تقویمِ ماہ و سال میں ایک اور نیا ھجری سال ۔اسلامی مہینے محرم الحرام 1430 ھجری کےمحرم کی دس تاریخ کہ جب کربلا کی تپتی زمین پر خانوادہء رسول نے اسلام کی حیات کے لیئے اپنی زندگیوں کے چراغ ایسے گُل کیے کہ انکی روشنی ہر اندھیرے میں حق کی تلاش کرنے والوں کو آج بھی رستہ دکھاتی ہے ضرورت اگر ہے تو صرف نیک نیتی اور یقینِ کامل کی.آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جیسے تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور عملی اسلام سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین کو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات میں گم ہو چکے ہیں اور فکر ہماری معاشرت سے جیسے رخصت ہو چکی ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔اس کائنات کو بنانے والے نے اسکی تخلیق کو جس مدلل انداز میں ترتیب دیا ہے اسے سمجھنے کے لیئے شرط صرف تفکرون کی ہے. اسی منصوبہ بندی کا یہ ایک اہم حصہ ہے اوریہ کوئی اتفاق نہیں کہ ھجری کیلنڈر کے حوالے سے اسلامی سال کا اختتام بھی قربانی کی یاد سے ہوتا ہے اور آغاز بھی قربانی کی یاد سے۔
ایک وہ قربانی جو حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی پیش کی لیکن پروردگار نے اس قربانی کو یوں قبول کیا کہ باپ نے جب بیٹے کے گلے پر چھری چلائی تو یہ بیٹا نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا دنبہ تھا اور دوسری قربانی نواسہ رسول اور انکے خانوادے، عزیزوں اور اصحاب کی کہ کربلا کی تپتی ہوئی زمین پر جب باپ نے 18 سال کے کڑیل نوجوان کا لاشہ خود اٹھایا اور 6 ماہ کے شیر خوار بیٹے کی قبر خود کھودی.اور اب دونوں حُرمت کے مہینوں کے درمیان ہماری ساری زندگی محصور ہے یا پھر یوں کہیں دو عظیم قربانیوں نے ہماراحصار کر رکھاہے۔بقول علامہ اقبال.’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم۔۔ نہایت اسکی حسین ابتدا ہے اسماعیل.‘‘یہ دونوں عظیم قربانیاں اپنی اپنی جگہ ذبح عظیم ہیں اور دونوں دینِ برحق کی شہادت کی امین. یہ عجیب سوہانِ روح حقیقت ہے کہ ادھر محرم آیا اُدھر پاکستان میں بالخصوص اور دیگر اسلامی ممالک میں سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی خبریں آنے لگتی ہیں.انتظامیہ کے اجلاس ہونے لگتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ایامِ یادِ حسین نہیں جیسے کسی حملے کے ایام آ گئے ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کیئے جانے والے ایسے ملک سے تو یہ خدا و رسول کو نہ ماننے والے مغربی اور دیگر ممالک ہی اچھے ہیں جہاں نہ کسی جلوس عزاداری کے لیئے سرکار کے لائسینس کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہاں سیکورٹی کے ادارے چوکس ہو جاتے ہیں کہ اب کربلا والوں کی یاد منائی جائے گی تو کوئی بم چل جائے گاسچ تو یہ ہے کہ وہ قربانیاں جو انسان کی اور اسکی فکر کی آزادی کے لیئے تھیں انہی قربانیوں کو متنازعے بنا کر ہم نے دین کی اور اسلام کی کیا خدمت کی ہے ہماری شرمندگی اور ندامت کے لیئے یہی ایک سوال کافی ہے.اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی مملکت پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان،ہنگو،پارہ چنار میں اسلام کے نام پر ہی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون کرے،ایک دوسرے کو کافر کہے،مسجدوں اور امام بارگاہوں میں نمازیوں کو مارا جائے،قرآن کی بے حرمتی کی جائے اور اس کے بعد بھی ہم خود کو مسلمان کہیں، حضور کے اُمتی ہونے کا دعویٰ کریں یہ سب ایک ڈھونگ،جھوٹ اور تماشہ ہے.ہم نے تو ان عظیم ہستیوں کے ساتھ بھی ظلم کیا ہے جن کو اللہ پاک نے ہماری بخشش کا ضامن بنایا تھا اور اس کی پاداش میں اگر جہنم میں بھیجیں جائیں تو اسے بھی اُس غفورالرحیم کی رحمت اور بخشش سمجھیں کہ شاید اُس جہان میں اس سے نیچا کوئی طبقہ نہ ہو.ایسے لوگوں کے لیئے تو جہنم سے بھی برتر کوئی مقام ہونا چاہیئے.میں کسی مسلک کے پیروکار کی حیثیت سے نہیں ایک عام مسلمان اور صرف مسلمان کی حیثیت سے اپنے دل کا درد بیان کرتا ہوں جو صرف میرا درد نہیں بلکہ ایک بہت بڑی غالب اکثریت کا درد ہے کہ ہم چند مٹھی بھر ایسے لوگوں کے یرغمال کیوں بنے ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں اسلام جیسے امن و سلامتی کے داعی دین کو دہشتگرداور ایک فرسودہ اور جدید عہد کے تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکنے والے دین کے طور پر مشہور کروا رکھا ہے .مجھے عالمی سازشوں اور اسلام دشمن قوتوں کا بھی بخوبی ادراک ہے لیکن اس سے کون انکار کرے گا کہ خود ہم اپنے ممالک میں ایک مسلمان دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کے عبادت گاہوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں.بہت آسان ہے اسکا الزام کسی تیسری قوت پرعائد کر دینا اور بہت مشکل ہے اپنے جرم کو قبول کرنا.ہم کہتے تویہی ہیں کہ ایک اللہ،ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں لیکن اگر یہ ہے بھی تو بس کہنے کی حد تک ہے عمل کا نام و نشان نہیں جبکہ اسلام تو اول و آخر عمل ہی عمل ہے.
میں کوئی عالم،مذہبی رہنما،کسی تحریک کا رکن یا کوئی نام نہاد دانشور نہیں ایک عام آدمی ہوں اور ایک عام آدمی جو سوچتا ہے اور کہہ نہیں سکتا یا پھر لکھ نہیں سکتا اُسی کی بات لکھ رہا ہوں۔میرے لیئے تو یہ غم اور دُکھ ہی کافی ہے کہ میںیوم عاشور کے موقع اس دکھ کا اظہار کر رہا ہوں کہ بکھرے ہوئے قبیلوں اور قوموں کو ایک تسبیح میں پرونے والے آخری نبی کی اُمت خود فرقوں میں بٹ چکی ہے اور مجموعی دین کہیں کسی عرب کے نہیں بلکہ عجم کے صحرا میں گُم ہوتا جا رہا ہے.ہم کتنے تنگ دل ،کم نظر اور ناعاقبت اندیش ہیں کہ وہ رسولِ ختمی مرتبت جسے خود خالق کائنات نے اِس یا اُس جہان کے لیئے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا تھا اُس نبی کو ہم صرف مسلمانوں کا نبی کہہ کے محدود کرتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اُس رسولِ برحق اور ختم المرسلین کی اولاد،آل،اہلبیت اوراصحاب کو فرقوں سے منسلک کرتے ہیں.ہم نے ان لامحدود ہستیوں کو محدود کرنے کا جو جرم کیا ہے ہماری مغفرت نہ ہونے کے لیئے یہی ایک جرم کافی ہے اور اس پر بھی نازہمیں اس بات پرہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سے اُسکی اُمت کی بخشش کا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ بے شک اپنے وعدے سے نہیں پھرتا اور ہر اذان کے بعد دعا میں ہم اس عادل عدیل کو اسک وعدہ یہ کہہ کر یاد بھی دلواتے رہتے ہیں کہ 'ہمیں یقین ہے کہ تو اہنے وعدے کو فراموش نہیں کرے گا'.میں نہیں تسلیم کرتا کہ وہ عادل و عدیل ایسی قوم اور ایسے افراد کو بھی بخش دے گا جنہوں نے اسکے بنائے ہوئے رحمت کُل کو رحمت المسلمین بنا کر رکھ دیا.جنہوں نے اس رسول کی اُس بیٹی کو مسلک کی سولی چڑھا دیا جسکی تعظیم کے لیئے رحمت دو جہاں خود اٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے.ہم نے انکے نواسوں کو جنہیں وہ اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتے تھے مسالک میں تقسیم کردیا.کیا 61ھجری کی کربلا کسی مسلک کی تھی، کسی خاص دین کی تھی؟ نہیں !امام حسین اور رسول کے خانوادے کا صرف اسلام پر نہیں پوری کائنات پر حشر تک کے لیئے احسان ہے ورنہ غریب زندہ نہ رہتا اور ملوکیت ہر عہد میں اپنا خراج وصول کرتی رہتی. 10 محرم 61 ھجری کو کربلا ختم نہیں ہوئی شروع ہوئی تھی اور آج بھی ہر وقت کے یزید کو شکست دینے کے لیئے حوصلہ ہمیں کربلا سے ہی ملتا ہے.کربلا جس نے قلت و کثرت کے معنی بدل دیئے جس نے حق و باطل کا معیار طے کر دیا اور جس نے بے زبان کو زبان دی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ دیا.کشمیر۔چیچنیا اور مجموعی طور پر فلسطین کےں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا یا ہو رہا ہے اس پر اب فراموشی کی چادر تن چکی ہے لیکن جو جو اسوقت غزہ میں ہو رہا ہے وہ تو زندہ تاریخ کا ہولناک باب ہے جہاں ایک طرف شیطانی طاقت کا ایسا استعمال اور دوسری طرف غزہ کے نہتے لوگ۔۔۔۔اور عالمی برادری جیسے سوئی ہوئی اور مسلم ممالک خاص طور پر عرب ممالک کے ضمیر فروش اور قوم فروش حکمران اپنے مفادات اور حکومتیں بچانے کے چکر میں مہر بلب۔آج اسرائیل اپنے آقا امریکہ کی پشت پناہی سے اور خلیجی حکمرانوں کی منافقانہ اعانت سے جو سلوک معصوم بچوں اور خاص طور پر خواتین کے ساتھ کر رہا ہے اور غزہ کے بچوں اور عورتوں کو ایک منسوبہ بندی کے ساتھ ختم کر رہا ہے تو کسی بھی حکمران کے منہہ سے دو بول 'لعنت' کے کیوں نہیں نکل رہے؟اس رویے کی ایک بڑی وجہ فکر کربلا اور فکر حسین کے ساتھ ساتھ حق کا ساتھ دینے اور جذبہ حریت کو فراموش کرنا ہے۔میں نے اس سے پہلے بھی کہیں ایک بات لکھی تھی اسے پھر دوہرا دوں کہ’’ امام حسین نے یزیدِ وقت کو بیعت کے سوال پر یہ جواب نہیں دیا تھا میں حسین تجھ یزید کی بیعت نہیں کرتا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ امام وقت کے الفاظ یہ تھے کہ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا‘‘. اگر امام یہ کہتے کہ حسین یزید کی بیعت نہیں کرتا تو پھر یہ دو ذاتوں تک محدود رہتا لیکن انہوں نے جو الفاظ استعمال کیئے وہ رہتی دنیا تک ایک معیار بن گئے جس سے ہر قوم ہر بشر اور ہر انسان فیض یاب ہو سکتا ہے.یزید کسی فرد کا نام نہیں ایک رویے کا نام ہے اور اسی طرح حسین کسی ایک فرد کا نہیں ایک مشن، ایک مقصد اور ایک نظریے کا نام ہے .امام نے یہ فقرہ کہہ کر رہتی دنیا تک کے لیئے اس معیار کے سرٹیفکیٹ پر مُہر لگادی کہ فکرِ حسین کبھی بھی فکرِ یزید کے سامنے سر نگوں نہیں ہو گی .اللہ کے لیئے،رسول کے لیئے اس فرقہ بندی کی لعنت کو ختم کریں اگر مسلمان کے طور پر ممکن نہیں رہا تو پھر کم از کم ایک انسان کے طور پر ایک دوسرے کی جان کا،مال کا اور عزت کا احترام کریں. ایک اللہ،ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس غفور الرحیم سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ کوئی قوم اپنے ہی شہیدوں کی قربانیوں کو ایسے ضائع نہیں کرتی جیسے شاید ہم کرنے کے سزاوار ہیں.
'حسین آؤ کہ اب شہادت کا
source : abna24