آداب تلاوت سے متعلق ھمیں ملنے والے دستورات واحکام کا ایک سلسلہ اس کی لفظی کیفیت سے متعلق ہے یعنی انسان سے جہاں تک ھوسکے اچھی قرائت کرے اور ”ترتیل“کے عنوان سے قرائت کرے اور احادیث کا ایک سلسلہ یہ بتاتا ہے کہ علم وتدبر کے سلسلہ میں غور وفکر کے ساتھ قرائت کرے۔
ترتیل کے سلسلہ میں قرآن، سورہٴ مزمل میں ارشاد فرماتاہے:<ورتل القرآن ترتیلا> اناسنلقی علیک قولا ثقیلا یعنی قرآن کے حروف کو مخارج کے ساتھ ادا کرتے ھوئے ٹھہر ٹھہر کر اس کی تلاوت کرو، ھم تم پر سنگین کلام نازل کریں گے۔ قرآن اس نقطہٴ نگاہ سے سنگین اور وزنی ہے کہ اس کے معارف وحقائق کا سمجھنا بھی دشوار ہے اور اس کے احکام پر عمل بھی مشکل ہے، ساتھ ھی قیامت کے دن یہ قول میزان کے پلڑے پر بھی وزنی وسنگین ہے جیسا کہ ارشاد ہے: <فَاٴَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَہُوَ فِی عِیشَۃٍ رَاضِیَۃ> قیامت کے روز جس کا عمل حق کی میزان میں وزنی ھوگا وہ جنت میں عیش وآرام کی زندگی بسر کرے گا
قرآن کریم اس جہت سے نفس کے لئے بھاری ہے کہ اس کے احکام نفسانی خواہشات کے برخلاف اور اس سے سازگار نہیں ہیںلہٰذا نفس پر بہت سنگین ودشوار ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس خواہشات کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے
نہج البلاغہ میں پیغمبراکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ایک قول نقل ہے، حضرت فرماتے ہیں: ” حفت النّار بالشّھوات وحفّت الجنّة بالمکارہ“
دوزخ خواہشات اور شہوات سے گھری ھوئی اور جنت دشواریوں سے گھری ہے۔ یعنی انسان جس طرف اور جس رخ سے لذت کی طرف کھینچا جائے اس کی انتہا آتش جہنم ہے۔ اور جس راہ سے بھی جنت تک پہنچنا چاہے، دشواریوں، مشکلوں اور مصیبتوں سے دوچار ھوتا ہے۔
قرآن اس نظر سے قول ثقیل اور وزنی ہے کہ قیامت کے دن اعمال کی الٰہی میزان میں تولا جائے گا، کیونکہ اس روز اس کی حقیقت ظاہر ھوگی، اس روز اس کے اسرار کھلیں گے اور لوگوں کی سمجھ میں آئے گا کہ قرآن احکام ودستورات کے اعتبار سے بہت وزنی تھا۔
لیکن یہی قرآن جو نفس امارہ اور قوت شہوت وغضب کے لئے بہت دشوار اورسنگین ہے کوری اور اچھوتی فطرت کے لئے آسان ہے، ارشاد ھوتا ہے:<وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ>یہ آیت جو سورہٴ قمر میں چار مرتبہ نازل ھوئی ہے اس میں ارشاد ھوتا ہے کہ ھم نے قرآن کو پندو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ہے، کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟جب کہ سورہٴ مزمل اسی قرآن کو قول ثقیل قرار دیتا ہے اور یہاں فرماتاہے کہ قرآن آسان ہے۔ اور ھم نے اسے آسان قرار دیا ہے وہ سنگینی اور ثقالت اس اعتبار سے تھی کہ اس کا مفہوم ومطالب سنگین وگراںقدر ہے ھلکا پھلکا نہیں ہے۔ اور یہ آسان سنگین کے مقابل میں نہیں ہے کہ بعض لوگ یہ سوچنے لگیں کہ ان دوآیتوں میں تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتاہے، کیونکہ ثقیل، خفیف کا مقابل ہے اور یسیر(آسان) عسیر(مشکل) کے مقابلہ میں ہے۔ لھٰزا یہ قرآن ھلکا اور سبک نہیں ہے اس لئے کہ اس کے معانی ومفاہیم سنگین ووزنی ہیں اور دوسری طرف مشکل ودشوار بھی نہیں ہے کیونکہ فطری ضروریات کے عین مطابق ہے۔
سورہٴ مزمل کی آخری آیت میں ارشاد ھوتا: فَاقْرَئُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ عَلِمَ اٴَنْ سَیَکُونُ مِنْکُمْ مَرْضَی وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْاٴَرْض خداجانتاہے کہ تم ھمیشہ صحیح وسالم اور حالت حضر میں نہیں ھو بلکہ کبھی سفر میں ھواور کبھی مشکلات دشواریوں اور امراض کا شکار، بہرحال قرآن پڑھنے کے مناسب موقعوں کو ھاتھ سے جانے نہ دو اور غنیمت سمجھو۔ عام حالات میں قرآن پڑھو کیونکہ ھمیشہ قرآن پڑھنا تمہیں میسر نہ ھوگا
انسان جب قرآن کی تلاوت شروع کرتاہے عبادت خدا میں مشغو ل ھوتا ہے اورچونکہ منزل عبادت میں قدم رکھتا ہے لھٰزا شیطان اس کے خلاف اپنے حملہ کا آغاز کرتا ہے چنانچہ ارشاد ھوتا ہے:<فَإِذَا قَرَاٴْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ> جب قرآن پڑھنے کا قصہ کروتو شیطان کے شرے محفوظ رہنے کے لئے درگاہ الٰہی میں پناہ حاصل کرو“
بنابرابن جب قرائت وتلاوت غورو فکر اور تزکیہٴ نفس کے ساتھ ھو توعبادت ہے اور جب عبادت ہے تو شیطان حملہ آور ھوتا ہے اور جب شیطان حملہ کرتا ہے تو اس سے محفوظ رہنے کے لئے استعاذہ ضروری ہے لھٰزا یہ استعاذہ یعنی ”اعوذباللّہ من الشیطان الرجیم“ آداب تلاوت میں سے ہے۔
source : tebyan