با دل اور با رش اور بر ق
ورعد الم تر ان اللہ یز جی سحا با ثم یو لف بینہ ۔۔الخ (نو ر:۴۳ ٌ )
” کیا تو نے نھیں دیکھا کہ یقینا ً خدا ھی با دل کو چلا تا ھے ۔ پھر وھی با دل کو با ھم ملا تا ھے ۔ پھر وھی اسے تھہ بہ تھہ رکھتا ھے ۔ تب اس کے در میا ن سے با رش کو نکلتا ھوا تم دیکھتے ھو اور آ سما ن میں جو ( جمے ھو ئے با دلو ں کے ) پھا ڑ ھیں ان میں سے وھی اسے بر ساتا ھے پھر انھیں جس پر چا ھتا ھے پھنچا دیتا ھے ۔ اور جس سے چا ھتا ھے ٹا ل دیتا ھے “۔۔الخ ۔
بر ق ورعد ھوالذی یر یکم البرق خو فا ً وطمعا وینشئی السحا ب الثقا ل (۱۲) ویسبح الرعد ۔۔الخ
” وھی ھے کہ جو تمھیں ڈرانے اور امید دینے کے لئے ( بجلی کی چمک دکھا تا ھے ) اور ( پا نی سے بھر ے ) بو جھل با دلو ں کو پیدا کر تا ھے ۔ گرج اور فر شتے اس کے خوف سے اس کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح کر تے ھیں ۔ اور وھی ( آسما ن سے ) بجلیا ںبھیجتا ھے پھر اسے جس پر چا ھتا ھے گرابھی دیتا ھے ۔ اور یہ لوگ خدا کے با رے میں ( خوا ہ مخواہ ) جھگڑا کر تے ھیں ۔ حا لا نکہ وہ بڑا سخت قوت والا ھے ۔“ ( الرعد:۱۲ٌ )
سما وات
(۱) ۔ ” اس نے آ سما نو ں کو ایسے ستو نو ن کے بغیر پیدا کیا کہ جن کو تم دیکہ سکو اور اسی نے (زمین) کسی طرف جھک نہ جا ئے ۔اور اسی نے ھر طرح کے چلنے پھر نے والے جا نو ر زمین پر پھیلا دیئے ۔“ ال ۔
(۲) ۔” کیا تم نھیں دیکھتے ھو کہ اللہ نے کس طرح آ سما ن تھہ بہ تھہ بنا ئے اور ان میں چا ند کو نور اور سوج کو چرا غ بنا یا ۔“
(۳) ۔ ” اور ھم نے تمھا رے اوپر سات مضبوط آ سما ن بنا ئے ( ۱۳) اور ایک نھا یت رو شن و گر م چرا غ پیدا کیا ۔“ نبا ء
(۴) ۔” اور ھم نے آ سما نو ں کو اپنی قدرت کے ھا تھو ں سے پیدا کیا اور یقیناً ھم (انمیں ) وسعت کر نے والے ھیں ۔“ )(ذاریات:۷ ٌ )
(۵) ۔” اور ھم نے تمھا رے اوپر سات راستے بنا ئے اور ھم مخلوق سے بے خبر نھیں ھیں ۔“ ( ۱۷۔ مو منو ن ٌ )
(۶) ۔” پھر وہ آ سما ن کی طرف متو جہ ھو ا اور وہ ( آ سما ن اس وقت ) دھو اں تھا ۔ تو اس نے اس سے اور زمین سے کھا تم دو نو ں آ ؤ ۔ ( اطا عت کرو ) خو شی سے یا کرا ھت سے دونو ں نے کھا ھم بخوشی حا ضر ھیں ( حکم کے تا بع ھیں ) پھر اس نے دودن میں اس (دھوئیں ) کے سات آ سما ن بنا ئے ۔“ ۔الخ ۔
(۷) ۔” وہ (خدا کہ ) جس نے تما م آ سما نو ں اور زمین اور کچہ ان دو نو ں میں ھے ۔ چہ دن میں پیدا کیا ۔ پھر عر ش ( اقتدار ) پر غا لب ھو ا ۔“ ۔۔الخ (فرقانٌ )
(۸) ۔” اور آ سما ن کی قسم جس میں را ستے ھیں ۔“ (ذاریا ت :۷ٌ )
(۹)۔” بابر کت ھے وہ خدا کہ جس نے آ سما ن میں برج بنا ئے ( ۱۳ ) اور ان بر جو ں میں ( آ فتا ب کا ) چرا غ اور جگمگا تا چا ند قرار دیا ۔“ ( ۹۴ ۔ بروج ٌ )
شمس و قمر
(۱)۔” وھی وہ (خدا ) ھے کہ جس نے آ فتا ب کو چمکدار اور ما ھتا ب کو رو شن بنا یا اور اس کی منازل مقرر کیں ۔“
” تا کہ تم لو گ سالو ں کی گنتی اور حساب معلو م کر سکو ۔“ ( یو نس:۵ ٌ )
(۲) ۔” اور وھی ( قا در مطلق ) ھے کہ جس نے رات ودن اور آ فتا ب و ما ھتا ب کو پیدا کیا کہ جو سب کے سب ایک ایک مدار میں تیر رھے ھیں ۔“
(۳) ۔” اور ( خدا کی ایک نشا نی ) آ فتا ب ھے کہ جو اپنے ٹھکا نے پر چل رھا ھے یہ ( سب سے ) غا لب واقف کا ر کا ( مقرر ) اندا زہ ھے ۔ اور ھم نے چا ند کے لئے منا زل مقرر کیں ۔ یھا ں تک کہ ھر پھر کر ( آ خر ما ہ میں ) کھجور کی پرا نی شا خ کی طرح ( پتلا ، ٹیڑ ھا ) ھو جا تا ھے ۔ نہ تو آ فتا ب ھی سے بن پڑ تا ھے کہ وہ ما ھتا ب کو جا لے ۔ اور نہ ھی رات دن سے آ گے بڑہ سکتی ھے ۔ (چا ند ، سورج ، ستا رے ) ھر ایک اپنے اپنے آ سما ن ( مدار ) میں تیر رھا ھے ۔“
ستا رے و سیا رے
(۱) ۔” ان ستا روں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ھٹ جا تے ھیں ۔ اور غا ئب ھو جا تے ھیں ۔“ ۱۵۔۱۶ ۔ تکویر ٌ )
(۲) ۔” اور وھی وہ خدا ھے کہ جس نے تمھا رے ( نفع کے ) لئے ستا رے پیدا کئے تا کہ تم جنگلو ں اور در یا ؤ ں کی تا ریکیو ں میں ان سے را ستے معلو م کرو ۔ جو لو گ واقف کا ر ھیں ان کے لئے ھم نے تفصیل سے نشا نیا ں بیا ن کر دی ھیں “ ( ۹۷۔انعام ٌ )
(۳) ۔” اور ھم نے آ سما ن دنیا کو ( ستا رو ں کے ( چرا غوں سے زینت دی اور ان کی شیا طین کے ما ر نے کا آ لہ بنا یا ۔ اور ھم ان کے لئے دھکھتی ھو ئی آ گ کا عذاب تیا ر کر رکھا ھے ۔ ( ۵۔الملک ٌ )
شھاب
(۱)۔ ” ھم نے آ سما ن کو ٹٹو لا تو اس کو بھت قوی نگھبا نو ں میں اور شعلو ں سے بھرا ھو ا پا یا ۔“ (الجن:۸ٌ )
زمین:
(۱) ۔ ” وہ (خدا) کہ جس نے تمھا رے لئے زمین کو گھوارہ بنا یا اور اس میں تمھا رے نفع کے لئے را ستے بنا ئے تا کہ تم راہ معلو م کر سکو ۔“ ( ز خرف :۱۰ٌ )
(۲) ۔” وھی وہ ذات ھے کہ جس نے زمین کو بچھا یا اور اس میں ( بڑے بڑ ے ) پھا ڑ اور در یا بنا ئے اور اس نے ھر طرح کے پھلو ں کی دو ، دو قسمیں ( جو ڑا) پیدا کیں ۔ وھی رات دن کو ڈھا نک دیتا ۔ یقیناً جو لو گ غور وفکر کر تے ھیں ان کے لئے اس میں ( خدا کی قدرت کی ) بھت سی نشا نیا ں ھیں ۔“ (الرعد :۴ٌ )
(۳) ۔” اور ھم نے زمین کو پھیلا ۔ اور اس میں پھا ڑ و ں کے لنگر ڈال دیئے اور ھم نے اس میں ھر قسم کی منا سب و مو زوں چیز ا گا ئی ۔“ ( ۱۹۔ الحجر ٌ )
(۴) ۔” اور زمین میں یقین کر نے کے لئے بھت سی نشا نیا ں ھیں اور تمھا رے نفو س میں بھی ۔ کی بغور نھیں دیکھتے ھو اور آ سما ن میں تمھا را رزق ھے کہ جس کا تم وعدہ کئے گئے ھو ۔“
(۵) ۔” وہ وھی ( خدا ) تو ھے جس نے زمین کو تمھا رے لئے نر م و ھموار کر دیا ، تم اس کے اطراف و جو انب میں چلو پھر و اور اس کی دی ھو ئی روزی کھا ؤ اور پھر اسی کی طرف لو ٹ کر جا نا ھے ۔“ ( ۱۵۔ الملک ٌ )
(۶) ۔” اور ھم نے ھی زمین پر بو جھل پیا ڑ بنا ئے تا کہ زمین ان لو گو ں کو لے کر کھیں جھک نہ جا ئے اور ھم نے اس میں چوڑ ے چو ڑے راستے راستے بنا ئے تا کہ یہ لو گ راہ پا سکیں ۔( ۳۱۔ ابنیا ء ٌ )
(۷) ۔” اور تم پھا ڑ و ں کو دیکہ کر انھیں مضبو ط ٹھھر ے ھو ئے سمجھتے ھو حالا نکہ با دل کی طرح چلتے ھیں ۔۔ الخ ( ۸۸۔ النحل ٌ )
علم قیا فہ اس علم میں انسانی بنا وٹ وسا خت پر بحث ھو تی ھے جس سے اس کے با طنی اخلا ق و صفا ت اور حا لا ت معلوم کئے جا تے ھیں ۔ کیو نکہ رنگ ووضع اور اندازو مقدار کے اختلا ف کے لئے ضروری ھے کہ کو ئی خا ص وجہ و غرض ھو جس طرح بدن کی بنا وٹ سے انسان کے با طنی حالا ت معلو م کئے جا تے ھیں اسی طرح اس کے ھا تہ پا ؤ ں اور سر کی حر کت اور انداز گفتگو سے اس کے با طنی اخلا ق معلوم کئے جا سکتے ھیں ۔ جیسا کہ گفتگو کے وقت نا ک کا پھولنا نخوت کی دلیل ھے اور ھر وقت نظر یں جھکا ئے رکھنا بزدلی کی نشا نی ھے ۔ گفتگو کے وقت نظر یں لڑا ئے رکھنا بے حیا ئی کی دلیل ھے ۔ اور جلد جلد گفتگو کر نا حما قت کی دلیل ھے ۔ اور آ ھستہ آ ھستہ گفتگو کر نا عقل مندی کی دلیل ھے ۔ بلند آ واز ی پھیپھڑوں کی وقت کی دلیل ھے ۔ آ نکھو ں کی معمو لی سے زیا دہ گردش عیا ری کی نشا نی ھے اور قد کا کمبا ، ھو نا حما قت کی علا مت ھے اس علم قیا فہ کی مختلف آ یا ت میں و ضا حت کی گئی ھے ، چنا نچہ سو رئہ احزاب میں منا فقین کی حا لت کو بیا ن کر تے ھو ئے خدا ئے کا ئنا ت کا ارشاد ھے کہ ۔
” فا ذا جا ء الخو ف را ئیتھم ینظر ون الیک تدو ر اعینھم کالّذی یغشی علیہ من المو ت فا ذا ھب الخو ف سلقو کم بالسنة حداد “ ۔۔الخ (۱۹ٌ )
” تو جب ( ان پر ) کو ئی خوف ( کا مو قع ٌ ) آ پڑا تو تم ان کو دیکھتے ھو کہ ( یا س سے ) تمھا ری طرف دیکھتے ھیں اور ان کی آ نکھیں اس طرح گھو متی ھیں کہ جیسے کسی پر موت کی بے ھو شی طا ری ھو جا ئے اور پھر جب خوف جا تا رھا ( ایمان داروں کی فتح ھو گئی ) توما ل ( غنیمت ) پر گر تے پڑ تے تم پر اپنی تیز زبا نو ں سے طعن کر نے لگے ۔ یہ لو گ ایما ن ھی نھیں لا ئے ۔ الخ
اس آ یت میں گر دش چشم اور تیز گفتگو سے ان کے ایما ندار نہ ھو نے پر استدلا ل کیا گیا ھے کہ وہ محض دکھا وے کے مو من ھیں ۔ ان کے با طن میں کفر ھے ۔ اور دوسری جگہ خلا ق عالم کا ارشاد ھے ۔
ویقول الذین آ منو الو لا نز لت سورة (ج) فا ذا انزلت سورة محکمة وذکر فیھا القتا ل رایت الذین فی قلو بھم مر ض ینظرو ں الیک نظر المغشی علیہ من الموت ۔۔ الخ ( محمد:۲۰ ٌ )
” اور مو من کھتے ھیں کہ ( جھا د کے لئے ) کوئی سورہ کیو ں نازل نھیں ھوتا لیکن جب کوئی صاف واضح معنی کا سورہ اور اس میں جھا دکا بیان ھوا تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا )ھے تو تم ان کو دیکھو گے کہ تمھاری طرف اس طرح دیکھتے ھیں جیسے کسی پر موت کی بے ھوشی طاری ھے ۔
اس آیت میں ان کے نفاق کے اظھاران کی حرکت چشم سے واضح کیا گیا ھے اور اسی سورہ محمد میں ھے
ام حسب الذین فی قلوبھم مرض ان لن یخرج الله اضغانھم ۔۔۔الخ
”کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کا مرض ھے) ۔ یہ خیال کرتا ھے کہ خدا ان کے دل کے کینوں کو کبھی ظاھر نھیں کرے گا ۔اور اگر ھم چاھتے تو ان لوگوں کو دکھا دیتے تم ان کی پیشانی ھی سے ان کو پھچان لیتے ۔اور تم ان کو ان کے انداز گفتگو ھی سے ضرور پھچان لو گے ۔اور خدا تمھارے اعمال سے واقف ھے “