اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

شب قدر ماہ رمضان کا قلب

مقدمہ شب قدر وہ شب ہے جس کے بارے میں قرآن کریم کا مکمل سورہ نازل ہوا ہے اور اسے نہ صرف ماہ رمضان بلکہ پورا سال یاد رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ قدر کو واجب نمازوں میں مستحب قرار دینے کا مقصد شاید یہی ہے کہ
شب قدر ماہ رمضان کا قلب

مقدمہ
شب قدر وہ شب ہے جس کے بارے میں قرآن کریم کا مکمل سورہ نازل ہوا ہے اور اسے نہ صرف ماہ رمضان بلکہ پورا سال یاد رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سورہ قدر کو واجب نمازوں میں مستحب قرار دینے کا مقصد شاید یہی ہے کہ انسان سال بھر اس شب کو ذہن میں رکھے اور اس کا انتظار کرے چونکہ یہ وہ شب ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ہزار مہینے تو بہت سارے انسانوں کی زندگی بھی نہیں ہوا کرتی۔ یعنی ایک رات جسے انسان کی پوری زندگی پر فوقیت حاصل ہے اگر انسان اسے صحیح معنی میں درک کر لے اور اس میں بیدار ہو جائے تو گویا اس نے ہزار مہینوں کی فضیلت کو درک کر لیا ہے ہزار مہینوں کی معنوی زندگی حاصل کر لی ہے۔ بیدار ہونے کا مطلب جاگتے رہنا نہیں ہے اگر چہ یہ بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے، بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان خود کو خواب غفلت سے بیدار کر لے، جو یاد خدا سے غافل ہو کر دنیا کے جھمیلوں اور الجھنوں میں گرفتار ہے ان سے خود کو نکالے اور اپنے ضمیر کو بیدار کرے تو ایسی صورت میں اس نے اس شب کو درک کر لیا ہے اور اس کی یہ ایک شب یقینا اس کی پوری زندگی سے بہتر ہے۔
شب قدر کی فضیلت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
ان اللہ وھب لامتی لیلۃ القدر لم یعطھا من کان قبلھم( جامع الصغیر، ج۱، ص۲۷۸)
خداوند عالم نے شب قدر صرف میری امت کو عطا کی ہے اس سے قبل کسی امت کو عطا نہیں کی۔
یعنی گزشتہ انبیا کی امتوں کو اس نعمت عظمیٰ سے محروم رکھنا اور امت محمدیہ(ص) کو اس نعمت سے نوازنا یہ ایک جانب سے اس امت کی شرافت اور برتری پر دالت کرتا ہے اور دوسری جانب سے اس امت کے امتحان کو بھی سخت کر دیتا ہے چونکہ اگر نعمت کی قدر نہ کی جائے اور اس سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو اس پر حساب و کتاب بھی اتنا سخت ہوتا ہے۔
یا دوسری حدیث میں اس شب کی فضیلت کی بارے میں فرمایا:
شھر رمضان سید الشھور، و لیلۃ القدر سیدۃ اللیالی۔( بحار الانوار، ج۴۰، ص۵۴)
ماہ رمضان تمام مہینوں کا سردار ہے اور شب قدر تمام راتوں کی سردار۔
اور امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:
قلب شھر رمضان لیلۃ القدر( الکافی، ج۴، ص۶۶)
ماہ رمضان کا قلب اور دل، شب قدر ہے۔

شب قدر میں داخل ہونے کے آداب
چھوٹی موٹی نعمت بھی اتنی آسانی سے انسان کو حاصل نہیں ہوتی تو یہ عظیم نعمت کیسے آسانی سے حاصل ہو جائے گی۔ لہذا اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کے لئے اہلبیت اطہار(ع) سے کچھ فارمولے نقل ہوئے ہیں جنہیں آداب و اعمال کہا جاتا ہے اگر انہیں ٹھیک ڈھنگ دے بجا لائیں گے، خلوص نیت سے انجام دیں گے تو اس شب کو درک کرنے میں ہمیں آسانی ہو گی:
۱: غسل؛
شب ہائے قدر میں غسل کرنے کی سفارش کی گئی ہے وہ بھی غروب آفتاب کے وقت اس طریقے سے کہ اسی غسل سے نماز مغرب و عشاء ادا کی جا سکے۔( یہ غسل، غسل مستحبی ہے نماز کے لیے الگ سے وضو بھی کرنا ہو گا)۔ یہ بات بالکل حقیقت نہیں رکھتی کہ انسان کے جسم و بدن کا اس کی روح پر کوئی اثر نہیں پڑتا جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا رہتا ہے کہ انسان کا باطن پاک ہونا چاہیے ظاہر ہو نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام بالکل نظٓافت کو ایمان کا حصہ نہ بناتا(النظافۃ من الایمان)۔ جسم و بدن کی پاکیزگی روح و جان پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا آپ دیکھتے ہیں اسلام میں ہر بافضیلت موقع پر غسل کو مستحب قرار دیا گیا ہے یعنی پہلے بدن کو ظاہری میل و کچیل اور ظاہری آلودگیوں سے پاک کرو پھر روح کو پاک کرو۔
امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: جو شخص ماہ مبارک رمضان کی انیسویں، اکیسویں اور تئیسویں شب جن کے شب ہائے قدر ہونے کا قوی احتمال ہے کو غسل بجا لائے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے جس طرح ماں کے پیٹ پیدا ہوا ہو۔( وسائل الشیعہ، ج۷، ص۲۶۱)
روایت میں واضح طور پر جسم کی پاکیزگی کو روح کی پاکیزگی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ لہذا ظاہری نظافت، بدن کی پاکیزگی، لباس کی پاکیزگی، گھر و آشیانے کی پاکیزگی سب چیزیں انسان کی باطنی پاکیزگی کا سبب ہیں۔
۲: احیاء (شب بیداری)
روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) تئیسویں کی شب کو اپنے اہل خانہ کے منہ پر پانی چھڑکتے تھے تاکہ وہ نیند سے اٹھ جائیں۔ (بحار الانوار، ج۹۷، ص۱۰) حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنے بچوں کو دن میں سلاتی تھیں اور رات کو کم کھانا کھلاتی تھیں تاکہ بچے شب قدر میں بیدار رہ سکیں اور فرماتی تھیں: محروم انسان وہ ہے جو اس شب کی برکتوں سے محروم رہ جائے۔( بحار، ج۹۷، ص۱۰)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خوش قسمت ہے وہ شخص جو شب قدر کو رکوع و سجود میں گزارے اپنے گناہوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم کرے اور ان پر گریہ و زاری کرے اگر ایسا کیا تو مجھے امید ہے کہ وہ بارگاہ خداوندی سے مایوس نہیں ہو گا۔( بحار، ج۹۷، ص۴)
۳: قرآن کریم کو واسطہ قرار دینا
شب قدر کے اعمال میں سے ایک عمل قرآن کریم کو اپنے سامنے کھول کر رکھنا اور پھر اسے سر پر رکھنا اور مخصوص دعاوں کا پڑھنا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ انسان اللہ کے کلام کو اس کی بارگاہ میں واسطہ بخشش قرار دے اس کی قسم دے اور قرآن پر عہد کرے کہ اس کے بعد وہ اللہ کی معصیت سے پرہیز کرے گا۔
۴: توبہ و استغفار
شب قدر کا ایک اہم عمل توبہ و استغفار ہے۔
توبہ کا مطلب کیا ہے؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: التوبۃ علی اربعۃ دعائم؛ ندم القلب، استغفار اللسان، و عمل بالجوارح و عزم ان لایعود۔( بحار، ج۷۵ ص۸۱)
توبہ کے چار ستون ہیں: دلی پشیمانی( یعنی اپنے کئے پر دل سے پشیمان اور نادم ہو جائے) زبان سے اعتراف( صرف دل کی پشیمانی کافی نہیں بلکہ ندامت کے ساتھ ساتھ زبان سے اعتراف کرے کہ بارالہٰا میں نے فلاں فلاں تیری معصیت کی ہے) اعضاء و جوارح سے عمل کرے ( یعنی جو زبان سے اعتراف کر رہا ہے پروردگارا میں نے اب تک جو تیری معصیت کی ہے اب اس کے بعد نہیں کروں گا اس پر عمل کرے نہ صرف زبان سے کہہ کر چلا جائے، زبانی کافی نہیں ہے عملی ثبوت بھی ہونا چاہیے۔) واپس نہ پلٹنے کا ارادہ (چوتھا ستون توبہ کا یہ ہے کہ انسان مستحکم ارادہ کرے کہ اب وہ ناجائز کام بجا نہیں لائے گا اور اس کے بعد اس ارادے کا پابند رہے)۔


شب قدر اللہ سے کیا مانگیں
شب قدر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بہترین چیز اللہ سے مانگیں۔ ایک شخص نے پیغمبر اکرم سے پوچھا؛ یا رسول اللہ! ان انا ادرکت لیلۃ القدر فما اسال ربی؟ قال: العافیۃ۔( مستدرک الوسائل، ج۷، ص۴۵۸)
پوچھا: اے رسول خدا! اگر میں شب قدر کو درک کر سکوں تو اللہ سے کیا مانگوں؟ فرمایا: سلامتی۔ یعنی دین و دنیا کی سلامتی۔
 یہ بہت بڑی دعا ہے جس کی پیغمبر اکرم نے تاکید کی ہے آج دنیا میں سب سے زیادہ جس چیز کی کمی ہے وہ سلامتی کی ہے نہ دین سالم ہے نہ دنیا سالم ہے۔ نہ دین محفوظ ہے نہ دنیا محفوظ ہے۔ لہذا شب ہائے قدر میں اللہ سے جسمانی سلامتی کی بھی دعا کریں اور روحانی سلامتی کی بھی کہ خدا ہماری دنیا کو بھی سالم رکھے اور دین کو بھی۔ 


حضرت موسی کی خواہشیں اور اللہ کے فرمائشیں
حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں دست دعا بلند کئے اور عرض کیا:
خدایا! میں تیرا قرب چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا: میرا قرب اس شخص کے لیے ہے جو شب قدر کو بیدار رہے۔
حضرت موسی (ع) نے کہا:
خدایا! تیری رحمت چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا: میری رحمت اس شخص کے لیے ہے جو شب قدر کو مسکینوں پر رحم کرے۔
کہا: خدایا! میں پل صراط سے گزرنا چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا: پل صراط سے وہ گزر سکتا ہے جو شب قدر کو صدقہ دے۔
کہا: خدایا! میں جنت کے پھلوں کا مشتاق ہوں۔ ارشاد ہوا: جنت کے پھل اس شخص کے لیے ہیں جو شب قدر کو تسبیح بجا لائے۔
کہا: بارلٰہا! آتش جہنم سے نجات چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا: یہ اس شخص کے لیے ہے جو شب قدر کو طلب مغفرت کرے اور توبہ کرے۔
حضرت موسی (ع) نے کہا: خدایا! تیری خشنودی کا طالب ہوں۔ اللہ نے فرمایا: میری خشنودی اس شخص کے لیے ہے جو شب قدر کو دو رکعت نماز بجا لائے۔( الاقبال، ج۱، ص۳۴۵، بحار الانوار،ج۹۸، ص ۱۴۵، ح۳۔ مراقبات ماہ رمضان، س ۳۵۲ ح ۲۴۵)۔
لہذا یہ شب انسان کے مقدرات کو معین کئے جانے کی شب ہے انسان کی تقدیر اسی شب لکھی جاتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ شب قدر ہی سال کا آغاز و انجام ہے۔( الکافی، ج۴، ص۱۶۰)
اس شب ایک سال کے تمام چھوٹے بڑے کام، اجتماعی و انفرادی امور حکمت الہی کے مطابق معین ہو جاتے ہیں۔ ( یفرق کل امر حکیم)۔
’’فما قدر فی تلک اللیلۃ و قضی فھو من المحتوم و للہ فیہ المشیۃ‘‘۔ (ثواب الاعمال، ص۹۲، ح۱۱)۔
جو کچھ اس شب، مقدر و معین ہو گا وہ حتمی اور یقینی ہے اور خداوند عالم جیسا چاہے ان کے بارے میں عمل کر سکتا ہے۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا زندگی ...
احادیث حضرت علی (ع) کی اطاعت کو واجب بتاتی ہیں
کمال ایمان کے مراتب
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
انسانی زندگی پر قیامت کا اثر
حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا ...
لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں

 
user comment