اسلام کے عظيم فقھاء ميں سے ايک بزرگ فقيہ کے فرمان کے مطابق جيسا کہ حج کے مراسم اور اعمال عميق اور خالص ترين عبادت کو پيش کرتے ھيں وہ ايسے ھي حج اسلامي اھداف و اغراض و مقاصد کي پيش رفت کے لئے ايک مؤثر وسيلہ بھي ھے خدا کي طرق توجہ اور روح عبادت ھے اور خدا کي مخلوق پر توجہ روح سياست ھے، اور حج کي يہ دونوں چيزيں ايک دوسرے سے اس طرح پيوستہ ھيں کہ ايک ھي چيز محسوس ھوتي ھے ۔
حج مسلما نوں کو متحد کرنے کا ايک مؤثر وسيلہ اور عمل ھے ۔ حج تعصبات، نسل پرستي و اختلافات اور جغرافيائي سرحدوں ميں محدود اور منحصر ھونے سے چھٹکارے کا بہترين ذريعہ ھے ۔ حج مسلمانوں کے درد و غم اور مشکلات سے آگاھي اور ان کے حل کي چارہ جوئي کے لئے بہترين ذريعہ ھے۔ حج رکاوٹ اور بندشوں کو توڑنے اور ظالمانہ نظا م کو ختم کرنے کا وسيلہ ھے، اس ظالمانہ نظام کو جو دنيا کي قدرتمند اور ظالم حکومتوں کي طرف سے اسلامي حکومتوں ميں رائج کيا گيا ھے ۔ حج اسلامي ممالک کي سياسي جڑوں کو ايک جگہ سے دوسري جگھوں پر پھونچانے کا بہترين وسيلہ ھے ۔
حج غلامي اور سامراجي زنجيروں کو توڑنے اور مسلمانوں کو غلامي ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کا مؤثر وسيلہ ھے يھي وجہ تھي کہ اس زمانہ ميں جب بني اميہ اور بني عباس کے ظالم و جابر حکمراں، اسلام کي مقدس سرزمين پرقابض تھے اور مسلمانوں کے ھر طرح کے ميل جول کو تحت نظر رکھتے تھے تا کہ ھر آزادي کي تحريک کو کچل ديں اور اعتراض کي ھر آواز کو گلوںھي ميں گھونٹ ديں ايسے دردناک زمانہ ميں ايام حج کا آنا آزادي اوراسلامي معاشرے کے ايسے روابط اور مختلف سياسي مسائل کو ايک دوسرے کے سامنے پيش کرنے کے لئے ايک دريچہ کا کام ديتا تھا ۔
اس وجہ سے حضرت علي (ع) حج کے فلسفہ کے متعلق فرماتے ھيں ” اَلحَجُّ تَقوِيَةُ الدِّينِ‘ ‘ خداوند عالم نے حج کو دين کے لئے باعث تقويت بنايا ھے ،ايک غير مذھب اور مشھور سياست داں کا يہ کھنا بلاوجہ نھيں ھے کہ وہ اپني پُر معني گفتگوکے دوران کہتا ھے کہ افسوس ، مسلمانوں کے حال پر کہ اگر حج کے معني نہ سمجھيں اور افسوس اسي طرح مسلمان دشمنوں پر کہ اگر حج کے واقعي معني کو درک کريں?يھاں تک کہ اسلامي روايات ميں حج کو ضعيف اور کمزور افراد کے لئے جھاد کے نام سے يادکيا گيا ھے ، حج ايسا جھاد ھے کہ جس ميں بوڑھے ، ناتوان مرد اور کمزور عورتيں بھي شريک ھو کر اسلام کي عظمت و جلال کودنيا کے سامنے پيش کر سکتے ھيں، اور خانہ کعبہ کے اردگرد نمازيوں کي صفوں ميں کھڑے ھوکر وحدت و تکبير کي آواز بلند کرکے دشمن کي کمر توڑ سکتے ھيں اور دشمنوں کے ايوانوں ميں لرزہ پيدا کرسکتے ھيں ۔
حج اور خانہ کعبہ کا طواف شرک سے نفرت اور مشرکوں سے بيزاري کا بہترين موقع ھے اگرچہ ھر طرح کي عبادت شرک سے نفرت اور طاغوت سے بيزاري ھي کا نام ھے ، اسي طرح حج اور خانہ کعبہ کا طواف بھي نمازھي کے مثل ھے يا يہ کہ اسميں بھي نماز ھے ” اَلطَّوافُ بِالبَيتِ فَاِنَّ فِيہِ صَلاةٌ “
يہ روايت بھي اسي اصل اور بنياد کي حکايت کر رھي ھے ( يعني طاغوت سے بيزاري اور شرک سے نفرت ) چونکہ حج ايک مخصوص عبادت ھے جس ميں سياست کي بھي آميزش ھے اور دنيا کے مختلف طريقوں کا اس عبادت ميں حاضر ھونا ايک بہترين اور مناسب موقع ھے تاکہ الله کي دوسري عبادتوں کي طرح اس قابل ملاحظہ مجمع ميں روح عبادت بہتر طور پر جلوہ گر ھو اور اس خاص عبادت کا جوھر اپني پوري آب وتاب کے ساتھ چمکے لہذا فرمان الھي کے مطابق پيغمبر اسلام (ص) نے اسلامي حکومت کے نمايندے حضرت علي (ع) کو مشرکوں سے بيزاري کے اعلان پر مامور فرمايا تاکہ توحيد کي سرحد شرک و طاغوت کي سر حد سے مکمل اور قطعي طور پر جدا ھو جائے ، اور مسلمانوں کي صفيں کفار ومشرکين کي صفوں سے ممتاز اور عليحيدہ ھوجائيں اور اس طرح سے حج کاسياسي اور عبادي چھرہ جلوہ گر ھو اور بيت الله کے زائر اسلامي حکومت کايہ منشور سن کر جو شرک سے نفرت او رمشرکوں کے سامنے تسليم نہ ھونے پر مشتمل ھے اس پيام توحيد کو اس طرح ( جيسا کہ مسلمان اپني زندگي ميںبہت سے کاموں ميں کعبہ کي سمت متوجہ ھوئے ھيں ) ويسے ھي بيت اللہ کي برکت سے توحيد کا پيغام بھي دنيا کے مختلف گوشوں ميں پھيل جائے۔
”وَاَذَانُ مِنَ اللهِ وَ رَسُولِہِ اِلَي النَّاسِ يَومَ الحَجِّ الاَکبَرِ اِنَّ اللهَ بَريءٌ مِنَ المُشرِکِينَ وَ رَسُولُہُ فَاِن تُبتُم فَہُوَ خَيرٌ لَکُم وَ اِن تَوَلَّيتُم فَاعْلَمُوا اَنَّکُم غَيرُ مُعجِزِيِ الله“
اور حج اکبر کے دن ( جس دن سب حاجي مکہ ميں جمع ھوتے ھيں ) الله ورسول کي طرف سے يہ عام اعلان ھے کہ الله اور اس کا رسول (ص) دونوں مشرکوں سے بيزار ھيں ، لہذا اگرتم لوگ توبہ کروگے( اور اسلام لے آؤ گے ) تو تمھارے لئے دنيا اور آخرت دونوں ميںبہتر ھوگا اور اگر انحراف کيا تو ياد رکھنا کہ تم خدا کي قدرت پر غالب نھيں آسکتے ( بلکہ خدا اور رسول(ص) کي قدرت کے سامنے کمزور رھو گے)۔
قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ھوئے امام زمانہ(عج) کے نائب کبير سيد العلماء والعرفاء و سيد الفقھاء حضرت امام خميني (رہ) ( طاب ثراہ ) نے بپھرے ھوئے شير کے مانند حج کے زمانہ ميں مشرکوں سے بيزار ي کي آواز بلند کي ، اور تمام حاجيوں کومشرکوں سے بيزاري کے لئے دعوت دي ، يھاں پر ھم تبر کاً امام زمانہ(عج) کے نائب کے جامع پيغام اور منشور مقدس کي چند سرخياں پيش کرتے ھيں ۔
source : tebyan