اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

وجود خدا بدیھی ھے قرآن میں بداھت وجود خدا

عام طور پر کتب فلسفہ وکلام میں سے بحث کا آغاز”اثبات وجود خدا“ سے ھوتا ھے اور کوشش کی جاتی ھے کہ مختلف استدلالات و براھین کے ذریعہ ثابت کیا جائے کہ ”اس کائنات کا ایک خالق ھے جو خود کسی کی مخلوق نہیں ھے۔ لیکن آسما
وجود خدا بدیھی ھے قرآن میں بداھت وجود خدا

عام طور پر کتب فلسفہ وکلام میں سے بحث کا آغاز”اثبات وجود خدا“ سے ھوتا ھے اور کوشش کی جاتی ھے کہ مختلف استدلالات و براھین کے ذریعہ ثابت کیا جائے کہ ”اس کائنات کا ایک خالق ھے جو خود کسی کی مخلوق نہیں ھے۔

لیکن آسمانی کتابوں مخصوصاً قرآن کریم میں مبحث خداشناسی، ایک دوسرے انداز سے پیش کیا گیا ھے۔ ان کتابوں میں ندرت کے ساتھ ھی ایسی عبارتیں نظر آتی ھیں جو براہ راست اثبات اصل ھستی خدا سے بحث کرتی ھیں۔ گویا اصل وجود خدا، ا یک روشن وواضح حقیقت اور امر مسلم ھے جس میں کسی شک و تردید کی قطعاً کوئی گنجائش نھیں ھے۔

مفسر عالی مرتبت علامہ طباطبائی اپنی معرکة الآراء تفسیر، تفسیرالمیزان میں اس نکتے پر نھایت تاکید کرتے ھیں کہ قرآن کریم نے وجود خدا وند متعال کو واضح وبدیھی شمار کیاھے کہ جس کی تصدیق واثبات کے لئے کسی دلیل یا برھان کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ اگر دلیل و استدلال کی ضرورت ھے تو فقط اس کی صفات کے لئے مانند وحدت، خالقیت، علم و قدرت و غیرہ۔

علامہٴ مرحوم کے مطابق کلمہٴ اسلامی ”لا الٰہ الا الله“ کہ جو اسلام اور تعلیمات قرآن کریم کا لب لباب ھے، میں اس جملہ کے فقط سلبی حصے کو دلیل کی ضرورت ھے (یعنی الله کے سوا کوئی الله ھی نھیں ھے) ورنہ اس کا اثباتی جنبہ (یعنی الله موجود ھے) بدیھی اور دلیل و استدلال سے بے نیاز ھے۔

قرآن کریم کی منطق اصل وجود خدا کے بارے میں مندرجہ ذیل ھے:

”اٴفی الله شک“ یعنی آیا وجود خدا کے بارے میں کوئی شک یا تردید ھے؟!


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی ...
اطاعت و وفا کے پیکر علمدار کربلا کی ولادت با سعادت
قرآن و علم
فاطمہ، ماں کي خالي جگہ
خلاصہ خطبہ غدیر
امام علی(ع)اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا ...
امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض
امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام

 
user comment