اردو
Thursday 21st of November 2024
0
نفر 0

اسماء و اوصاف قرآن

علماء ومفسرين، قرآن کے اسماء کي تعدادکے سلسلے ميں اختلاف نظررکھتے ہيں۔ابوالفتوح رازي نے اپني تفسیر(روضۃالجنان )ميں قرآن کے ٤٣ ناموں کاتذکرہ کيا ہے ۔ زرکشي نے قاضي ابوالمعالي سے نقل کرتے ہوئے ٥٥ ناموں کا ذکر کيا ہے ۔ جبکہ بعض افرادنے قرآن کیلئے ٨٠ نام ذکرکئے ہیں۔ ان افرادنے قرآن کريم کیلئے جن اسماء کا ذکر کيا ہے ان ميں سے بعض وہ ہيں جوخودقرآن ميں بطورصفت استعمال ہوئے ہیں۔
اسماء و اوصاف قرآن

علماء ومفسرين، قرآن کے اسماء کي تعدادکے سلسلے ميں اختلاف نظررکھتے ہيں۔ابوالفتوح رازي نے اپني تفسیر(روضۃالجنان )ميں قرآن کے ٤٣ ناموں کاتذکرہ کيا ہے ۔

زرکشي نے قاضي ابوالمعالي سے نقل کرتے ہوئے ٥٥ ناموں کا ذکر کيا ہے ۔ جبکہ بعض افرادنے قرآن کیلئے ٨٠ نام ذکرکئے ہیں۔

ان افرادنے قرآن کريم کیلئے جن اسماء کا ذکر کيا ہے ان ميں سے بعض وہ ہيں جوخودقرآن ميں بطورصفت استعمال ہوئے ہیں۔

اسماء واوصاف ميں عدم تشخيص و تميزاورمختلف طرزتفکرکواختلاف رائ کاسبب کہاجاسکتاہے ۔

اوريہ بات بھي قابل توجہ ہے کہ بعض افرادکي نظرميں قرآن کے علاوہ قرآن کا کوئي دوسرا نام نہيں ہے۔ ہم يہاںمناسب سمجھتے ہیں کہ عناوين قرآن کواسماء اوراوصاف کے ذيل ميں بيان کياجائے۔

الف : قرآني اسماء ، عناوين قرآن ميں سے چار عنوان ايسے ہیں جومسلم قرآن کیلئے اسماء کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔جواپني اہميت اور کثرت کے اعتبارسے بالترتیب يہ ہیں۔

١) قرآن :  بل ھوقرآن مجيد،  يقيناً يہ بزرگ و برتر قرآن ہے (سورہ بروج :٢١)

٢) کتاب :  کتاب انزلناہ اليک ، يہ ايک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کي طرف نازل کيا۔ (سورہ ص: ٢٩)

٣) ذکر : ھٰذا ذکر مبارک ،  يہ ایک مبارک ذکر ہے (سورہ انبياء :٥٠)

٤) فرقان : تبارک الذي نزّل الفرقان عليٰ عبدہ  ،  بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پرفرقان نازل کيا۔(فرقان ١)

زرقاني نے مندرجہ بالا اسماء ميں’’تنزيل‘‘ کا بھي اضافہ کياہے ۔کتاب ،ذکر، فرقان ، يہ تين عنوان قرآن کے علاوہ دوسري آسماني کتابوں کیلئے بھي استعمال ہوتے ہیں۔جبکہ لفظ’’قرآن‘‘بطور خاص موجودہ قرآن کیلئے استعمال ہواہے ۔

ب) اوصاف قرآن : ہم يہاں ان اوصاف کاذکرکررہے ہیں کہ جوخودقرآن ميں قرآن کيلئے بطوروصف استعمال ہوتے ہیں۔

١) مجيد : ق والقرآن مجيد (ق٢)

٢) کريم : انہ لقرآن کريم  (واقعہ ٧٧)

٣)حکيم : يٰسين والقرآن حکيم  (يٰسين١)

٤) عظيم : ولقد تيناک سبعاً من المثاني والقرآن العظيم (حجر٨٧)

٥) عزير : انّہ الکتاب عزير لا ياتيہ الباطل ( فصلت ٤١)

٦) مبارک : ھذا ذکر مبارک ( انبيا : ٠ ٥ )

٧ ) مبين : تلک يات الکتاب و قرآن مبين (حجر١)

٨ ) متشابہ :  اللہ نزل احسن الحديث کتابا متشابھا (زمر٢٣)

٩ ) مثاني : اللہ نزل احسن الحديث کتاباً متشابھا مثاني (زمر ٢٣)

١٠ ) عربي : انّا انزلناہ قرنا عربيا لعلکم تعقلون (يوسف٢)

١١) غير ذي عوج : قرناً عربياً غير ذي عوج لعلھم يتقون  (زمر ٢٨)

١٢) ذي الذکر : ص والقرآن ذي الذکر ( ص ١)

١٣) بشير :  کتاب فصلت ياتہ.. بشيراً  (فصلت٢٣)

١٤ ) نذير : کتاب فصلت ياتہ بشيراً و نذيرا ( فصلت ٢٣)

١٥) قيّم : الحمد للّٰہ الذي انزل علي عبدہ الکتاب... قيّماً ( کہف ١٢)

آخر ميں ہم ايک اور نام کي طرف اشارہ کرتے ہيں اگرچہ يہ نام خود قرآن ميں استعمال نہيں ہوا ہے ۔ مگر بعض افراد کا عقيدہ ہے کہ پيغمبر  کي رحلت کے بعد قرآن کا رائج ترين اور مشہور و معروف نام ’’ مصحف‘‘ تھا جبکہ خود پيغمبر کي زندگي ميں قرن کے لئے کوئي معين اور متفق عليہ نام نہ تھا ۔

اس نام گزاري کي کيفيت کے سلسلہ ميں ڈاکٹر رامياد کہتے ہيں : قرآن کي جمع وري کے بعد اصحاب پيغمبر نے يہ چاہا کہ اس کے لئے کوئي نام تجويز کيا جائے لھٰذا بعض نے چاہا کہ اسے انجيل کيا جائے ، جب کہ بعض نے اس کو سفر کہے جانے کي پيش کش کي ، مگر يہ تمام رائ رد ہوگئيں خر کار عبد اللہ ابن مسعود نے اسے مصحف کہے جانے کي تجويز پيش کي جس پر سب کا اتفاق ہو گيا پھر اسي وقت سے قرآن کو مصحف کے نام سے پہچاہا جانے لگا۔

يہ بات تو مورد قبول ہے کہ پيغمبر اسلام (ص)کي رحلت کے بعد قرآن جلد ہي  مصحف کے نام سے مشہور ہو گيا ۔ مگر يہ کہ خود پيغمبراسلام (ص)کي زندگي ميں کوئي خاص اور معين نام نہ تھا قابل قبول نہيں ہے اس لئے کہ قرآن اور کتاب وہ الفاظ ہيں کہ جو خو د پيغمبر اسلام اور حضرت علي ٴکي روايات اور ان کے اصحاب کے اقوال ميں استعمال ہوئے ہيں ۔ جيسا کہ وہ معروف حديث جس ميں آپ نے فرمايا :

 اذا التبست عليکم الفتن کقطع الليل المظلم فعليکم بالقرآن ( اصول کافي جلد ٢ ص ٥٩٩)

يا آپ کا قول فضل القرآن علي سائر الکلام کفضل اللہ علي خلقہ  ( علوم القرآن عند المفسرين جلد ١ ص ٧٠)

يا آپ کي وہ وصيت کہ فرمايا : اني تارک فيکم الثقلين کتاب اللہ و عترتي(البرھان في تفسير القرآن جلد ١ ص ٩١٤)

اس کے علاوہ عصر نزول کي وہ صدھا روایات بھي ہيں جن ميں اس آسماني کتاب کو قرآن اور کتاب کے نام سے ياد کيا گيا ہے ۔ يہ تمام چيزيں ان ناموں کے اس زمانے ميں رائج اور مشہور ہونے کو ثابت کرتي ہيں ۔

اس کے ساتھ ساتھ يہ کس طرح ممکن ہے کہ ٢٣ سال تک مسلمانوں کي کتاب کا کوئي مشخص و معين نام ہي نہ ہو ؟ نيز علم نحو کے اعتبار سے لفظ’’ قرآن ‘‘ کا علم اور اسم خاص کے عنوان سے خود قرآن ميں استعمال ہونا بھي اس نام کي شہرت کا مبيّن ثبوت ہے ۔

پيغمبر اسلام  کي رحلت کے بعد ’’ مصحف‘‘ کے نام کي وجہ شہرت قرآن کي کتابت اور اسکي تدوين ہے ۔ صحيفہ ہر گستردہ اور پھيلي ہوئي چيز کو کہا جاتا ہے ، اسي لئے اس صفحہ کو جس پر لکھا جاتا ہے صحيفہ کہا جاتاہے اور مصحف ان صحيفوں کے مجموعے کا نام ہے کہ جو دو جلدوں کے درميان ہو ۔ پيغمبراسلام کي رحلت کے بعد مسلمانوں کے اہم وظائف ميں سے ايک کتابت قرآن اور اس کے لکھے ہوئے صحف کي جمع وري تھا لھٰذا ايسي صورت حال کے پيش نظر يہ نام قرآن کے لئے مشہور و معروف ہو گيا


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )
اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں حصول علم
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ
نہج البلاغہ کی عظمت
حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر
نمازِ شب کتاب و سنّت کی روشنی میں
خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)
یا عورتوں کو بھی پیغمبر[ص] کی نماز کے مانند نماز ...
فلسفہ نماز شب
پيغمبراکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم) پيکر صلح و ...

 
user comment