ہر چیز کا اپنے مقصد اور انتہا کی طرف پلٹنا، اور یہ ”عادالیہ “ کا مصدرھے جس طرح کھاجاتا ھے: ”یعود عوداً وعودةً ومعاداً“ یعنی اس کی طرف رجوع کیا اور اس کی طرف پہنچ گیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:
'' کَمَا بَدَاٴَکُمْ تَعُودُونَ ''
”جس طرح اس نے تمھیں شروع (شروع) میں پیدا کیا تھا اسی طرح پھر (دوبارہ) زندہ کئے (اور لوٹائے) جاوٴ گے۔ “
اور یہ بنفسہ متعدی بھی ھوجاتا ھے،اور ھمزہ کے ذریعہ بھی متعدی بناتے ھیں، یعنی باب افعال میں لے جا کر متعدی بناتے ھیں جیسے: ”عاد الشیءَ عوداً وعِیادا“، ”واعدتُ الشیء “یعنی میں نے اس کو دوبارہ بنا دیا، یا اس کو دوبارہ پلٹا دیا۔ جیسا کہ خداوندعالم کا قول ھے:
'' ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیہَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا''
”پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے) نکال کھڑا کرے گا“۔
معاد کی اصل ”مَعْود“ بر وزن ”مَفْعل“ھے جس کے واو کو الف سے بدل دیا گیا، اس کی بہت سی مثالیں بھی ھیں جیسے مقام اور مراح، جس کو حضرت امیر المومنین علیہ الصلاة والسلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ھے:
”والحکم اللہ والمعود الیہ القیامة “
”مَفْعل“ اور اس سے مشتق بمعنی عَود مصدر صحیح میں استعمال ھوتا ھے،اور معاد (عود) اسم زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ھوتا ھے جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
'' إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ''
” اے رسول خدا ) جس نے تم پر قرآن نازل کیا ضرور ٹھکانے تک پہنچا دے گا “۔
اور جیسا کہ حدیث میں وارد ھوا ھے:
” واصلح لی آخرتی التی فیھامعاد ي“۔
” پالنے والے میری آخرت کی اصلاح فرما، جہاں مجھے پلٹ کر جانا ھے“۔
”مبدیٴ المعید“ خدا کے صفات میں سے ایک صفت ھے ، کیونکہ خداوندعالم نے تمام مخلوقات کو زندگی دی اس کے بعد ان کو موت دے گا اور پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:
'' وَہُوَ الَّذِی یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ اٴَہْوَنُ عَلَیْہِ ''
”اور وہ ایسا (قادر مطلق) ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ھے پھر دوبارہ (قیامت کے دن )پیدا کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ھے“۔
صادقین ڈاٹ کام
source : tebyan