بلاشبہ جدا ہے ليکن ايسے نعروں سے تحريک ميں جوش اور جذبہ باقي نہيں رہتا ہے - واقعا جب ہم امام کے صريح اعلان کے ساتھ ان نعروں کو رکھيں کہ جنہوں نے سينتيس سال قبل قيام کيا اور اس طرح بلند آواز ميں فرمايا :
" ميں نے اب اپنے دل کو تمہارے سپاہيوں کے نيزوں کي نوکوں کے ليۓ حاضر کر ديا ہے ليکن تمہارے ظلم و ستم کے مقابلے ميں خضوع اور زبردستيوں کو ماننے کے ليۓ حاضر نہيں کروں گا "
يا امام کي اس تاريخي اور ہلا دينے والي عبارت کہ جس ميں انہوں نے فرمايا :
" خميني کو اگر پکڑيں اور ماريں بھي ، وہ تفاھم نہيں کرے گا "
اور يہ تاريخي کلام اور فرياد کو درحققيت جسے انہوں نے استکبار کے قلب ميں پيوستہ کر ديا ، ان دنوں کہ جب کسي کو يہ جرات نہيں تھي کہ امريکہ کي طرف بري آنکھ سے ديکھے اور حتي ايران ميں امريکہ ايجنٹوں کي تھوڑي سي مخالف رکھے -
" آج ہمارا واسطہ ان خبيثوں سے ہے ، امريکہ سے ہے ، امريکہ صدر يہ جان لے ، اس معني کو جان لے کہ ہماري ملت کے سامنے وہ قابل نفرت ترين فرد ہے ، ہماري ملت کي نظر ميں وہ دنيا کے قابل نفرت ترين انسانوں ميں سے ہے - "
ايک دوسرا نکتہ جو جناب الغنوشي کے بيانات اور تجزيوں ميں قابل توجہ ہے وہ يہ ہے کہ ان کے خيال ميں بعض اسلامي تحريکوں نے اپنے تکميلي مراحل ميں مذھبي روشن فکر لوگوں کي طرف سے بہت نقصان اٹھايا ہے - بالکل يہ ايک خطرہ ہے جس سے ہمارے انقلاب کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہے - وہ اس بات کا معتقد ہے کہ " مذھبي روشن فکروں کا وجود ايک جديد پديدہ ہے ، انہوں نے مغربي مدارس يعني ان لوگوں کے مدارس ميں جو مسلمان علاقوں پر حملے کرتے ہيں ، تعليم حاصل کي ہے اور اسي وجہ سے لوگ ان پر عدم اطمينان کا اظہار کرتے ہيں - " ( جاري ہے )
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
source : tebyan