا یہ خواب حقیقی طور پر ثابت ہوا،آپ کے بیٹے حسین کو برص کے مرض میں مبتلا خبیث شمر بن ذی الجوشن نے قتل کیا[17]۔یہ بعض رویات تھیں جن میں نبی اکر م (ص) نے یہ اعلان فرما دیا تھا کہ آپ کے بیٹے امام حسین ؑ کو شہید کیا جا ئیگااور آپ اس دردناک واقعہ کی وجہ سے محزون و گریاں رہے۔

 حوالہ جات

[1] سیر اعلام النبلاء ،جلد ۳،صفحہ ۱۹۰۔تاریخ ابن عساکر خطی ،جلد ۱۳،صفحہ ۵۰۔

[2] مستدرک حاکم ،جلد ۳،صفحہ ۱۷۷۔نور الابصار، صفحہ ۱۲۹:اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ‘‘۔ ’’خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں‘‘

[3] سنن ابن ماجہ ،جلد ۱،صفحہ ۵۶۔مسند احمد، جلد ۴،صفحہ ۱۷۲۔اسد الغابہ، جلد ۲،صفحہ ۱۹۔تہذیب الکمال،صفحہ ۷۱۔تیسیر الوصول ،جلد ۳، صفحہ ۲۷۶۔مستدرک حاکم ،جلد ۳،صفحہ ۱۷۷۔

[4] حیاۃالامام حسین ؑ ، جلد ۱،صفحہ ۹۵۔

[5] تاجِ جامع للاصول ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۸۔

[6] منہاج السنۃ جلد ۴،صفحہ ۲۱۰۔،

[7] مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۱۷۹۔

[8] مستدرک حاکم ،جلد ۳،صفحہ۱۷۹۔

[9] شیعہ کربلا سے حاصل کی گئی مٹی پر سجدہ کرتے ہیں جس کو رسول اسلام ﷺنےچوماہے۔

[10] کنز العمال، جلد ۷،صفحہ ۱۰۶۔سیر اعلام النبلاء ، جلد ۳، صفحہ ۱۵۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۱۴۸۔

[11] کنز العمال ،جلد ۷،صفحہ ۱۰۶۔معجم کبیر طبرانی ،جلد ۳،صفحہ۱۰۶۔

[12] مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۸۷

[13] مجمع الزوائد ،جلد ۹، صفحہ ۱۸۹

[14] مجمع الزوائد ،جلد ۹ ،صفحہ ۱۹۱۔

[15] تاریخ ابن الوردی ،جلد ۱،صفحہ ۱۷۳۔۱۷۴۔

[16] معجم کبیر طبرانی ’’ترجمہ امام حسین ؑ ‘‘،جلد ۳،صفحہ ۱۰۸۔

[17] تاریخ خمیس ،جلد ۲، صفحہ ۳۳۴


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فرامین مولا علی۳۷۶ تا ۴۸۰(نھج البلاغہ میں)
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
انسانیت بنیاد یا عمارت
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
نقل حدیث پر پابندی کے نتائج
اسیرانِ اہلِبیت کی زندانِ شام سے رہائی جناب زینب ...
ہم فروع دین میں تقلید کیوں کریں ؟
خدا کے قہر و غضب سے غفلت
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
وحی کی اقسام

 
user comment