اصول دین و مذہب میں عقیدہ امامت ہر شخص كے لئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح توحید، عدل، نبوت اور قیامت یعنی اگر كوئی شخص اللہ كی وحدانیت و عدالت كا قائل ہے تو اس كے لئے عقیدہ امامت پر ایمان تكھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے ـ علم كلام میں اس ضرورت كی توجیہ " نظریہ لطف " سے كی گئی ہے ـ
اس لئے اگرہم ذات باری تعالی، كو عادل تسلیم كرتے ہیں تو اس كا لازمی و منطقی نتیجہ یہ ہوگا كہ اس كی جانب سے ہر زمانے میں كسی نہ كسی عہدہ دار ہدایت وراہنمائی كا وجود بھی ضروری ماننا پڑے گا ـ اگر چہ وہ ظاہر نہ ہو اور پردہ غیب میں رہ كر ہی ہدایت كے كام كو آگے بڑھارہا ہو ـ اس لئے كہ خود حضرت باری تعالی كا ارشاد و اعلان ہے كہ ہم نے كوئی زمانہ ایسا نہیں چھوڑا یا كوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں ہادی و رہبر نہ بھیجے ہوں ـ اس بارے میں قرآن حكیم كی یہ آیہ كریمہ بہت محكم ہے ـ "
و لقد بعثنا فی كل امة رسولاً " (۱) اور یقیناً ہم نے ہر امت كے لئے رسول بھیجے اسی طرح ایك اور مشہور آیت ہے جو اسی مضمون سے متعلق ہے كہ : " وماكنا معذبین نبعث رسولاً " (۲) اورہم تب تك عذاب نہیں كریں گے جب تك اپنا رسول نہ بھیج دیں ـ چنانچہ ہم كسی بھی زمانے میں حجت خدا اور وجود رہبر سے انكار نہیں كرسكتے ـ ورنہ جناب باری تعالی كے اعلان كی تكذیب كے علاوہ اس كی عدالت میں بھی شبہ پیدا ہوجائے گا جو ناممكن ہے ـ ہاں ! یہ بات بالكل الگ ہے كہ كوئی خدا كی توحید كا قائل تو ہو لیكن اس كے عدل ہی كا قائل نہ ہو تو اس كا علاج مشكل ہے اور فلسفہ و حكمت یادین و مذہب كی منطقی دلیلیں اس كا ساتھ بہر حال نہیں دے سكتیں ِ یقیناً خداوند كریم نے ازل سے لیكر وفات رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك اور وفات رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت تك كا ایك سلسلہ ہدایت قائم فرمایا ہے جو جاری و ساری ہے ـ سب سے پہلے حضرت حق نے مختلف انبیاء بھیجے اس كے بعد سرزمین عرب پر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو مبعوث فرمایا ـ اس كے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں كے ذریعہ سے ہدایت كے سلسلے كو جاری ركھا جو اس كے اور اس كے رسول (ص) كے سب سے زیادہ مطیع ہونے كے ساتھ ساتھ مشیت كی حفاظت كرنے والے تھے ـ ان حضرات پر نازل سے لے كر ابدتك كی تمام فضیلتوں كا خاتمہ ہوگیا، اور انھیں ہی خلق فرمانے كے بعد خداوند متكبر نے اپنی شان میں قصیدہ احسن الخالقین پڑھا ـ یہ سلسلہ ہدایت جو بعد ختم نبوت بصورت امامت شروع ہوا اس كی ابتدا جیسا كہ ظاہر ہے مقام ختم نبوت سے ہوتی ہے اور انتہا اس مقام پر ہوتی ہے جہاں ذہن انسانی كی رسائی كے لئے نبوت جیسی كوئی علامت بھی موجود نہیں یہی سبب ہے كہ اس منصب جلیل كے ان حضرات كو تفویض كرنے میں خالق كا ئنات اس سے جتنے امتحان لے سكتا تھا اس نے لئے اور جتنی بلاؤں میں ان كو گرفتار لے سكتا تھا كیا، اور جب ان حضرات نے تمام مصیبتوں كو اور آزمائشوں كو صبر و شكر خدا كے ساتھ طے كیا تب خدائے بزرگ و برتر نے یہ منزلت اور یہ عہدہ انھیں عطا فرمایاـ
source : tebyan