حضرت ابوالفضل العباس بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) 4 شعبان سن 26 ھ کو عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (1) ۔آپ کی کنیت " ابوالفضل" ہے. آپ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت حزام "ام البنین" کے نام سے مشہور ہیں۔
عزاداری اسلام کی شاہرگ حیات ہے اور عزاداری کو خرافات اور توہمات سے بھرنے کے لئے دشمنوں کی سرمایہ کاری کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ دین اسلام کو زندہ رکھنے کا وسیلہ ہے جیسا کہ کربلا کا واقعہ دین کی حیات نو کا وسیلہ بن گیا اور علامہ اقبال نے کہا کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زنده ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مگر اگر عزاداری کو ہدف اور مقصد قرار دیا جائے !
عزاداریوں کو بامقصد ہونا چاہئے؛ اگر عزاداری کا ہدف اور اس کی سمت کھو جائے تو اس کا کوئی مثبت اثر نه ہوگا حتی ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوجائیں.
سوال یہ ہے کہ عزاداری کا کیا ہدف ہوسکتا ہے؟ عزاداری میں ہدف کی شناخت کے لئے سب سے پہلے عزا اور مصیبت کے مالک کی فکر اور ہدف و نیت کی شناخت ضروری ہے. تا کہ اگر اس صاحب عزا کے لئے عزاداری کرنی ہو تو اسی کی فکر کے حصول کی خاطر عزاداری ترتیب دی جائے.
قرآن کا فرمان ہے: "یا ایها الذین آمنوا كونوا انصار الله كما قال عیسی ابن مریم للحواریین من انصاری الی الله قال الحواریون نحن انصار الله"
(صف/ 14)
اے ایمان والو! خدا کے انصار و مددگار بنو جیسا کہ عیسی بن مریم (ع) نے حوارئین سے کہا: خدا کی جانب میرا مددگار کون ہے؟ تو حواریون نے کہا: ہم خدا کے مددگار ہیں.
آیت کا پیغام اور خدا کی بات یہ ہے کہ آؤ اور خدا کے دوست اور مددگار بنو اور خدا کے لئے کچھ کرو. اس کے بعد خداوند متعال شاہد مثال بھی لاتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم حضرت عیسی (ع) کے حوارئین کی طرح بن جاؤ کہ جب حضرت عیسی نے مدد طلب کی تو وه فوراً ان کی مدد کے لئے اٹھے.
یہ جو حواریون نے جواب میں کہا کہ «نحن انصار الله = ہم خدا کے مددگار ہیں» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر کی مدد ہر زمانے میں در حقیقت خدا کی مدد ہے اور اس قاعدے کے مطابق ہر زمانے میں امام کی مدد خدا ہی کی مدد ہے.
اس آیت کے علاوه امام حسین علیہ السلام کی ندا بھی عاشورا کے روز نصرت کی ندا تھی اور آپ نے فرمایا: «هل من ناصر ینصرنی = کیا کوئی ہے جو میری مدد کرے؟». مدد طلب کرنے سے امام علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ حقیقی اسلام عملی صورت اپنائے اور ظلم و شر و فساد کی بیخ کنی ہو اور اس ہدف کا حصول دوسروں سے مدد مانگے بغیر ممکن نہیں ہے.
چنانچہ خدا کی ندا کا مطلب مددگار حاصل کرنا ہے؛ تمام انبیاء اور ائمہ کی ندا بھی مددگار اور ناصر و یار و یاور کا حصول ہے. امام زمان عج کی آج کی ندا بھی وہی امام حسین علیہ السلام کی ندا ہے جو فرمایا کرتے تھے کہ «هل من ناصر ینصرنی. "
اب ہم جو عزاداری کی مجالس برپا کرتے ہیں ان مجالس سے ہمارا ہدف امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد ہونی چاہئے اسی راه میں جس کا آپ (ع) نے آغاز کیا تھا. عزاداری کا مقصد و ہدف امام حسین علیہ السلام کے اهداف اور افکار کو عمل جامہ پہنانا، ہونا چاہئے. یہ مقصدیت عزاداری کی مجالس کے انعقاد میں سب سے زیاده اہمیت رکھتی ہے اور عزاداری کے مضامین اور شکل و صورت - یعنی اس کے دو دیگر پہلؤوں - کو سمت دیتی ہے اور ان پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان کی کیفیت کو بدل دیتی ہے.
عزاداریوں کی یہی مقصدیت ہے جو انقلاب سے قبل انقلاب کی کامیابی کا باعث ہوئی کیونکہ لوگ دیکھ رہے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ اگر وه حسینی کام انجام دینا چاہتے ہیں تو انہیں طاغوت کے خلاف لڑنا پڑے گا. اس زمانے میں شاه اور حکومتی سرکردگان یزیدیوں کی شکل میں مجسم ہوئے تھے چنانچہ ان کے خلاف جدوجہد حسینی عمل سمجھا جاتا تھا.
لہذا، عزاداری ایک اونچے اور زیاده اہم ہدف و مقصد تک پہنچنے کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہے. لیکن کئی مرتبہ عزاداری کا فلسفہ بھلادیا جاتا ہے اور عزاداری تمہید اور وسیله بننے کی بجائے ہدف و مقصد بن جاتا ہے یعنی عزاداری بذات خود مقدس ہوجاتی ہے اور عزاداری کی مجالس ہدف بن جاتی ہیں اور ایسے وقت عزاداری کا قیام صرف عزاداری کے لئے ہوتا ہے. عزاداری برائے عزاداری۔ اور یہاں عزاداری امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے مقصد سے نہیں ہوتی. (جس کی ہمیں امام حسین علیہ السلام نے دعوت دی ہے اور اس قسم کی عزاداری خطرناک ہے).
سوال: اس قسم کی عزاداری کا خطره کیا ہے؟
اہم خطره یہ ہے کہ عزادار سوچنے لگتے ہیں کہ آخری مرحلہ یہی ہے. کیونکہ عزاداری خود ہدف میں تبدیل ہوگئی ہے چنانچہ عزاداری کا قیام آخری مرحلہ تصور کیا جاتا ہے اور جب سوچتے ہیں کہ یہ انتہائی ہدف ہے تو وه پھر آگے بڑھنے کا نہیں سوچتے بلکہ عزاداری ہی میں تنوع اور رنگارنگی پیدا کردیتے ہیں اور عزاداری ارتقاء اور عمودی کمال کی بجائے سطحی اور افقی شکل میں پھیل جاتی ہے اور جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے تو عزاداری کی قسموں اور شکلوں میں روز بروز زیاده سے زیاده اضافہ ہوتا ہے.
اس سے قبل سینہ زنی کرتے تھے اب پاؤں اور ٹانگوں پر ماتم کرتے ہیں؛ اس سے قبل لباس پہن کر ماتم کرتے تھے اب ننگی ہوکر ماتم کرتے ہیں؛ اس سے قبل ہاتھوں سے ماتم کرتے تھے اب بلیڈوں، تلواروں، چھریوں اور قمہ کا ماتم کرتے ہیں.
جب عزاداری ہدف میں بدل جائے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہا جاتا بلکہ رلانے کے لئے بولا جاتا ہے. اس کے بعد جو کچھ بولا جاتا ہے انسانوں کو سوچنے پر آماده نہیں کرتا بلکہ ان کے جذبات کو بہکایا جاتا ہے اور مشتعل کیا جاتا ہے. مجلس پڑھنے والے واعظ و مداح و ذاکر یہ نہیں کہتے کہ امام حسین (ع) کیوں قتل ہوئے بلکہ کہتے ہیں کہ کیسے قتل ہوئے. ایسے حال میں یہ نہیں کہا جاتا کہ امام حسین علیہ السلام تاسوعا اور عاشورا سے پہلے بھی تھے اور اس سے پہلے بھی آپ (ع) کا کردار تھا.
جب عزاداری خود ہی ہدف میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس بارے میں کوئی بحث نہیں ہوتی کہ امام حسین علیہ السلام کا ہدف کیا تھا؛ امام حسین (ع) نے کیا کہا اور امام حسین علیہ السلام نے کیسے عمل کیا!. ایسے حال میں اس موضوع کے بارے میں بات نہیں ہوتی کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کیسے آئے اور انہوں نے اس امر کا انتخاب کس طرح کیا؟ بلکہ صرف آپ (ع) کے قتل ہونے کی کیفیت پر بات ہوتی ہے. حرّ کس طرح قتل ہوئے؛ جون کس طرح مارے گئے؛ علی اکبر اور حضرت ابوالفضل کس طرح قتل ہوئے اور علی اصغر کس طرح شہید ہوئے.
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی ایسی عزاداری میں محض حزن انگیز جذبات و احساسات کو ابھارنا مقصد ہوتا ہے؛ ایسی صورت میں اس موضوع کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے کہ حضرت زینب سلام الله علیہا نے کس طرح پامردی دکھائی اور کس طرح کوفہ و شام میں خطبے پڑھے اور اہل کوفہ و شام اور ابن زیاد اور یزید اور عام لوگوں سے مخاطب ہوکر بیبی نے کیا فرمایا؟ بلکہ کہا جاتا ہے کہ بیبی کا قد خمیده ہوگیا تھا اور بوڑھی عورتوں کی طرح چلتی تھیں.
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی فکر پر بحث نہیں ہوتی جسم و بدن کی تصویر کشی ہوتی ہے، قد و قامت، بال اور بازو اور چشم و ابرو کی توصیف ہوتی ہے. یہ ہے وہ اہم خطره آج ہماری عزاداری جس کا سامنا کررہی ہے یعنی عزاداری کا بےمقصد ہوجانا. لاکھوں خرچ کئے جاتے ہیں، گهنٹوں وقت صرف کیا جاتا ہے مگر فائده کم ملتا ہے اور حتی بعض عزاداریوں میں سے تو بعض غیردینی چیزیں تک برآمد ہوتی ہیں!.
عزاداری کے مضامین:
عزاداری جب برائے عزاداری ہو اور عزاداری کا مقصد جب کھوگیا ہو تو اس کا پہلا اثر عزاداری کے مضامین پر مرتب ہوتا ہے. امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت والی عزاداری اور عزاداری برائے عزاداری میں بہت فرق ہے. درج بالا سطور میں اس فرق کے بعض نمونے بیان کئے گئے اور یہاں بھی ہم ان ہی نمونوں کی طرف اشاره کرتے ہیں. جب عزاداری کا ہدف کھویا ہوا ہو اور عزاداری تمہید کا مقام چھوڑ کر ہدف کے مقام پر مستقر ہوگی تو جو چیزیں رونما ہوتی ہیں بہت باعث افسوس اور دردناک ہیں. عزادار سوچتے ہیں کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں چلے جائیں اور آنسو بہائیں تھوڑی سے ماتم داری کریں اور دستہ روانہ کریں یا قمہزنی کریں تو بس کام ختم ہے. یہ لوگ عزاداری ختم ہوتے ہی عزاداری ہی کے سلسلے میں اپنے لئے کسی اور کام اور فریضے کے قائل نہیں ہوتے اور بہت آسانی کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور کلی طور پر بھول جاتے ہیں کہ کس طرح سینکڑوں بار انہوں نے حسین حسین کہہ کر ماتم کیا تھا!.
سوال: یہ "حسین - حسین" وه کہاں بھول جاتے ہیں؟ ٭٭٭
جب عزاداری ختم ہوتی ہے اور یہ حضرات دیکھتے ہیں کہ معاشرتی برائیوں میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے تو یہ حضرات اپنے عمل پر غور نہیں کرتے کہ کیا ان مسائل کا ان سے بھی کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہت سی چیزوں کے سامنے خاموش ہیں اور یہ حضرات جنہوں نے دس روز یا دو مہینوں تک عزاداری کی ہے، ان کی عزاداری سے قبل اور بعد کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور حتی ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا. حالانکہ حسین - حسین کہنے والوں اور حسین - حسین نه کہنے والوں میں فرق ہونا چاہئے.
ان حضرات کی اکثریت - افسوس کہ - معاشرے کے سماجی مسائل کو توجه نہیں دیتے؛ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے مسائل پر لمحہ بھر غور و تأمل نہیں کرتے؛ حالانکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت اور آپ (ع) کی روح اصلاح، تنویر افکار اور امور و مسائل کی بہتری سے عبارت ہے مگر یہ روح یہ جذبہ اور یہ سیرت ان مجالس میں عزاداران حسین (ع) کی طرف منتقل نہیں ہوتی. کیوں کہ عزاداری برائے عزاداری - کے فلسفے - میں ائمہ علیہم السلام کے قلوب کی تسلی کے لئے زیاده سے زیاده جس چیز کی ضرورت ہے وه رونے اور سر و سینہ پیٹنے سے زیاده کچھ نہیں ہے.
لیکن عزاادری برای نصرت حسین (ع) میں جو چیز نہ صرف ائمہ علیہم السلام کے قلوب کی تسلی کے لئے اور خدا کی رضا اور آدم سے خاتم تک کے انبیاء کے قلوب کی تسلی کے لئے ضروری ہے وه یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد میں سے کسی ایک مقصد و ہدف کو عملی صورت دی جائے.
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو اس میں عزاداروں کی تربیت اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ وہ کس طرح وجد و شوق میں آتے ہیں؛ اپنے سروں اور چہروں کو کس طرح پیٹتے ہیں اور کس طرح ہمصدا ہوجاتے ہیں اور منظم ہوکر ماتم کرتے ہیں؛ لیکن جب عزاداری نصرت حسین (ع) کے لئے ہوگی تو اس مین کارناموں کی تخلیق کرنے والے، معاشره شناس، دین شناس اور وقت شناس افراد کی تربیت ہوتی ہے ایسے لوگوں کی تربیت ہوتی ہے جو آج کی تاریخ میں اثر گزار ہوں.
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو قمہزنی اور زنجیر زنی کی روشوں اور اس کے فوائد پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے لیکن عزاداری جب امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت کے لئے ہوگی تو گھنٹوں تک امام حسین علیہ السلام کے افکار پر بحث ہوتی ہے اس امید کےساتھ کہ شاید یہ افکار لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرلیں اور دلوں میں منزل بنادیں. امام حسین علیه السلام چاہتے ہیں کہ ایسے افراد کو ڈھونڈا جائے اور ان کی تربیت کی جائے جو آپ (ع) کے افکار کو اخذ کریں اور آج کی دنیا میں ان افکار سے استفاده کریں.
عزاداری کی کیفیت
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو عزاداری کے مضامین میں بھی فرق آتا ہے اور اس کے تسلسل میں عزاداری کی شکل اور کیفیت میں بھی فرق آتا ہے. عزاداری زیاده وسعت پاتی ہے مگر اس کے مضامین اور معانی و مفاہیم گھٹ جاتے ہیں. عَلَموں اور پرچموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور طبل و سنج کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور جذبات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے اور سینہ زنی میں شدت آتی ہے اور تیغ زنی اور قمہ زنی اور زنجیرزنی میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ گلے میں پٹے باندھے جاتے ہیں اور عوعو کی صدائیں نکالتے ہیں، کربلا میں ہوں تو حرم کی طرف سینے کے بل رینگ رینگ کر جاتے ہیں اور دسیوں دیگر اعمال بجالاتے ہیں (جن کی دنیا کے معقول ترین مذہب یعنی تشیع میں کوئی گنجائش نہیں ہے)۔
جب عزاداری ہدف میں بدل جائے تو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کچھ بھی نہیں کہا جاتا بلکہ رلانے کے لئے بولا جاتا ہے. اس کے بعد جو کچھ بولا جاتا ہے انسانوں کو سوچنے پر آمادہ نہیں کرتا بلکہ ان کے جذبات کو بہکایا جاتا ہے اور مشتعل کیا جاتا ہے. مجلس پڑھنے والے واعظ و مداح و ذاکر یہ نہیں کہتے کہ امام حسین (ع) کیوں قتل ہوئے بلکہ کہتے ہیں کہ کیسے قتل ہوئے. ایسے حال میں یہ نہیں کہا جاتا کہ امام حسین علیہ السلام تاسوعا اور عاشورا سے پہلے بھی تھے اور اس سے پہلے بھی آپ (ع) کا کردار تھا.
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو اس میں منتہائے مقصد چونکہ عزاداری ہی ہے تو اس میں تنوع اور رنگارنگی اپنے عروج کو پہنچتی ہے کیونکہ یہی منتہائے مقصد ہے اور جو کچھ بھی ممکن ہو یہیں انجام دینا چاہئے. اس قسم کی عزاداری کا چونکہ بعد کا کوئی مرحلہ نہیں ہے اور کوئی بھی ایسا کام نہیں ہے جو بعد میں انجام دیا جاسکے لہذا تمام تر کوشش اور سوچ و فکر اس کی رنگارنگی اور تنوع (Variety) میں صرف ہوتی ہے.
مگر اگر عزاداری امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے ہو تو عزاداری کی شکل و صورت نہایت باوقار اور آرام و سکون کے ہمراہ ہوتی ہے. ممکن ہے کوئی فرد ایسی عزاداری میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت نہ گذارے لیکن نکلتے ہوئے وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ اگر اسے حسینی بننا ہے تو بہت سے کام کرنے پڑیں گے (کیونکہ اس عزاداری کا اختتام یہیں نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد کے مراحل بھی ہیں اور وہ مراحل درحقیقت حسینی اہداف کے حصول کی کوششیں ہیں جو عزادار حسین (ع) کی ذمہ داریوں کے زمرے میں آتے ہیں). وہ چونکہ جہان شناس اور وقت شناس ہے لہذا (اہل دانش علماء کی تقریر اور آگاہ و پابند دین شعراء کے اشعار سن کر ان کے کلام کے مفہوم و معانی میں غور و فکر کرکے) جب باہر نکلتا ہے تو انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلوں اور ذرائع ابلاغ کی طرف رجوع کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ: 1- اگر امام حسین علیہ السلام ہماری آج کی دنیا میں ہوتے تو کن مسائل و امور کی طرف توجہ دیتے؟
2- آج کی دنیا میں امام حسین علیہ السلام کے افکار کو کس طرح نافذ کیا جاسکتا ہے.
ان سوالات کے جوابات کئی گھنٹوں تک سر و سینہ پیٹنے، زنجیر زنی اور قمہ زنی اور دیگر افعال اور انواع ماتم سے ہرگز باہر نہیں آتے بلکہ اس کے لئے مہینوں اور برسوں کے مطالعے اور تحقیق اور کوشش و جہاد کی ضرورت ہے.
عزاداری جب برائے عزاداری ہوگی تو عزاداری کا وقت ماہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ اور صفر کا آخری عشرہ ہے مگر عزاداری نصرت امام حسین علیہ السلام کے لئے ہو تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تمام دن عزاداری کے ایام ہیں (اور «کل یوم عاشورا اور کل ارض کربلا» ایسی ہی عزاداری کا ثبوت ہے). کیونکہ اتنا کام زمین پر پڑا ہے اور امام حسین علیہ السلام کے اہداف کے حصول کے لئے اتنی کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے کہ سال کے تمام کے تمام اوقات میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا جائز نہیں ہے.
نتیجہ:
خالص حسینی عزاداری نہ صرف رائج عزاداری سے زیادہ وسیع اور عریض ہے بلکہ اس میں لذت روح کا احساس رائج عزاداری سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس میں آپ کچھ کر گذرتے ہیں اور آپ کے کام کا کوئی نتیجہ ہوتا ہے جس کے بارے میں سوچ کر روحانی لذت محسوس ہوتی ہے۔ یہ عزاداری اس عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے ہو تو انسان کو کبھی تو یہاں تک احساس ہوتا ہے کہ گویا کربلائیوں کی صف میں کھڑے ہوئے ہیں اور یزیدیت کے علمبردار آپ کو دیکھ کر کانپ رہے ہیں کیونکہ اس قسم کی عزاداری کا مقصد اگر ایک طرف سے حسینیت کی ترویج و خدمت ہے تو دوسری طرف سے یزیدیت کی رسوائی کا بھی سامان کرنا ہے۔ گو کہ اس عزاداری میں البتہ بے شمار حدود اور قیود کی رعایت بھی ہوتی ہے. اگر ہمارا ہدف یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے مکتب کی توسیع و ترویج ہو تو بہت سے معیاروں کا لحاظ رکھنا پڑے گا مگر اگر ہدف صرف دستے روانہ کرنا اور مجلس آرائی ہو تو یہ پھر ہماری بحث کا موضوع ہی نہیں ہے۔
تم پر خدا كا سلام ہو اور مقرب ملائكہ ، انبياء مرسلين اور صالح بندوں كا درود ہو آپ پر اے فرزند اميرالمومنين(ع)
زيارت صرف ايك ورد نہيں ہے جس كو زبان سے دہرايا جائے بلكہ يہ تفكر ہے ۔ ان نوراني كلمات كے درميان معرفت كا ايك دريان موجزن ہے جو سب كو اپني طرف دعوت ديتا ہے ۔
زيارتوں كا آغاز درود وسلام سے ہوتا ہے ، اس كا آغاز عالم ہستي كي سب سے مقدس ذات سے ہوتا ہے جس ميں خداوند عالم سے لے كر ملائكہ مقرب ، انبياء اوصيا، اور صالح بندے سب شامل ہيں اور اس درود كا مخاطب بھي خدا كے بندوں ميں سے ايك صالح بندہ ہے ۔ مكتب كربلا كا سب سے ممتاز شاگرد ۔
اشهد انك بالتسليم و التصديق و الوفاء و النصيحة لخلف النبي
ميں گواہي ديتا ہوں كہ آپ نے جانشين پيغمبر كي تصديق كي ، ان كے سامنے سر تسليم خم كيا اور حق وفا ادا كر ديا ۔
اگر زائر كا سلام صدق دل اور خلوص نيت كے ساتھ ہو تو شہادت كے يہ كلمات اس كے دل و جان سے جاري ہوتے ہيں ۔
زيارت ميں زائر اپنے اعتقادات كي تصديق كرتا ہے اور حضرت ابوالفضل العباس(ع) كي زيارت مٰيں ان كي وفاداري كا اقرار كرتا ہے اور كربلا كے اس تشنہ لب سپاہي كي خير خواہي كي تصديق كرتا ہے ۔ ولي خدا كے سامنے تسليم و رضا كي صفت حضرت ابوالفضل العباس (ع) كي ذات مٰيں موجزن ہے اور يہ ساري صفات زائر كي آنكھوں كے سامنے ايك مكمل نمونہ عمل كو پيش كرتي ہيں ۔ زيارت كا مقصد معرفت كا حصول اور دل كي كشادگي ہے ۔
source : abna