لمائے اھل سنت کا نظریہ یہ ھے کہ خمس کا تعلق ھر طرح کی در آمد و منفعت سے نھیں بلکہ ایک خاص منفعت سے ھے جسے جنگی غنائم کھتے ھیں ۔
صاحب تفسیر ” الجامعِ لاَحکام القرآن “ اپنی تفسیر میں لکھتے ھیں کہ سارے علماء کا اتفاق اس بات پر ھے کہ غنیمت سے مراد صرف جنگی غنیمت ھے ۔
” واعلم ان الانفاق حاصل علی ان المراد بقولہ تعالیٰ ”غنتم من شئی.........“ مال الکفار و اذا ظفر بہ المسلمون علی وجہ الغلبة و القھر “
علماء شیعہ و اھل سنت کے درمیان اختلافی موارد
۱۔ متعلق خمس
۲۔ تقسیم خمس
۳۔ مصارف خمس
متعلق خمس :
( وہ اشیاء جن پر خمس واجب ھوتا ھے )
اھل سنت علماء کا کھنا ھے کہ : خمس فقط غنائم جنگی سے نکلتا ھے ، اسکے سوا دوسری چیزوں میں خمس نھیں ھے۔جبکہ علمائے شیعہ کا نظریہ یہ ھے کہ خمس غنائم جنگی سے مخصوص نھیں ھے بلکہ اسکا تعلق ھر قسم کی زائد منفعت سے ھے خواہ اسے میدان جنگ میں حاصل کیا جائے یا زندگی کے دیگر میدانوں میں ۔
اھل سنت ”خمس “ کو دار الحرب ا و رایام جنگ سے مخصوص جانتے ھیں جو ایک وقتی امر ھے ، کبھی ھے اور کبھی نھیں ھے ۔ لیکن شیعہ مذھب میں ”خمس “ زمان جنگ سے مخصوص نہ ھونے کے سبب دائمی ھے اور مسلمانوں کی پوری اقتصادی زندگی کو شامل ھوتا ھے ۔
اختلاف کی وجہ
دونوں مذھب میں نظر یاتی اختلاف کا سبب لفظ ”غنمتم “ ھے ۔ شیعہ کھتے ھیں کہ ھمارے اماموں نے فرمایا ھے :” غنمتم “ سے مراد ھر وہ منفعت ھے جو سالانہ خرچ سے زیادہ ھو جبکہ اھل سنت اس کو نھیںمانتے اور کھتے ھیں کہ یہ آیت ایام جنگ سے مربوط ھے لھذا صرف غنائم جنگی میں خمس ھونا چاھئے ۔
source : tebyan