اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''

'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''

 

سید عقیل حیدر زیدی المشہدی

قرآن کریم کی قَسَموں کے حوالے سے گزشتہ مقالے میں ہم نے ''قرآن کریم میں قَسَموں کی أنواع '' کے عنوان سے گفتگو کا آغاز کیا تھا، لیکن بحث کی طوالت اور جگہ کی کمی کے پیشِ نظر ہم نے اِس بحث کو تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ '' قَسَم '' کی أنواع میں سے ایک نوع '' صریح اور ظاہر قَسَم ''کو ہم اپنے گزشتہ مقالہ میں بیان کر چکے ہیں، اِس مقالہ میں ہم قَسَم کی دوسری نوع '' غیر ِصریح و مُضمَر قَسَم ''اور اُسکی مختلف صورتوں کے بارے میں گفتگو کریں گے۔


ب : غیرِ صریح و مُضمَرقَسَم:


یہ قَسَم کی وہ نوع ہے، جو قَسَم کے لئے وضع کئے گئے اور رائج ألفاظ کے بغیر ہوتی ہے، اِس طرح سے کہ قَسَم کے أرکان (یعنی فعلِ قسم ، حروفِ قسم اور مُقْسَم بِہ) اصلاً ذکر نہیں کئے جاتے، اور خود تنہا اِس کلام سے معلوم نہیں ہوتا کہ متکلِّم نے یہاں قَسَم کھائی ہے، لیکن کلام کا مضمون قَسَم کے مقدَّر ہونے پر
دلالت کرتا ہے ١ ،


اور اِس طرح کی قَسَمیں قرآن کریم میں بہت زیادہ ہیں، جو یقینی طور پر بہت وسیع تحقیق اور جستجو کی نیازمند ہیں ، کیونکہ جہاں بھی کلام میں شدید اور بہت زیادہ تاکید پائی جاتی ہے، جیسے : لام ِ تاکید، جب نونِ تاکیدِ ثقیلہ کے ساتھ ہو، تو مفسِّرین وہاں پر قَسَم کو مقدَّر جانتے ہیں، یعنی ایسے تمام موارد میں لفظِ ''وَاللّٰہِ ''
تقدیراً موجود ہے۔


لیکن کیونکہ قَسَم کی یہ نوع ، قرآن کریم کی صریح اور ظاہری قسموں کی طرح ، شگفت آور، حیرت انگیز اور مختلف پہلوؤں کی حامل نہیں ہوتی، اسلئے ہم نے قَسَم کی اِس نوع (غیرِ صریح اور مُضْمَرقَسَم ) کے بارے میں زیادہ بحث و تحقیق انجام نہیں دی ہے، اور فقط قرآن کریم کی صریح و ظاہری قَسَموں کو مورد تحقیق و جستجو قرار دیا ہے۔


'' غیرِ صریح اور مُضمَر قَسَم '' بھی مزید دو صورتوںمیں تقسیم ہوتی ہے :


اوّل:


وہ قَسَم ہے، جس پر '' حرفِ لام '' دلالت کرتا ہے ، یہ '' لام '' یاتو حرفِ شرط ''اِنْ '' پر داخل ہوتا ہے ، یا ''قَدْ'' پر اور یا اُس فعلِ مضارع پر داخل ہوتا ہے، جو نونِ تاکید ِثقیلہ کے ساتھ ہو ، مفسِّرین تمام اِس طرح کے موارد میں '' قَسَم '' کو مقدَّر جانتے ہیں ، جیسے :


(لَئِنْ اُخْرِجُوْا لٰا یَخْرُجُوْنَ مَعَھُمْ وَ لَئِنْ قُوْتِلُوْا لٰا یَنْصُرُوْنَھُمْ۔۔۔) ٢


]منافقین ، مدینہ کے اہل کتاب سے اظہار ہمدردی اور ہمدلی کرتے ہوئے کہتے تھے ، اگر تمھیں شہر سے نکالا گیا ، توہم بھی تمھارے ساتھ شہر سے نکل جائیں گے ، اور اگر تمھارے ساتھ جنگ کی گئی تو ہم بھی تمھاری نصرت میں جنگ کریں گے اور تمھاری مدد کریں [۔ قرآن کریم نے فرمایا: ''وہ اگر نکال بھی دیئے گئے تو یہ اُنکے ساتھ نہ نکلیں گے اور اگر اُن سے جنگ کی گئی تو یہ ہرگز اُن کی مدد نہ کریں گے ''۔
(لَتُبْلَوُنَّ فی أَمْوٰالِکُمْ) ٣


'' یقینا تم کو مال کے ذریعہ آزمایا جائے گا '' اور(وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰاہ مَا لَہ فی الآخِرَةِ مِنْ خَلٰاقٍ ) ٤ '' اور وہ یقینا جانتے تھے کہ جو کوئی بھی یہ معاملہ کرے گا ، اُسکا آخرت میں اصلاً کوئی حصّہ نہ ہوگا''۔


اِن تمام آیات سے قَسَم (مُقْسَم بِہ) حذف ہوئی ہے ، اور '' وَاللّٰہِ'' تقدیراً موجود ہے ،اور یہ لام جو کبھی حرف شرط '' اِنْ '' پر داخل ہوتا ہے ،جیسے : '' لَئِنْ''اِس کو '' لامِ مُوَطَّئَة یا لامِ مُؤَذَّنَة ''کہتے ہیں ، کیونکہ یہ لام ، سننے والے کو جوابِ قسم کیلئے آمادہ و تیار کرتا ہے یا یہ اعلان کرتا ہے کہ اِس کے بعد آنے والا کلام ، جوابِ


قسم ہے ، نہ کہ جوابِ شرط و جزاء ، اور اِس لا م کی وجہ سے جواب ِ قسم ، جوابِ شرط (جزاء ) سے مشتبہ نہیں ہوتا ہے۔٥


''محقِّق سید رضی الدین استرآبادی '' بیان کرتے ہیں : ''جس جگہ بھی قَسَم حذف ہو اور اُسے مقدَّر قرار دیا گیا ہو ، وہاں یہ ''لام'' جس کو ''لامِ مُوَطَّئَہ'' کہتے ہیں ، لایا جاتا ہے تاکہ قَسَم کے مقدَّر ہونے پر دلالت کرے ،ا ور یہ بتائے کہ یہ جواب ، جوابِ قسم ہے نہ کہ مذکورہ شرط کا جواب ، اور یہ ''لام'' وہی ''لامِ تاکید '' ہے کہ جو نونِ تاکیدِ ثقیلہ کی طرح جوابِ قسم پر آتا ہے ، اور کیونکہ یہ دونوں تاکید کا فائدہ دیتے ہیں ، اُسی طرح کی تاکید ، جس کا قَسَم بھی فائدہ دیتی ہے ، البتَّہ کبھی یہ ''لامِ مُوَطَّئَہ '' بھی نہیں لایا جاتا ، اِس کے باوجود بھی قسم مقدَّر ہوتی ہے ، جیسے :


(وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ ) ٦


'' اور اگر تم لوگوں نے اُنکی اطاعت کرلی تو تمھارا شمار بھی مشرکین میں ہو جائے گا ''


اِس آیت میں اگرچہ حرف شرط ''اِنْ '' پر ''لامِ مُوَطَّئَہ''نہیں آیا ہے، پھر بھی قسم تقدیراً موجود ہے۔٧
ابن ہشام بھی اس آیت :
(وَ اِنْ لَمْ یَنْتَھُوْا عَمّٰا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذٰاب اَلِیم)٨
'' اگر وہ اپنی اِس گفتار ( خداؤں کی تثلیث ) سے باز نہ آئے تو اُن میں سے کفر اختیار کرنے والوں کو دردناک عذاب آئے گا ''کے مورد میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ جواب ، جوابِ قسم کے علاوہ کچھ اور نہیںہے ، اگرچہ حرف شرط پر ''لامِ مُوَطَّئَہ '' نہیں آیا ہے۔٩


سؤال یہ ہے کہ کیوں مفسِّرین نے '' لامِ مُوَطَّئَة '' کے ساتھ '' قَسَم '' کو مقدَّر جانا ہے؟


اِسکا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی چند آیات میں '' قَسَم '' کھانے کی بات ہوئی ہے ، اور اِس '' لامِ مُوَطَّئَة '' سے پہلے ، خود فعلِ قَسَم یا اُسکا کوئی قائم مقام فعل ذکر نہیں ہوا ہے، جیسے :


(وَ أَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَأَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جٰآئَھُمْ نَذِیْر لَیَکُوْنُنَّ أَھْدَیٰ مِنْ اِحْدیٰ الاُمَم)١٠
'' مشرکینِ عرب نے اللہ کی محکم اور پختہ قَسَم کھائی کہ اگر اللہ کی طرف سے اُنکی ہدایت کے لئے ڈرانے والا کوئی پیغمبر آیا ، تو وہ یہود و نصاریٰ کی اُمّتوں میں سے ہر ایک سے بہتر ہدایت پائیں گے''۔


یہ آیت اور اِسکی مانند دیگر آیات میں جملہ ''لَئِنْ جٰآئَھُم '' یا اِسکی مانند کوئی اور جملہ، اِس بات پر گواہ ہے کہ یہ ہی جملہ وہ قَسَم ہے ، جس کو اُنھوں نے قَسَم کے طور پر کھایا ہے۔


دوم:


غیر صریح قَسَم کی دوسری نوع ، وہ قسم ہے کہ جو فعلِ قسم سے مشابہ ألفاظ کے ساتھ کھائی جاتی ہے ، اور یہ ألفاظ خواہ أسماء ہوں یا أفعال ، فعلِ قَسَم کے قائمِ مقام قرار پاتے ہیں، نحوی اصطلاح میں اِن ألفاظ کو ، جن کے ذریعہ قسم کھائی جاتی ہے ، فعلِ قسم کہتے ہیں ، اگرچہ حقیقت میں یہ ألفاظ ہمیشہ فعل نہیں ہوتے ، بلکہ کبھی اسم ہوتے ہیں اور کبھی فعل ، لیکن کیونکہ زیادہ تر فعل ہوتے ہیں ، اس لئے غالب حکم کوجاری کیا گیا ہے۔١١


قرآن کریم میں بھی بہت سے ألفاظ (أسماء اور أفعال ) صریح فعلِ قسم کی جگہ ذکر ہوئے ہیں، اور خود جوابِ قسم کے علاوہ کوئی اور چیز ، اِس بات پر دلیل نہیں ہے ، کہ یہاں قَسَم موجود ہے ، اور یہ ٔالفاظ ، فعلِ قسم کا قائم مقام قرار پائے ہیں ، اگرچہ یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ یہاں فعلِ قسم مقدَّر ہو، اور یہ
ٔالفاظ ، اُس فعلِ قسم کے حذف ہونے پر قرینہ ہوں ، لیکن کسی چیز کا حذف ہونا ، اصل کے خلاف ہے ، اسلئے بہتر یہی ہے کہ اِنہی موجود ألفاظ کو فعلِ قسم سے مشابہ اور قَسَم پر دلالت کرنے والا قرار دیں۔


''جلال الدین سیوطی '' اِس طرح کی غیر صریح قَسَموں کو ، ایسی قَسَم سے تعبیر کرتے ہیں کہ خود جس کا معنیٰ ، اُسکے قسم ہونے پر دلالت کرے ، جیسے : (وَ اِنْ مِنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھٰا)١٢


'' اور تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے ، جو جھنم میں داخل نہ ہو ( اور اُس سے عبور نہ کرے )''


'اور کیونکہ یہ کلام تاکید اور حصر پر دلالت کرتا ہے ، اسلئے ''وَاللّٰہِ '' کو مقدَّر مانا گیا ہے۔١٣


وہ ألفاظ جو'' قَسَم'' کا قائم مقام قرار پاتے ہیں ، اُن میں سے بعض ، کافی زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور اِس لحاظ سے صریح فعلِ قسم کے نزدیک ہیں ، اور بعض بہت ہی کم استعمال ہوتے ہیں ،اور اِس قلّت کی وجہ سے اسلوبِ قسم سے شمار نہیں ہوتے ہیں ، نیز اِن ألفاظ میں سے بعض ، قرآن کریم اور اُس کے غیر میں بھی استعمال ہوئے ہیں ، اور بعض فقط قرآن کریم میں آئے ہیں ، اور بعض اصلاً قرآن میں استعمال نہیں ہوئے ہیں ، پس اِس جہت سے یہ ألفاظ ، مختلف نوعیت کے حامل ہیں۔١٤


یہاں پر ہم فقط اُن ألفاظ کو ، جو قرآن کریم میں '' فعلِ قَسَم '' کی جگہ استعمال ہوئے ہیں ، بطورِ اختصار بیان کرتے ہیں :


بعض محقِّقین فعلِ ''شَھِدَ ''اور '' عَمْر ، یَمِیْن اور اِیْلٰائ '' کے ألفاظ کو ، فعلِ قسم سے مشابہ ألفاظ میں شمار کرتے ہیں ، اور اِن مذکورہ ألفاظ کو قسم کے معنی میں صریح نہیں جانتے ہیں ، اور یہ بھی اِن ألفاظ کے اسلوبِ قسم میں قلّتِ استعمال کی وجہ سے ہے ، کیونکہ لفظِ '' عَمْر'' فقط ایکبار سورۂ حجر ، آیت 72


میں ، اور اِسی طرح لفظِ ''یَمِیْن'' بھی ایک ہی بار سورۂ قلم ، آیت 39میں بطورِ جمع(أَیْمٰان)''قسم '' کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ، اور لفظِ ''اِیْلٰاء ''کے ساتھ (فعل کی صورت میں ) قرآن کریم میں دوبار قسم کھائی گئی ہے١٥
اِس بارے میں ہم تفصیلی بحث '' قرآن کریم میں قسم کے الفاظ '' کے عنوان سے گذشتہ مقالہ میں بیان کر چکے ہیں۔


قرآن کریم میں '' فعلِ قَسَم سے مشابہ ألفاظ '' کا استعمال


'' مِیْثٰاقاور مَوْثِق '' دونوں کا معنیٰ '' عہد و پیمان '' ہے اور کیونکہ عہد و پیمان معمولاً قَسَم کے ساتھ ہوتے ہیں ، اسلئے یہ دونوں لفظ بھی فعلِ قسم کی جگہ قرار پاتے ہیں ، اور قرآن کریم میں بھی چند موارد میں قسم کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں ، جیسے :


( وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثٰاقَ الَّذیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰابَ لَتُبَیِّنَنَّہ لِلنّٰاسِ وَ لٰا تَکْتُمُوْنَہ)١٦


'' اور جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے ، جن کو کتاب دی گئی ، یہ پیمان لیا کہ اِس کتاب آسمانی کے حقائق کو لوگوں کیلئے بیان کرو گے ، اور اُنکو نہیں چھپاؤ گے '' ، اور اِسی طرح قرآن میں حضرت یعقوب کا قول حکایت ہوا ہے کہ :
(قٰالَ لَنْ اُرْسِلَہ مَعَکُمْ حَتّٰی تُوْتُوْنِ مَوْثِقًا مِنَ اللّٰہِ لَتَأْتُنَّنی بِہ) ١٧


'' حضرت یعقوب نے کہا : میں یوسف کو تمھارے ساتھ ہرگز نہیں بھیجوں گا، جب تک تم میرے لئے خدا سے عہد و پیمان نہ کرو کہ اُس کو میرے پاس واپس لاؤ گے''۔


لفظِ'' حَقّ '' بھی فعلِ قسم کی جگہ قائم مقام ہوتا ہے ، لفظِ ''حَقّ '' کے بارے میں، جو فقط ایک بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے ، دو احتمال ہیں :


اول:
یہ لفظ آیت شریفہ : ( قٰالَ فَالْحَقُّ وَ الْحَقَّ اَقُوْلُ لَأَمْلَأَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ أَجْمَعِیْنَ) ١٨
'' اللہ تعالیٰ نے (شیطان کے جواب میں ) فرمایا : حق کی قسم ، اور میرا کلام حق و حقیقت پر مبنی ہے ، کہ میں جہنّم کو تیرے اور تیرے تمام پیروکاروں سے ضرور بھر ونگا '' ۔میں فعلِ قسم کا قائم مقام نہیں ہے، بلکہ کلام میں لفظِ ''اَلْحَقُّ'' مُقْسَم بِہ واقع ہوا ہے (یعنی اِس کے ساتھ قَسَم کھائی گئی ہے )، اور فعلِ قسم تقدیراً موجود ہے ، جواِسطرح ہے ،


''أُقْسِمُ بِالْحَقِّ وَ الْحَقَّ أَقُوْلُ''۔


دوم:


خود لفظِ ''اَلْحَقُّ'' ہی قائم مقام فعلِ قسم ہے اور یہ اُس وقت ہے کہ ''حَقّ '' کو دونوں مورد میں مرفوع پڑھا جائے یعنی تقدیراً اس طرح ہو جائے گا ، '' فَالْحَقُّ مِنّی وَ الْحَقُّ أَقُوْلُ '' اور یا '' فَالْحَقُّ وَ الْحَقُّ أَقُوْلُ''اِس دوسری صورت میں '' فَالْحَقُّ'' مبتداء ہے اور اِسکی خبر محذوف ہے ، اور دوسرا '' حَقّ '' بھی مبتداء ہے اور '' أَقُوْلُ


'' جملہ فعلیہ اُسکی خبر ہے۔١٩


لفظِ'' جَرَمَ '' بھی فعلِ قسم کی جگہ قائم مقام واقع ہوتا ہے ،لفظِ ''لٰا جَرَمَ '''' جیم'' کے کسرہ اور ضمّہ اور ''راء '' کے سکون کے ساتھ بھی آیا ہے ، جیسے : '' لاجِرْمَاور لا جُرْمَ ' ' اوراِس لفظ کا معنیٰ '' یقینا ، ضروری ہے ،اور حتماً اِسی طرح ہے '' کے ہیں۔٢٠


یہ لفظ قرآن کریم میں پانچ مقامات پر استعمال ہوا ہے ، ٢١ ،


لیکن کسی بھی مقام پر قسم کے معنی کو نہیں دیتا ، اور فعلِ قسم کا قائم مقام نہیں ہوا ہے ، کیونکہ اِن تمام موارد میں قرائتِ مشہور کے مطابق لفظِ '' لٰا جَرَمَ'' کے بعد '' أَنََّّ'' ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ آیا ہے اور یہ لفظ ہمزہ کے کسرہ ''اِنََّّ'' کی صورت میں فعلِ قسم کا قائم مقام ہوتا ہے ، اسلئے کہ اِس صورت میں '' اِنَّ'' اوراِسکا ما بعد ، جوابِ قسم شمار ہوتے ہیں ، اور '' لٰا جَرَمَ'' اُس جملۂ جوابِ قسم کے ساتھ ملکر جملہ قسمیہ بن جاتا ہے۔


البتّہ فقط ایک مورد میں حسن اور عیسیٰ ابن عمران کی قرائت کی رُو سے '' اِنََّّ '' کا ہمزہ مکسور قرائت ہوا ہے (لٰاجَرَمَ أَنَّ لَھُمُ النّٰارَ) ٢٢


'' یقینا اُن کا انجام آتش جھنم ہے''۔ اور اِس احتمال کی بناء پر یہ لفظ ''لٰا جَرَمَ'' فعلِ قسم کا قائم مقام ہو جاتا ہے۔٢٣


''عَلِمَ'' اور ''شَھِدَ''اور اِن دونوں سے مشتق افعال بھی فعلِ قسم کا قائم مقام قرار پاتے ہیں ، یہ دونوں لفظ اور اِن سے مشتق ألفاظ ، قرآن کریم میں بہ کثرت استعمال ہوئے ہیں ، لیکن یہ ألفاظ بعض موارد میں قسم کا معنیٰ دیتے ہیں اور یہ اُس جگہ ہوتا ہے کہ اِنکے بعد ''اِنََّّ'' کا ہمزہ مکسور ہو ، اور جوابِ ''اِنَّ'' پر لامِ تاکید داخل ہوا ہو۔


جیسے : (وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّھُمْ لَمُحْضَرُوْنَ) ٢٤


''اور یقینا جنات یہ جانتے ہیں کہ وہ حساب و کتاب کیلئے حاضر (اور محشور ) کئے جائینگے ''، اور


(وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰافِقِیْنَ لَکٰاذِبُوْنَ)٢٥


''اور اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بہت جھوٹے ہیں''۔


''جلال الدین سیوطی'' بیان کرتے ہیں: '' قَسَم سے غرض اُس خبر کی تاکید و تحقیق ہوتی ہے جو خبر جوابِ قسم میں پائی جاتی ہے ، اسلئے نحویوں نے لفظِ ''شَھِدَ'' کو بہت سی آیات میں فعلِ قسم کی جگہ جاری کیا ہے ، جیسے :


(وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰافِقِیْنَ لَکٰاذِبُوْنَ)٢٦


'' اور اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بہت زیادہ جھوٹے ہیں''،اگرچہ اِس آیت میں شہادت اور گواہی کی خبر ہے ،


لیکن کیونکہ یہ گواہی منافقین کے جھوٹے ہونے کی خبر کی تاکید و تحقیق کیلئے آئی ہے ، اسلئے اُنھوں نے اِسے بھی '' قَسَم '' کا نام دیا ہے۔٢٧


''جار اللہ محمود زمخشری '' اِسی آیت کے صدر


(قٰالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ) ( سورہ منافقون ، آیت 1)


'' منافقین کہتے ہیں : ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ (اے محمَّد) تم اللہ کے رسول ہو '' ،


میں منافقین کی اِس شہادت اور گواہی کے بارے میں لکھتے ہیں : '' ممکن ہے اِس گواہی سے مرادجھوٹی قَسَم ہو ، کیونکہ یہاں اِس گواہی سے مراد '' قَسَم '' ہے ، اسلئے کہ تاکید کو بیان کرتی ہے ، اور جس مورد میں بھی فعلِ ''شَھِدَ'' تاکید کا فائدہ دے ، فعلِ قسم کا قائم مقام واقع ہوتا ہے۔٢٨


اِس لفظ کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ لفظِ ''شَھِدَ'' ہر جگہ قَسَم کا فائدہ نہیں دیتا ، بلکہ اُس صورت میں قسم کے معنی کا فائدہ دیتا ہے کہ جب اِس فعلِ ' 'شَھِدَ'' کے بعد ''اِنَّ''کا ہمزہ مکسور ہو ، اور '' اِنَّ '' کی خبر پر لام تاکید داخل ہوا ہو ، اور اِس بات پر گواہ سورۂ بقرہ کی آیت 185 ہے ، کہ اِس آیت میں یہ لفظ ،قَسَم کے معنیٰ کا فائدہ نہیں دیتا ہے : (فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہ ۔۔۔)


'' پس تم میں سے جو بھی اِس ماہ (رمضان) کو درک کرے ، اُسے چاہیے کہ اِس ماہ کے روزے رکھے ۔۔۔ ''


لیکن اُس مورد میں جہاں لفظِ '' شَھِدَ '' '' قَسَم '' کے معنی کا فائدہ دیتا ہے ، اسلئے ہے کہ یہ لفظ ''شَھِدَ '' بھی ''قَسَم '' کی طرح ، کسی خبر کے حتمی اور قطعی ہونے کو بیان کرتا ہے ، پس دونوں لفظ معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں ، اِن دو الفاظ کا فعلِ قسم کی جگہ قائم مقام ہونا ، اس وجہ سے ہے کہ:یہ دونوں لفظ '' یقین اور قطع '' کا معنی دیتے ہیں اور یہ ''یقین اور قطع ''تاکید کے اعلیٰ مراتب سے ہے ، کہ جس کا فائدہ قسم سے بھی حاصل ہوتا ہے ، لہٰذا یہ دونوں لفظ فعلِ قسم کی جگہ قرار پاتے ہیں اور اِسی طرح کی تاکید کا فائدہ دیتے ہیں ۔٢٩


'' بدر الدین الزرکشی'' ، '' شھادت '' کے مورد میں قائل ہے کہ '' شھادت '' قسم کے معنی میں آتی ہے ، اور اپنی اِس بات کیلئے سورۂ منافقون کی آیت:(قٰالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ) کو بعد کی آیت : (اِتَّخَذُوْآ أَیْمٰانَھُمْ جُنَّةً) ٣٠


''اُن منافقین نے اپنی جھوٹی قسموں کو اپنے لئے ڈھال بنایا ہوا ہے ''، سے استدلال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنکی اِس شہادت و گواہی کو یمین (قسم ) سے تعبیر کیا ہے۔٣١


''عبدا لحمید الفراہی '' بھی اِس بات کا قائل ہے کہ خود قرآن کریم کی تصریح کے مطابق ، شھادت و گواہی ، یمین اور قسم کے معنیٰ میں ہیں ، اور پھر وہ اپنی اِس بات کے ثابت کرنے کیلئے یہ استدلال کرتا ہے کہ حکمِ لعان کے رفع اور ختم کرنے کیلئے جو قسمیں ( شوہر اور بیوی کی طرف سے) کھائی جاتی ہیں ، قرآن کریم نے اُن قسموں کو شہادت سے تعبیر کیا ہے، ٣٢ اور دونوں (شوہر اور بیوی) کی طرف سے قسم کھانے کے بعد ، دونوں سے لعان کی حدّ ساقط ہو جاتی ہے۔٣٣


'' عَھَد اور عٰاھَدَ '' کے ألفاظ بھی فعلِ قسم کا قائم مقام بنتے ہیں ، لیکن لفظِ ''عَھَد'' قرآن کریم میں قَسَم کے اسلوب میں استعمال نہیں ہوا ہے ، البتّہ لفظِ ''عٰاھَدَ '' اور اُسکی جمع قرآن میں اسلوبِ قسم میں واقع ہوئی ہیں ، جیسے : (وَ مِنْھُمْ مَنْ عَاھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ آتٰانٰا مِنْ فَضْلِہ لَنَصَّدَّقَنَّ) ٣٤


'' اور اُن ( منافقین )سے بعض نے خدا سے یہ عہد کیا کہ اگر خدا نے اپنے فضل و کرم سے انہیں کوئی نعمت دی ، تو وہ ضرور ( پیغمبر اکرم ۖکی) تصدیق کریں گے '' ، اور یہ جملہ ''لَنَصَّدَّقَنَّ''جوابِ قسم ہے ، نہ کہ جوابِ شرط ، اور جوابِ شرط ، اِس جوابِ قسم کے قرینے کی وجہ سے حذف ہو گیا ہے۔٣٥
بعض دوسرے أفعال ، جیسے :


'' وَعَدَ ، کََتَبَ ، قَضَیٰ ، تَأَذَّنَ اور تَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ ''


بھی فعل قسم کا قائم مقام قرار پاتے ہیں ٣٦ ،


اوریہ ألفاظ شدید تاکید کا فائدہ دیتے ہیں ، ہم نے پہلے بیان کیا کہ ان فعلِ قسم کی جگہ قائم مقام ہونے والے الفاظ کے بارے میں دو احتمال ہیں ، یہاں بھی بعض ، فعلِ قسم کے مقدَّر ہونے کو بہتر جانتے ہیں۔
''زمخشری '' فعلِ '' قَضَیٰ'' کے مورد میں لکھتا ہے: ''کیونکہ یہ فعل ایک مقام سے زیادہ ، قسم کے اسلوب میں استعمال نہیں ہوا ہے: (وَ قَضَیْنٰا اِلٰی بَنی اِسْرٰائیْلَ فی الْکِتٰابِ لَتُفْسِدُنَّ فی الْاَرْضِ مَرَّتَیْن ِ۔۔۔ )٣٧


'' اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو خبر دی کہ تم بنی اسرائیل دوبار ضرور زمین میں فساد برپا کرو گے ''۔ اسلئے بہتر یہ ہے کہ فعلِ قسم کو محذوف اور مقدَّر قرار دیں۔٣٨


لیکن دوسرے بعض اِن ہی موجودہ أفعال کو فعلِ قسم کا قائم مقام جانتے ہیں، کیونکہ حذف اور تقدیر خلافِ اصل ہے، اور یہ أفعال یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ُاسی تاکید کا فائدہ دیں، جس کے لئے قسم کھائی جاتی ہے، پس خود یہی أفعال، قسم اور یقین کا معنی دیتے ہیں۔٣٩


غیرِ صریح اور مُضْمَر قَسَم کی یہ دونوں صورتیں ( لامِ مؤطَّئہ کا قسم کے ہونے پر دلالت کرنا یا فعلِ قسم کے قائم مقام ألفاظ سے قسم کھانا) ہماری قرآن کریم کی قسموں کی تحقیقات کے دائرہ کار سے باہر ہیں ، کیونکہ اِس تحقیق میں ہماری نظر'' مُقْسَم بِہ''اور ''مُقْسَم عَلَیْہِ'' (یعنی قرآن کریم میں جن چیزوں کے ساتھ قَسَم کھائی گئی ہے اور جن چیزوں کے ثابت کرنے کے لئے قَسَم کھائی گئی ہے ) اور اِن دونوں کے درمیان ارتباط و تعلّق کی جانب ہو گی، جو اللہ تعالیٰ کی صریح اور ظاہری قسموں میں انسان کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرتے ہیں ، کیونکہ اِن قسموں میں ''مُقْسَم بِہ''اللہ تعالیٰ کے خلق کئے ہوئے ، وہ موجودات ہیں ، جن میں جذابیت اور شگوفائی پائی جاتی ہے، اور ہر پڑھنے ، سننے والے کی توجّہ اور فکر کو اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں۔ (جاری ہے) (وَالسَّلٰامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدیٰ)


منابع
١ ۔ علی ابو القاسم عون ، اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم، اللیبیّة ، منشورات جامعة الفاتح ، ١٩٩٢م ، ص١٢٤ ؛ منّاع القطان ، مَبٰاحِث فی عُلُوْمِ الْقُرآنِ، الطبعة الرابعة ، بیروت ، مؤسَّسة الرسالة ، ١٣٩٦ق ، ص ٢٩٣ ؛ شعبان محمد اسماعیل ، اَلْمَدْخَلُ لِدِرٰاسَةِ الْقُرآنِ وَ السُّنَّةِ وَ الْعُلُوْمِ الْاِسْلٰامِیَّةَ، ج١، الطبعة الاُولیٰ
، مصر ، دار الانصار ، ١٤٠٠ ق ، ص ٥٠٢
٢ ۔ سورۂ حشر ، آیت ١٢
٣ ۔ سورۂ آل عمران ، آیت ١٨٦
٤ ۔ سورۂ بقرہ ، آیت ١٠٢
٥۔ رجوع کریں : سید رضی الدین استرآبادی ، شَرْحُ الرَّضی عَلیٰ الْکٰافِیَةِ ، ج ٢،بدونِ مقام ، المکتبة المرتضویة لاِحیاء الآثار الجعفریة ، بدونِ تاریخ ، ص ٣٣٨ تا ٣٤٠
٦ ۔ سورۂ انعام ، آیت ١٢١
٧ ۔ شَرْحُ الرَّضی عَلیٰ الْکٰافِیَةِ ، ج 2،گزشتہ ، ص ٣٣٨ تا ٣٤٠
٨ ۔ سورۂ مائدہ ، آیت ٧٣
٩ ۔ عبداللہ ابن یوسف الانصاری ، معروف بہ ابن ہشام ، مُغْنِیُ الْلَبِیْبِ عَنْ کُتُبِ الْأَعٰارِیْبِ ، ج ٢، بیروت ، دار احیاء التراث العربی ، بدونِ تاریخ ، ص ١٢٣
١٠ ۔ سورۂ فاطر ، آیت ٤٢ ؛ نیز رجوع کریں:سورۂ انعام ، آیت ١٠٩ ؛ سورہ توبہ ، آیت ٤٢ اور ٧٥ ؛ سورۂ آل عمران ، آیت ١٨٧ ؛ اور سورۂ نور ، آیت ٥٣
١١ ۔ رجوع کریں : محمد المختار السلامی ،اَلْقَسَمُ فی الْلُغَةِ وَ فی الْقُرآنِ ، الطبعة الاُولیٰ ، بیروت ، دار الغرب الاسلامی ، ١٩٩٩ ء ، ص ٤٥
١٢ ۔ سورۂ مریم ، آیت ٧١
١٣ ۔ جلال الدین عبد الرحمٰن ا لسیوطی ، اَلْاِتْقٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ ، ج ٤، تحقیق : محمد ابو الفضل ابراھیم ، منشورات الشریف الرضی ، بیدار عزیزی ، ص ٥٦
١٤ ۔ رجوع کریں : اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم ، گزشتہ ، ص ١٦٦
١٥ ۔ رجوع کریں : سورۂ بقرہ ، آیت ٢٢٦ ؛ سورۂ نور ، آیت ٢٢
١٦ ۔ سورۂ آل عمران ، آیت ١٨٧؛ نیز رجوع کریں : سورۂ بقرہ ، آیت ٨٣-٨٤ ؛سورہ ٔ آل عمران ، آیت ٨١
١٧ ۔ سورۂ یوسف ، آیت ٦٦
١٨۔ سورۂ ص ، آیت ٨٤-٨٥
١٩ ۔ رجوع کریں : اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْمِ ، گزشتہ ، ص ١١٩ اور ١٤٧ ؛ ابو حیان اندلسی ،اَلْبَحْرُ الْمُحِیْطُ فی التَّفْسِیْرِ، ج ٧، بیروت ، دار الفکر ، ١٤١٢ہجری قمری ، ص ٤١١ ؛
بدر الدین الزرکشی ، اَلْبُرْھٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ ، ج ٣ ، تعلیق : مصطفی عبد القادر عطا ، الطبعة الاُولیٰ ، بیروت ، دار الفکر ، ١٤٠٨ق (١٩٨٨ئ) ، ص ٥٠
٢٠۔ ابو زکریا یحییٰ ابن زیاد الفرّاء ، مَعٰانی الْقُرْآنِ ، ج ٢، تحقیق : الدکتور عبد الفتاح اسماعیل شبلی ، طبعہ اول ، تہران ، انتشارات ناصر خسرو ، بدونِ تاریخ ، ص ٨
٢١ ۔ رجوع کریں : سورۂ ھود ، آیت ٢٢؛ سورۂ نحل ، آیت ٢٣، آیت ٦٢ اور آیت ١٠٩ ؛ سورۂ غافر ، آیت ٤٣
٢٢ ۔ سورۂ نحل ، آیت ٦٢
٢٣ ۔ اَلْبَحْرُ الْمُحِیْطُ فی التَّفْسِیْرِ ، ج٦ ، گزشتہ ، ص ٥٥١
٢٤ ۔ سورۂ صافات ، آیت ١٥٨ ؛ نیز رجوع کریں : سورۂ منافقون ، آیت ١؛ سورۂ توبہ ، آیت ٤٢ ؛ سورۂ یٰسین ، آیت ١٦
٢٥ ۔ سورۂ منافقون ، آیت ١ ؛ نیز رجوع کریں : سورۂ حشر ، آیت ١١؛ سورۂ توبہ ، آیت ١٠٧؛ سورۂ نور ، آیت ٦ تا ٩
٢٦ ۔ سورۂ منافقون ، آیت ١
٢٧ ۔ اَلْاِتْقٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآن ، ج٤، گزشتہ ، ص ٥٣
٢٨ ۔ جار اللہ محمود ابن عمر الزمخشری ، اَلْکَشّٰافُ عَنْ حَقٰائِقِ التَّنْزِیْلِ وَ عُیُوْنِ الْأَقٰاوِیْلِ فی وُجُوْہِ التَّأْوِیْلِ ، ج ٤، بیروت ، دار الفکر ، بدونِ تاریخ ، ص١٠٧
٢٩ ۔ اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْمِ ، گزشتہ ، ص ١٥٩- ١٦٠
٣٠ ۔ سورۂ منافقون ، آیت ٢
٣١ ۔ بدر الدین محمد ابن عبد اللہ الزرکشی ، اَلْبُرْھٰانُ فی عُلُوْمِ الْقُرْآنِ ، ج 3،تعلیق : مصطفی عبد القادر عطا، الطبعة الاُولیٰ ، بیروت ، دار الفکر ، ١٤٠٨ ق =١٩٨٨ء ، ص ٤٩-٥٠؛ نیز رجوع کریں : عبد الحمید الفراہی ، أَمْعٰان فی أَقْسٰامِ الْقُرْآنِ ، القاہرة ، المطبعة السلفیة و مکتبتھا ، ١٣٤٩ق= ١٩٣٠ء ، ص ٢٣
٣٢ ۔ رجوع کریں : سورۂ نور ، آیت 6تا 9
٣٣ ۔ أَمْعٰان فی أَقْسٰامِ الْقُرْآنِ، گزشتہ، ص ٢٣؛ نیز رجوع کریں : محمد ابن جریر الطبری ، جٰامِعُ الْبَیٰانِ عَنْ تَأْوِیْلِ آیِ الْقُرْآن ، ج ٧ ، بیروت ، دار الفکر ، ١٤١٥ ق ، ص ١٦٠؛ اور ج١٨، ص ١٠٨
٣٤ ۔ سورۂ توبہ ، آیت ٧٥ ؛ نیز رجوع کریں : سورۂ احزاب ، آیت ١٥
٣٥ ۔ رجوع کریں : سلیمان ابن عمر العجیلی ، اَلْفُتُوْحٰاتُ الْاِلٰھِیَّةُ ، ج٢، ص ٣٠١؛ نقل از اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم ، گزشتہ ، ص١٦١
٣٦ ۔ رجوع کریں : سورہ نور ، آیت ٥٥ ؛ سورہ مجادلہ ، آیت ٢١ ؛ سورہ انعام ، آیت ١٢ اور ٥٤؛ سورہ اسراء ، آیت ٤ ؛ سورہ اعراف ، آیت ١٦٧ ؛ سورہ ابراہیم ، آیت ٧؛ اور سورہ ھود ، آیت ١١٩
٣٧ ۔ سورۂ اسراء ، آیت٤
٣٨ ۔ اَلْکَشّٰافُ عَنْ حَقٰائِقِ التَّنْزِیْلِ وَ عُیُوْنِ الْأَقٰاوِیْلِ فی وُجُوْہِ التَّأْوِیْل ، ج ٢، گزشتہ ، ص ٤٣٨
٣٩ ۔رجوع کریں : اُسْلُوْبُ الْقَسَمِ وَ اِجْتِمٰاعُہ مَعَ الشَّرْطِ فی رِحٰابِ الْقُرآنِ الْکَرِیْم ، گزشتہ ، ص ١٦٢ اور ١٦٦

 


source : www.rizvia.ne
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام اور ایمان میں فرق
فدک
فاتح شام،حضرت زینب
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
دینِ میں “محبت“ کی اہمیت
امام جعفر صادق کے ہاں ادب کي تعريف
حضرت عباس(ع) کی زندگی کا جائزہ
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اے انسان ! تجھے حوادث روزگار کي کيا خبر ؟

 
user comment