بندے کا انسان سے تعلق
اللہ تعالي ہي تمام کائنات کا حقيقي مالک ہے - يہاں پر ہر انسان زندہ و مردہ شے کو اسي کے دم سے وجود ميسر ہے - وہي قادر مطلق ہے اور اس کے حکم کے سوا کوئي کچھ بھي نہيں کر سکتا ہے - دنيا ميں اللہ تعاليٰ کے علاوہ جن جن سے کسي مدد، بخشش اور عنايت کي توقع کي جاتي ہے ، وہ تو خود اپنے ليے بھي کچھ کر لينے کي کوئي طاقت نہيں رکھتے - جس خداوند نے يہ آسمان و زمين بنائے ، پہاڑ و دريا تخليق فرمائے اور انسان کو زندگي اور دوسري ساري نعمتيں عطا کي ہيں ، وہي اکيلا انسان کا پالنہار اور خالق و مالک ہے- اور آخري درجہ ميں لازمي ہے کہ وہي انسان کي تمام عبادتوں ، تعظيم و تکريم، توجہات، گہرے جذبات اور دعاۆ ں اور التجاۆ ں کا مرکز و مرجع ہو-
شکم مادر ميں بچے کو غذا دينے والا وہي رب ہے -
ماں کے پيٹ ميں ايک ننھي جان کي پرورش و بقا اور افزائش کا انتظام کون کرتا ہے -آسمان سے بارش برسانے والا وہي رب ہے - زمين سے غلہ و نباتات اگانے والا وہي رب ہے - رات اور دن کي يکے بعد ديگرے آمد و برخاست کس کے اشاروں کي رہينِ منت ہے ؟ سورج کس کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا اور تارے کس کي رحمت سے چمکتے ہيں ؟ زمين کو بچھونا اور انساني تہذيب و تمدن کي تزئين و تحسين کے ليے موافق اسباب کا عظيم الشان گودام کس نے بنايا ہے ؟ ان سارے سوالوں کے جواب ميں ايک خداوندِ کائنات کے علاوہ کس ہستي کا نام ليا جا سکتا ہے - کسي کا بھي نہيں - تو پھر عبادت و استعانت کا حق دار اُس کے علاوہ کوئي دوسرا کيسے ہو سکتا ہے - زمين و آسمان کي نشانياں ، خدا کي نازل کردہ کتابيں اور اُس کے اولو العزم پيغمبروں کي تعليمات اور سيرتيں ايسي کسي بات کے حق ميں اپنے اندر کوئي بھي دليل نہيں رکھتي-
قافلۂ انساني کے بہترين اور اعليٰ ترين لوگ ہميشہ اپنے آپ کو اُس کا عاجز بندہ کہتے اور اپني محبتوں ، انديشوں ، فريادوں اور بہترين جذبوں کا مرکز ہميشہ اُسے ہي بناتے رہے ہيں - تو ان کے بعد آنے والوں اور ان کے ماننے والوں کو يہ کس طرح زيب دے سکتا ہے کہ وہ کسي اور دربار، بارگاہ اور آستانے پر جائيں اور اپني منتيں اور حاجتيں مانگيں
source : tebyan