تاريخ بشريت گواہ ہے کہ جب سے اس زمين پر آثار حيات مرتب ھونا شروع ھوئے اور وجود اپني حيات کے مراحل سے گزرتا ھوا انسان کي صورت ميں ظھور پذير ھوا اور ابوالبشر حضرت آدم عليہ السلام اولين نمونہ انسانيت اور خلافت الھيہ کے عھدہ دار بن کر روئے زمين پر وارد ھوئے اور پھر آپ کے بعد سے ھر مصلح بشريت جس نے انسانيت کے عروج اور انسانوں کي فلاح و بھبود کے لئے اس کو اس کے خالق حقيقي سے متعارف کرانے کي کوشش کي، کسي نہ کسي صورت ميں اپنے دور کے خود پرست افراد کي سر کشي اور انانيت کا سامنا کرتے ھوئے مصائب و آلام سے دوچار ھوتا رھا دوسري طرف تاريخ کے صفحات پر ان مصلحين بشريت کے کچہ ھمدردوں اور جانثاروں کے نام بھي نظر آتے ھيں جو ھر قدم پر انسانيت کے سينہ سپر ھوگئے اور در حقيقت ان سرکش افراد کے مقابلے ميں ان ھمدرد اور مخلص افراد کي جانفشانيوں ھي کے نتيجے ميں آج بشريت کا وجود برقرار ھے ورنہ ايک مصلح قوم يا ايک نبي يا ايک رسول کس طرح اتني بڑي جمعيت کا مقابلہ کر سکتا تھا جو ھر آن اس کے در پئے آزارھو يھي مٹھي بھر دوست اور فداکار تھے جن کے وجود سے مصلحين کے حوصلے پست نھيں ھونے پاتے تھےـ
مرور ايام کے ساتھ پرچم اسلام آدم (ع) و نوح (ع) و عيسيٰ و ابراھيم عليھم السلام کے ہاتھوں سربلندي وعروج حاصل کرتا ہوا ھمارے رسول کے دست مبارک تک پہونچا اور عرب کے ريگزار ميں آفتاب رسالت نے طلوع ہو کر ہر ذرہ کو رشک قمر بنا ديا،ہر طرف توحيد کے شاديانے بجنے لگے از زمين تا آسمان لا الھٰ الا الله کي صدائيں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگيں، محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محيط ہوگيا اور تبليغ الٰھي کا آخري ذريعہ اور ھدايت بشري کے لئے آخري رسول رحمت بن کر عرب کے خشک صحرا پر چھاتا ھوا سارے عالم پر محيط ھو گيا دوسري طرف باطل کا پرچم شيطان و نمرود ، فرعون و شداد کے ھاتھوں سے گذرتا ھوا ابولھب ، ابو جھل اور ابوسفيان کے ناپاک ہاتھوں بلند ھونے کي ناپاک کاوشوں ميں مصروف ھوگيا ـ
رسول کے کلمہ توحيد کے جواب ميں ايذا رساني شروع ھوگئي اور حق و باطل کي طرح برسر پيکار ھوگئے ايسے عالم ميں کہ ايک طرف مکہ کے خاص و عام تھے اور دوسري طرف بظاھر ايک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ھو چکے تھے ـ ليکن پيغام الٰھي کي عظمت، مصائب کي کثرت پر غالب تھي اور ھر اذيت کے جواب ميں رسول الله کا جوش تبليغ اور زيادہ ھوتا جاتا تھا ـ
ايسے کسمپرسي کے عالم ميں جھاں ايک طرف آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کي ھر ممکنہ مدد کي وھيں دوسري طرف آپ کي پاک دامن زوجہ حضرت خديجہ نے آپ کي دلجوئي اور مدارات کے ذريعہ آپ کو کفار مکہ سے پہچنے والي تمام تکاليف کو يکسرہ فراموش کرنے پر مجبور کر ديا ـ حضرت خديجہ نے آپ کي زبان سے خبر بعثت سنتے ھي اٰمنا وصدقنا کھہ کر آپ کي رسالت کي پہلے ھي مرحلے ميں تائيد کردي ـ جناب خديجہ کا يہ اقدام رسول اکرم کے لئے بہت حوصلہ افزاء ثابت ھوا ـ آپ کي اسي تائيد و تعاون کو رسول اکرم آپ کي وفات کے بعد بھي ياد فرماتے رھتے تھے اور اکثر و بيشتر آپ کي زبان اقدس پر حضرت خديجہ کا تذکرہ رھتا تھا
خاندان و نام ونسب
شجر اسلام کي ابتدائي مراحل ميں آبياري کرنے والي اور وسطي مراحل ميں اس کي شاخوں کو نمو بخشنے والي يہ خاتون قريش کے اصيل و شريف گھرانے ميں پيدا ھوئي ـ روايات ميں آپ کي ولادت عام الفيل سے پندرہ سال قبل ذکر ھوئي اور بعض لوگوں نے اس سے کم بيان کيا ھے ـ آپ کے والد خويلد ابن اسد بن عبد العزي بن قصي کا شمار عرب کے دانشمندوں ميں ھوتا تھا ـ اور آپ کي والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ھيں آپ کا خاندان ايسے روحاني اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کي محفاظت کے عھد يدار تھے ـ جس وقت بادشاہ يمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے يمن منتقل کرنے کا ارادہ کيا تو حضرت خديجہ کے والد کی ذات تھي جنھوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کي جس کے نتيجہ ميں مجبور ھوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ھونا پڑا ـ
حضرت خديجہ کے جد اسد بن عبد العزي پيمان حلف الفضول کے ايک سرگرم رکن تھے يہ پيمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درميان ھو ا تھا جس ميں متفقہ طور پر يہ عھد کيا گيا تھا کہ مظلومين کي طرف سے دفاع کيا جائے گا اور خود رسول اکرم بھي اس پيمان ميں شريک تھے ”ورقہ بن نوفل “ (حضرت خديجہ کے چچا زاد بھائي )عرب کے دانشمند ترين افراد ميں سے تھے اور ان کا شمار ايسے افراد ميں ھوتا تھا جو بت پرستي کو نا پسند کرتے تھے اور حضرت خديجہ کو چندين بار اپنے مطالعہ کتب عھدين کي بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد اس امت کے نبي ھيں خلاصہ يہ کہ اس عظيم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ، دانشمند اور دين ابراھيم کے پيرو تھے ـ
تجارت
ايسے با عظمت افراد کي آغوش عاطفت کي پروردہ خاتون کي طبيعت ميں اپنے آبا و اجداد کي طرح رفق ودانشمندي کي آميزش تھي جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کي تجارت کو بطريقہ احسن سنبھال ليا اور اپنے متفکر اور زيرک ذھن کي بنا پر اپنے سرمايہ کو روز افزوں کرنا شروع کرديا ـ آپ کي تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنار تک پھيلي ھوئي تھي روايت کي گئي ھے کہ ”ھزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ ميں تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جيسے ممالک کے اطراف ميں مصروف تجارت تھے“ جن کے ذريعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کرلي تھي ـ
آپ کي تجارت ايسے افراد پر موقوف تھي جو بيرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکيں چنانچہ حضرت ختمي مرتبت کي ايمانداري ، شرافت ، اورديانت کے زير اثر حضرت خديجہ نے آپ کو اپني تجارت ميں شريک کر ليا اور باھم قرار داد ھوئي اس تجارت ميں ھونے والے نفع اور ضرر ميں دونوں برابر شريک ھوں گے ـاور بعض مورخين کے مطابق حضرت خديجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کيا تھا ـ ليکن اس کے مقابل دوسري روايت ھے جس کے مطابق رسول الله اپني حيات ميں کسي کے اجير نھيں ھوئے ـ بھر کيف حضرت کاروان تجارت کے ھمراہ روانہ شام ھوئے حضرت خديجہ کا غلام ميرہ بھي آپ کے ساتھ تھا ـ بين راہ آپ سے کرامات سرزد ھوئيں اور راھب نے آپ ميں علائم نبوت کا مشاھدہ کيا اور ”ميسرہ“کوآپ کے نبي ھونے کي خبر دي ـ تمام تاجروں کو اس سفر ميں ھر مرتبہ سے زيادہ نفع ھوا جب يہ قافلہ مکہ واپس ھوا تو سب سے زيادہ نفع حاصل کرنے والي شخصيت خود حضرت خدیجہ کی تھي جس نے خديجہ کو خوش حال کرديا اس کے علاوہ ميسرہ (غلام خديجہ ) نے راستے ميں پيش آنے والے واقعات بيان کئے جس سے حضرت خديجہ آن حضرت کي عظمت و شرافت سے متاثر ھوگئيں ـ
ازدواج
حضرت خديجہ کي زندگي ميں برجستہ و درخشندہ ترين پھلو آپ کي حضرت رسالت مآب کے ساتھ ازدواج کي داستان ھے ـ جيسا کہ سابقہ ذکر ھوا کہ ” حضرت خديجہ کي تجارت عرب کے ا طراف و اکناف ميں پھيلي ھوئي تھي اور آپ کي دولت کا شھرہ تھا چنانچہ اس بنا پر قريش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد چندين بار پيغام ازدواج پيش کر چکے تھے ، ليکن جن کو زمانہ جاھليت ميں ”طاھره“ کہا جاتا تھا اپني پاکدامني اور عفت کي بنا پر سب کو جواب دے چکي تھيں ـ
حضرت جعفر مرتضيٰ عاملي تحرير فرماتے ھيں ”ولقد کانت خديجہ عليھا السلام من خيرة النساء القريش شرفا واکثر ھن مالا واحسنھن جمالا ويقال لھا سيدةالقريش وکل قومھا کان حريصا ًعلي الاقتران بھا لو يقدر عليھا الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج2/ص107)
”حضرت خديجہ قريش کي عورتوں ميں شرف و فضيلت ، دولت و ثروت اور حسن و جمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالا تھيں اور آپ کو سيدہ قريش کہا جاتا تھا اور آپ کي قوم کا ھر فرد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواھاں تھا“
حضرت خديجہ کو حبالئہ عقد ميں لانے کے متمني افراد ميں ”عقبہ ابن ابي معيط “” صلت ابن ابي يعاب “”ابوجھل “اور ”ابو سفيان “جيسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اور با حيثيت لوگوں ميں شمار کيا جاتا تھا ليکن حضرت خديجہ با وجود يہ کہ اپني خانداني اصالت ونجابت اور ذاتي مال و ثروت کي بن اپر بے شمار ايسے افراد سے گھري ھوئي تھيں جو آپ سے ازدواج کے متمني اور بڑے بڑے مھر دے کر اس رشتے کے قيام کو ممکن بنانے کے لئے ھمہ وقت آمادہ تھے ھميشہ ازدواج سے کنارہ کشي کرتي رھتي تھيں ـ
کسي شريف اورصاحب کردار شخص کي تلاش ميں آپ کا وجود صحراء حيات ميں حيران وسرگرداں تھاـ ايسے عالم ميں جب عرب اقوام ميں شرافت و ديانت کاخاتمہ ھو چکا تھا، خرافات و انحرافات لوگوں کے دلوں ميں رسوخ کر کے عقيدہ و مذھب کي شکل اختيار کر چکے تھے خود باعظمت زندگي گذارنا اور اپنے لئے کسي اپنے ھي جيسے صاحب عز و شرف شوھر کا انتخاب کرناايک اھم اور مشکل مرحلہ تھا ، ايسے ماحول ميں جب صدق و صفا کا فقدان تھا آپ کي نگاہ انتخاب رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم پر آکر ٹہر گئي جن کي صداقت و ديانت کا شہرہ تھا، حضرت خديجہ نے کم ظرف صاحبان دولت و اقتدار کے مقابلے ميں اعلي ظرف ، مجسمہ شرافت و ديانت اورعظيم کردار کے حامل رسول کو جو بظاھر تنگ دست ، يتيم اور بے سہارا تھے ترجيح دے کر قيامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے ديا کہ دولت و شھرت اور اقتدار کي شرافت ، عزت اور کردار کے سامنے کوئي حيثيت نہيں ھےـ
المختصر برسر اقتدار افراد کو مايوس کرنے والي ”خديجہ “ نے باکمال شوق و علاقہ ازطرف خود پيغام پيش کر ديا اور مھر بھي اپنے مال ميں قرار ديا جس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمايا ”لوگوں گواہ رہنا“”خديجہ “ نے خود کو محمدصلي الله عليہ وآلہ وسلم سے منسوب کيا اور مھر بھي اپنے مال ميں قرار ديا ھے اس پر بعض لوگوں نے ابوطالب عليہ السلام پر طنز کرتے ھوئے کہا ياعجباھ!ا لمھر علي النساء للرجل (تعجب ھے مرد عورت کے مال سے مھر کي ادائيگي کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگي کا اظہار کرتے ھوئے غضب کے عالم ميں فرمايا، ”اذاکانوا مثل ابن اخي ھذاطلبت الرجل باغلي الاثمان وان کانوا امثالکم لم يزوجوا الابالمھر الفالي“ (اگرکوئي مردميرے اس بھتيجے کے مانند ھوگا توعورت اس کوبڑے بھاري مھر دے کرحاصل کريگي ليکن اگر وہ تمھاري طرح ہوا تواسکو خود گراں و بھاري مھر ديکر شادي کرناھوگي )ايک دوسري روايت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بيس بکرہ نقل ھواھے) خود ادا کيا تھا
اور ايک روايت کے مطابق آپ کے مھر کي ذمہ داري حضرت علي نے قبول کر لي تھي ، حضرت کي عمر کے سلسلے ميں تمام مورخين کا اس پر اتفاق ھے کہ حضرت خديجہ سے آپ نے پہلي شادي 25/سال کي عمر ميں کي ليکن خود حضرت خديجہ کي عمر کے بارے ميں کثير اختلاف وارد ھوا ھے چنانچہ 25،28،30اور 40 سال تک بہت کثرت سے روايات وارد ھوئي ھيں (21) ليکن معروف ترين قول يہ ھے کہ آپ کي عمر شادي کے وقت 40 سال تھيـں
ابوالقاسم کوفي کابيان ھے کہ ”خاص و عام اس بات پر متفق ھيں کہ تمام اشراف سر بر آوردہ افراد حضرت خديجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے ليکن خديجہ کے بلند معيار کے سامنے ان کي دولت کي فراواني اور شان و شوکت ھيچ نظر آتي تھي يھي وجہ تھي کہ حضرت خديجہ نے سب کے رشتوں کو ٹھکرا دیا تھا ليکن زمانے کي حيرت کي اس وقت کوئي انتھا نہ رہي جب اسي خديجہ نے عرب کے صاحبان مال و زر اور فرزندان دولت و اقتدار کو ٹھکرا کر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کر ليا جن کے پاس مال دنيا ميں سے کچھ نہ تھا اسي لئے قريش کي عورتيں خديجہ سے تحير آميز ناراضگي کا اظھار کرتے ھوئے سوال کر بيٹھيں کہ اے خديجہ ! تو نے شرفا و امراء قريش کو جواب دے ديا اور کسي کو بھي خاطر ميں نہ لائي ليکن يتيم ابوطالب کو جو تنگ دست و بے روزگار ھے انتخاب کرليا اس روايت سے يہ بات واضح ھو جاتي ھے کہ حضرت خديجہ نے مکہ کے صاحبان دولت و ثروت کو رد کر ديا تھا اور کسي سے بھي شادي کرنے پر آمادہ نھيں تھيں ، دوسري طرف اس روايت کي رد سے جو سابقا ذکر ھوئي آپ کے ايک شوھر ک انام ”ابوھالہ تميمي “ ھے جو بني تميم کا ايک اعرابي تھا، عقل انساني اس بات پر متحير ھوجاتي ھے کہ کس طرح ممکن ھے کہ کوئي اشراف کے پيغام کو ٹھکرا دے اور ايک اعرابي کو اپنے شريک حيات کے طور پر انتخاب کرلے ،علاوہ بر ايں اس سے بھي زيادہ تعجب کا مقام يہ ھے کہ خديجہ کے اشراف کو نظر انداز کرکے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کو (جو خانداني اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے ) انتخاب کرنے پر تو قريش کي عورتيں انگشت نمائي کرتي نظر آئيں ليکن ايک اعرابي سے شادي کے خلاف عقل فعل پر، سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/2ص/123)اس دليل کي روشني ميں يہ واضح ھو جاتا ھے کہ حضرت خديجہ نے رسول سے قبل کوئي شادي نھيں کي تھي اور اگر کي ھوتي تو زمانے کے اعتراضات تاريخ ميں محفوظ ھوتے ـ
بعض لوگوں نے حضرت خديجہ کے شادي شدہ ھونے پر ا س روايت سے استدلال کياھے کھ”راہ اسلام کا اولين شھيد حارث بن ابي ھالہ فرزند حضرت خديجہ ھے
مذکورہ بالا روايت کے مقابلے ميں دوسري روايات جن کي سند يں معتبر ھيں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پھلے شھيد کي صورت ميں پيش کرتے ھيں ”ان اول شھيد في الاسلام سميہ والدہ عمار “
(اسلام کي راہ ميں پھلي شھيد ھونے والي سميہ والدہ عمار ھيں )اورابن عباس اورمجاھد کي روايت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتيلين قتلا من المسلمين“
اسلام کي راہ ميں شھيد ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اور ام عمار ھيں ـ
رسول کي بعثت اورحضرت خديجہ کاايمان لانا
حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ھونے کے بعد عورتوں ميں جس شخصيت نے سب سے پہلے آپ کي تصديق کي اور آپ پر ايمان لائي وہ حضرت خديجہ کي ذات گرامي ہے طبري نے واقدي سے روايت کي ھے کہ ”اجتمع اصحابنا علي ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خديجہ بنت خويلد علماء کا اس بات پر اتفاق ھے کہ رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کي آواز پر سب سے پھلے لبيک کہنے والي حضرت خديجہ کي ذات گرامي ہے خود رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے ”و الله لقد امنت بي اذ کفر الناس و اويتني اذ رفضني الناس و صدقتني اذ کذبني الناس خداکي قسم وہ (خديجہ )مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ھوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کر ديا تھا اور اس نے ايسے موقع پر ميري تصديق کي جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھے)
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں ـ لم يجمع بيت واحد يومئيذ في الاسلام غير رسول الله وخديجہ وا نا ثالثھا وہ ايسا وقت تھاجب روئے زمين پر کوئي مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خديجہ پر مشتمل تھا اور ميں ان ميں تيسرا فرد تھا )
آنحضرت کي حضرت خديجہ(ع) سے محبت وعقيدت
حضرت خديجہ کي آنحضرت کي نگاہ ميں محبت و عقيدت اورقدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ھے کہ آپ کي زندگي ميں آنحضرت نے کسي بھي خاتون کو اپني شريک حيات بنانا گوارہ نھيں کيا آپ کے بارے ميں حضرت کاارشاد ھے کہ ”خديجہ اس امت کي بھترين عورتوں ميں سے ايک ھے
-آپ کي وفات کے بعد بھي ھميشہ آپ کو ياد فرماتے رھے
ـخديجہ کااسلام کيلئے اپنا اورسب کچہ قربان کرکے بھي اسلام کي نشرواشاعت کاجذبہ ھي تھاجس نے اسلام کودنيا کے گوشہ وکنار تک پہنچنے کے مواقع فراھم کئے اوريھي سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کي بشارت ديدي تھي “عائشہ سے مسلم نے روايت نقل کي ھے کہ ”بشر رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم بنت خويلد ببيت في الجنة “(حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے خديجہ سلام الله عليھاکو جنت کي بشارت دي تھي - حضرت خديجہ اور ابوطالب رسول کے دو ايسے مدافع تھے جن کي زندگي ميں کفار قريش کي طرف سے آپ کو کوئي گزند نھيں پھنچا ليکن رسول کے يہ دونوں جانثار ايک ہي سال بہت مختصر وقفہ سے يکے بعد ديگرے دنيا سے رخصت ھو گئے اور روايات کے مطابق رسول پر دونوں مصيبتيں ھجرت سے تين سال قبل اور شعب ابي طالب سے باھر آنے کے کچھ روز بعد واقع ھوئيں -
رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا اور يہ مصيبت رسول کے لئے اتني سخت تھي کہ رسول خانہ نشين ھو گئے اور آپ نے حضرت خديجہ اور ابوطالب کي وفات کے بعد باھر نکلنا بہت کم کرديا تھا-
ايک روز کسي کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دي رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم اسي حالت ميں گھر ميں داخل ھوئے آپ کي زبان پر يہ کلمات تھے ”مانالت مني قريش شيا اکرھہ حتي مات ابوطالب“- قريش ابوطالب کي زندگي ميں مجھ کوکوئي گزند نھيں پہنچا سکے) آپ حضرت ابوطالب اورخديجہ کي زندگي ميں اطمينان سے تبليغ ميں مصروف رہتے تھے ـ خديجہ گھر کي چہار ديواري ميں اور ابوطالب مکہ کي گليوں ميں آپ کے مدافع تھے ۔
حضرت خديجہ جب تک زندہ رھيں رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اطمينان و سکون کا سبب بني رھيں دن بھر کي تبليغ کے بعد تھک کر چور اور کفار کي ايذا رسانيوں سے شکستہ دل ھوجانے والا رسول جب بجھے ھوئے دل اور پژمردہ چھرے کے ساتھ گھر ميں قدم رکھتا تو خديجہ کي ايک محبت آميز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کو پھر سے ماہ تمام بنا ديا کرتي تھي ، خديجہ کي محبتوں کے زير سايہ کشتي اسلام کا ناخدا عالمين کے لئے رحمت بن کر دنيا کي ايذا رسانيوں کو بھلاکر ايک نئے جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ ڈوبتے ھوئے ستاروں کا الوداعي سلام اورمشرق سے سر ابھارتے ھوئے سورج سے خراج ليتا ھوا ايک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے باھر آتا اور باطل کو لرزہ بر اندام کرنے والي لاالہ الاالله کي بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے در و ديوار ھل کر رہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذيتوں کي يلغار کر ديتے ليکن انسانيت کي نجات اور انسانوں کي اصلاح کا خواب دل ميں سجائے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خوشاآيند مستقبل کے تصور ميں ھر مصيبت کا خندہ پيشاني سے مقابلہ کرتے رہے اورآپ کے اسي صبر و تحمل اورآپ کي پاکدامن زوجہ کے تعاون اور جانثاري سے آج ہم مسلمانان جھان پرچم توحيد کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کو شرمندہ تعبير کرنے کے لئے آپ کے اس آخري جانشين کے انتظار ميں سرگرداں ہيں جو زمين کو عدل و انصاف سے پر کردے گا ـ