ہم معمولی اور خاکی انسان ماہ مبارک رمضان کو عام طور پر بھوک اور پیاس سے پہچانتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے یہاں ماہ رمضان کو پرکھنے کا ترازو یا اس کے ’’سخت اور آسان‘‘ ہونے کا معیار رمضان کے دنوں کا لمبا ہونا یا چھوٹا ہونا یا گرم ہونا یا ٹھنڈا ہونا ہے۔
کچھ لوگ جن کی سطح ہم سے تھوڑی اونچی ہوتی ہے جو ہم لوگوں سے تھوڑا بڑھ کر سوچتے ہیں وہ بھوک و پیاس کے علاوہ رمضان کو کچھ دیگر حدود و قیود سے بھی پہچانتے ہیں جن کا تعلق انسان کی آنکھ و کان سے ہوتا ہے، ہاتھ پیر سے ہوتا ہے یا پھر زبان سے ہوتا ہے۔ ان کے یہاں رمضان کے سخت اور آسان ہونے کا معیار ہمارے یہاں کے معیار سے تھوڑا فرق کرتا ہے وہ رمضان کی سختی کو اس معیار سے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں نے کتنا ناجائز چیزوں کو دیکھا اور جائز کو دیکھنے میں کتنی کوتاہی کی، زبان نے کتنی غیبت کی اور ذکر خدا کرنے سے کتنی دور رہی۔
لیکن ان لوگوں کے لیے جو رمضان کی قدر و قیمت کو پہچانتے ہیں یہ مہینہ جشن و سرور کا مہینہ ہے ان کے یہاں بھوک و پیاس یا دیگر اعضاء و جوارح پر کنٹرول، نہ ہی سخت ہے اور نہ دیر پا ہے نہ روزے کی حالت میں گرمی کی شدت ان کی خوشی کو کم کر سکتی ہے اور نہ اعضاء و جوارح کی مراقبت ان کو سختی میں ڈال سکتی ہے
* * *
رمضان، خوشی اور مسرت کا مہینہ ہے۔ عبادت اور بندگی کی خوشی، اللہ سے ملاقات کی خوشی، ضیافت الہی کی خوشی نہ کہ افطار کے وقت کے رنگا رنگ کھانوں کی خوشی۔
اور کیوں یہ مہینہ جشن اور خوشی کا مہینہ نہ ہو، جبکہ پروردگار اس مہینے میں اپنی لطف و کرم کی نگاہ زمین والوں پر کرتا ہے اور شیطان کو زنجیروں میں جھکڑ دیتا ہے اور رحمت الہی کے دروازے اس مہینے میں روز و شب کھلے رہتے ہیں۔۔۔
کیوں خوشی نہ ہو جبکہ لیلۃ القدر اسی مہینے میں ہے جو نزول قرآن کی شب ہے، جو فرشتوں کے نزول کی شب ہے جو امام زمانہ (ع) سے دوبارہ بیعت کرنے کی شب ہے جو آسمان ک طرف امید و آرزو کے ساتھ نگاہ کرنے کی شب ہے۔۔۔ اس مہینے میں جشن منانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس ماہ کی ایک رات میں عبادت کر کے ۱۰۰۰ مہینوں کی عبادت کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے۔۔۔
اور یہ مہینہ کیوں خوشی کا مہینہ نہ ہو جب کہ اس میں صاحب ثروت اور مالدار لوگ جب پورا دن بھوک و پیاس برداشت کرتے ہیں تو انہیں بھی فقیروں کی سال بھر کی بھوک و پیاس کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔
اور اس ماہ میں کیوں خوشی نہ ہو جبکہ اس ماہ میں گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔ اگر انسان حقیقی معنی میں روزہ دار ہو تو۔۔۔
اور پھر کیوں اس ماہ میں جشن نہ منائیں جب کہ خدا خود کو( نہ جنت اور اس کی نعمتوں کو) روزے کی جزا کے طور پر روزہ دار کے حوالے کرتا ہے۔
* * *
اگر ماہ رمضان خوشی کا مہینہ نہ ہوتا تو ہم اس ماہ میں ایک دوسرے کو مبارک باد نہ کہتے اور ایک دوسرے کے گلے نہ ملتے۔۔۔۔
پروردگارا! ہم تیرا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ تونے ہمیں اتنی برکتوں والا مہینہ دیا، اس میں اتنی عظیم کتاب نازل کی، اپنے پیغمبروں اور اماموں کو بھیجا، ہمیں اس ماہ میں اپنی ضیافت پر بلایا، اس مہینے میں تو نے شب قدر رکھی اور تو خود روزہ دار کی جزا قرار پایا۔ ان سب چیزوں پر ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں۔ اور تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اس ماہ کی حقیقی خوشی درک کرنے کی توفیق عنایت فرما ۔ آمین۔
ماہ مبارک سب پر مبارک
source : abna