اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

قرآنِ کریم: جاوداں الٰہی معجزہ

پیغمبروں کے اکثر معجزات حسّی اثرات کی سلطنت میں اور اُنھی کے زمانے پر منحصر تھے اور فقط اُسی عہد کے لوگ اُن کا مشاہدہ کرتے تھے؛ لیکن قرآن کا اعجاز ابدی اور قیامت تک پائیدار اور باقی رہنے والا ہے۔ قرآن کا معجزہ عظمتِ معنی اور اُس میں پوشیدہ اَسرار اور اُس کے علم کا استعمال، محدود حواس اور طبیعی پہلوؤں سے ماورا میں قابلِ دید اور قابلِ دریافت ہے۔ اُس الٰہی الہام کا انکشاف اور گویائی ایک محدود دورے سے متعلّق نہیں اور اُس کے نور کی درخشانی کی جھلک ابد تک خود اُس پیغامِ الٰہی کی حقّانیت پر حجّت ہے۔
قرآنِ کریم: جاوداں الٰہی معجزہ

یغمبروں کے اکثر معجزات حسّی اثرات کی سلطنت میں اور اُنھی کے زمانے پر منحصر تھے اور فقط اُسی عہد کے لوگ اُن کا مشاہدہ کرتے تھے؛ لیکن قرآن کا اعجاز ابدی اور قیامت تک پائیدار اور باقی رہنے والا ہے۔ قرآن کا معجزہ عظمتِ معنی اور اُس میں پوشیدہ اَسرار اور اُس کے علم کا استعمال، محدود حواس اور طبیعی پہلوؤں سے ماورا میں قابلِ دید اور قابلِ دریافت ہے۔ اُس الٰہی الہام کا انکشاف اور گویائی ایک محدود دورے سے متعلّق نہیں اور اُس کے نور کی درخشانی کی جھلک ابد تک خود اُس پیغامِ الٰہی کی حقّانیت پر حجّت ہے۔

قرآن کی آیتیں اور الفاظ ایک بسیط اور لامتناہی واقعیت کی تجلّی اور روشن دلیل ہیں۔ قرآن ایک کہکشانی مشابہت رکھتی ہے جس کے بطن میں متعدّد مراتب پوشیدہ ہیں۔ قرآنی علوم کی گہرائی تک لطفِ خداوندی کے بغیر رسوخ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔اگر ہم قرآن کی آیات اور اُس کے الفاظ کا صرف ظاہری معنیٰ کے تحت اور اپنی معنویت کی گہرائیوں میں نفوذ کیے بغیر مطالعہ کریں تو قرآنی معنوں کا صرف سطحی طور پر سامنا ہوگا اور قرآن کے پوشیدہ راز ہم سے مخفی رہیں گے۔ فقط باطنی دریافت کے ذریعے کسی شخص کے لیے قرآن کی لامتناہی اور ابدی واقعیت کے انکشاف کا حصول ممکن ہے۔

جلال الدین رومی، متخلّص بہ مولوی، حقیقتِ قرآن کی دریافت اور ادراک کے مختلف درجات کے فرق کے بارے میں یوں کہتے ہیں: بعض لوگ اِس راہ میں دودھ پیتے بچّوں کی مانند قرآن کے لفظی معنوں کا ادراک حاصل کرتے ہوئے اُس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن وہ لوگ، جنھوں نے اُس کی شناخت کی راہ میں سلوک اختیار کر لیا ہے، اُس کے گہرے معنے دریافت کرتے ہیں اور اُن کے لیے ایک اَور ہی لذّت ہے۔

مکتبِ قرآن کے طالبِ علم کو چاہیے کہ قرآن کے معنوں کو ظاہری اور باطنی طور پر دریافت کر کے ادراک حاصل کرے اور اُس کی تعلیمات کو مکمّل یگانگت میں کشف کرے۔

مولوی اپنی "مثنویٔ معنوی" میں قرآن کے پوشیدہ بطون اور رازوں کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

 

حرف قرآن را مدان که ظاهر است  
زیر ظاهر باطنی هم قاهر است
زیر آن باطن یکی بطن دگر
خیره گردد اندر او فکر و نظر
  بطن چارم از نُبی خود کس ندید
جز خدای بی نظیر و بی ندید
همچنین تا هفت بطن ای بوالکرم  
می شمر تو زین حدیث معتصم
تو ز قرآن ای پسر ظاهر مبین
 دیو، آدم را نبیند غیر طین
ظاهر قرآن چو شخص آدمی است
که نقوشش ظاهر و جانش خفی است

                             

نہیں قرآں کے لیے معنیَ ظاہر کی حدود
اِس میں کچھ اور معانی ہیں جو ہیں لا محدود
اِس کے باطن میں کوئی اور نہاں باطن ہے
نظر و فکر سے توضیح نہیں ممکن ہے
اِس نہاں بطن میں چوتھا کوئی باطن ہے نہاں
جُز خدا اُس کا نہیں رمز کسی پر بھی عیاں
جان لو، سات ہیں وہ بطن جو قرآن کے ہیں
سارے پیرائے یہ اللّہ کے فرمان کے ہیں
جیسے ابلیس نے آدم کو فقط خاک کہا
اور جانا نہیں، اِس خاک میں کیا کیا ہے چھپا
یوں ہی قرآن کا ظاہر تو عیاں ہے ہم پر
روحِ قرآن سے واقف ہے وہ ربِّ اکبر


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
اہلِ حرم کا دربارِ یزید میں داخلہ حضرت زینب(ع) کا ...
لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں
اخلاق کى قدر و قيمت
اسوہ حسینی
ائمہ اثنا عشر
فلسفہٴ روزہ
نہج البلاغہ اور اخلاقیات

 
user comment