اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

دوسروں کی تقلید یا اپنی ثقافت پر فخر کریں

ایک مصری دانشور کہتا ہے کہ جب میں فرانس میں زیر تعلیم تھا تو ماہ رمضان میں ایک پروگرام میں شرکت کی، کالج کے پرنسپل نے میرے سامنے سگریٹ پیش کی تو میں نے معذرت کر لی،اس نے وجہ دریافت کی تو میں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں روزہ سے ہوں،اس نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم بھی ان خرافات کے پابند ہو گے،پروگرام کے بعد ایک ہندوستانی پروفیسر نے جو اس پروگرام میں شریک تھے مجھ سے کہا کہ کل فلاں مقام پر مجھ سے ملاقات کرلینا، اگلے روز میں پروفیسر سے ملاقات کے لئے
دوسروں کی تقلید یا اپنی ثقافت پر فخر کریں

ایک مصری دانشور کہتا ہے کہ جب میں فرانس میں زیر تعلیم تھا تو ماہ رمضان میں ایک پروگرام میں شرکت کی، کالج کے پرنسپل نے میرے سامنے سگریٹ پیش کی تو میں نے معذرت کر لی،اس نے وجہ دریافت کی تو میں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں روزہ سے ہوں،اس نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم بھی ان خرافات کے پابند ہو گے،پروگرام کے بعد ایک ہندوستانی پروفیسر نے جو اس پروگرام میں شریک تھے مجھ سے کہا کہ کل فلاں مقام پر مجھ سے ملاقات کرلینا، اگلے روز میں پروفیسر سے ملاقات کے لئے گیا وہ مجھے چرچ لے گئے اور دوسرے ایک شخص کو دکھا کر پوچھا، پہچانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا ہمارے پرنسپل ہیں، پروفیسر نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا عبادت میں مشغول ہیں،پروفیسر نے کہا یہ لوگ ہمیں تو دینی آداب و رسوم ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود پابندی کے ساتھ مذہبی امور بجا لاتے ہیں۔یہ خطرناک بیماری جو اغیار اور سامراجی طاقتوں کے پروپیگنڈہ کے ذریعہ ہمارے اندر پھیلتی جا رہی ہے اوران کی صنعتی ترقی سے مرعوب ہو کر ہم اپنی کمزوری کا احساس کرنے لگے ہیں اور یہ احساس دیمک کی طرح ہماری حیثیت، شخصیت اور ترقی پذیر اقوام کی آزادی ٔ فکر کو نابود کر رہا ہے.
بعض حضرات تو مغربی تہذیب کے دھارے میں اس طرح بہہ گئے ہیں کہ خود ان سے آگے بڑھکر دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق نظر آتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس بیماری سے وسیع پیمانہ پر مقابلہ کی ضرورت ہے ،ایسا مقابلہ جس کی بنیاد عقل ومنطق اور اسلامی آداب و احکام کے احترام پر استوار ہو۔

حقیقت یہی ہے کہ بعض مشرقی افراد جب اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہیں تو مغربی تمدن کے سامنے سپرانداختہ ہو جاتے ہیں اور اپنی قومی و مذہبی عادات، اخلاق، لباس وغیرہ سب کچھ تج کر مغربی تہذیب کو فخر کے ساتھ اپنا لیتے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی انہیں کا طرز معاشرت اختیار کر لیتے ہیں لیکن مغربی افراد کا چونکہ ڈنکہ بجتا ہے لہذا وہ اپنے مال و ثروت، علم و صنعت اور مادی ترقی پر اکڑتے ہیں اور اپنے عادات و اطوار کتنے ہی پست، حیوانی اور خرافاتی کیوں نہ ہوں اہل مشرق کے سامنے فخر کے ساتھ انہیں بجا لاتے ہیں۔

بہت سے مشرقی افراد مغرب سے علم و ٹکنالوجی سیکھنے کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو ہی اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اقوام مشرق ،مغرب پرست ہونے کے بجائے علم و صنعت و ٹکنالوجی حاصل کر کے اپنی زمین، معدنیات، سمندر، ہوا کے خود ہی مالک ہوتے. یہ لوگ اتنے مغرب زدہ اور مغرب پرست ہوتے ہیں کہ ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ٹائی وغیرہ کے بجائے اپنا قومی لباس پہن کر ان کے پروگرام میں شرکت کریں،معدودے چند افراد ہی اپنا لباس ترک نہیں  ایسے سربراہانِ مملکت کی ہے جو اہل مغرب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ احساس کمتری کتنی بڑی لعنت ہے اور عزت نفس کتنا بڑا سرمایہ کرتے جیسے ہندوستان کے سابق صدرڈاکٹر ذاکر حسین یا حجاز ،مراکش اور بعض دیگر ممالک کے سربراہ بھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنا قومی لباس پہن کر شریک ہوتے رہے، جب کہ اکثریت کتنا محترم ہے وہ مسلم سربراہ جس کے اعزاز میں اگر مغربی سربراہانِ مملکت دعوت کرتے ہیںتو دسترخوان پر شراب نہیں ہوتی، کتنا قابل فخر ہے وہ سربراہ جو ماسکو میں کمیونسٹ حکومت کا مہمان ہونے کے باوجود نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کا رخ کرتا ہے، کتنا باعظمت و شرافت ہے وہ سربراہ جو امریکا میں بھی چرچ میں داخل نہیں ہوتا اور سودی قرض سے پرہیز کرتا ہے، کتنا عظیم مرد آہن ہے وہ مسلمان کہ جو اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اپنی تقریر کا آغاز ''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم'' سے کرتا ہے۔
کتنی پست اور حقیر ہے وہ مسلمان قوم جو قرآن پر تو فخر کرتی ہے نماز میں روزانہ بیس مرتبہ ''بسم اللہ الرحمٰن الرحیم'' کہتی ہے مگر اس کی کتابوں کے سر ورق سے یہ نورانی جملہ غائب ہے، کتنے ذلیل و خوار ہیں وہ لوگ جو اغیار کی روش اختیار کرتے ہیں کتنی حقیر ہے وہ قوم جو اپنی مذہبی اور قومی روش اورلباس کو چھوڑ کر اپنے پروگراموں میں دوسروں کا لباس اور طور طریقہ اختیار کرتی ہے اور جس کے مرد و زن اپنی شخصیت اور اعتماد نفس سے محروم ہیں۔

 اندلس کی نام نہاد اسلامی حکومت نے کفار اور اغیار سے اسلامی اصولوں کے برخلاف ایسے معاہدے کئے کہ اس کے نتیجہ میں عیسائیت کے لئے دروازے کھل گئے۔ فحشاء و فساد اور شراب نوشی سے پابندی ختم ہو گئی عیسائیوں کی طرح سے مرد و عورت آپس میں مخلوط ہو گئے راتوں کو عیش و عشرت، مردوں اور عورتوں کے مشترکہ پروگرام، رقص و سرور ، ساز و موسیقی نے اسلامی غیرت و حمیت کا خاتمہ کردیا ۔ غیر ملکی مشیران اسلامی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے اور آخر کاراسلامی اندلس ایک عیسائی مملکت میں تبدیل ہو گیا اور اسلامی علم و تمدن کا آفتاب اس سرزمین پر اس طرح غروب ہوا کہ آج اسلامی حکومت کے زرین دور کی مساجد، محلّات اور دیگر عالیشان عمارتوں جیسی یادگاروں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ البتہ یہ تاریخی اور یادگار تعمیرات آج بھی اپنی مثال آپ اور اس مملکت کے عہد زریں کے علم و صنعت کا شاہکار ہیں۔ خدا کی لعنت ہو فحشاء و فساد، ہوس اقتدار اور نفاق پرور ایسے ضمیر فروش اور اغیار پرست حکام پر۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سمیہ، عمار یاسر کی والده، اسلام میں اولین شہید ...
"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...
مجلسِ شبِ عاشوره
اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟
امام محمد باقر (ع) كى سوانح عمري
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...

 
user comment