خُلُق: (انّ ھٰذا الا خُلُق الاولین)(١)
یعنی بے شک یہ راستہ وہی پہلے والوں کا راستہ ہے، آیۂ کریمہ میں خُلُق سے مراد راستہ لیا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ ،گذرے ہوئے لوگوں کی سیرت پر چل رہے ہیں۔
خُلُق:(وانک لعلیٰ خُلُق عظیم) (٢)
رسول اسلام ۖ سے خطاب کیا جارہا ہے کہ اے میرے حبیب! آپ خلق عظیم پر فائز ہیں، اس آیت میں خلق سے مراد ''اخلاق اور حسن سیرت'' کو لیا گیا ہے۔
خَلاق:(.........فأستمتعوا بخلاقھم فأستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلٰقھم.........)(٣)
منافقوں سے خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ تم ویسے ہی لوگ ہو جیسے تمھارے بزرگ تھے (اور راہ نفاق پر گامزن تھے بلکہ) وہ تم سے زیادہ طاقتور تھے اور ان کے پاس دولت وثروت اور اولاد بھی زیادہ تھی(لیکن) انھوں نے بے جا (ھواوھوس) میں صرف کیا اور تم بھی انھیں کی راہ پر چل دیئے، ان لوگوں نے مومنین کا مضحکہ کیا اور تم بھی مومنین کو مضحکہ کی آماجگاہ گردانتے ہو، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا وآخرت میں ان کے اعمال برباد ہو گئے (یعنی ان کے اعمال نے انھیں نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ پہونچایا اور نہ ہی آخرت میں) اور وہ لوگ خسارہ میں ہیں۔
……………………………………
(١)سورۂ شعراء/ ١٣٧
(٢)سورۂ قلم/٤
(٣)سورۂ توبہ/٦٩
اس آیت میں بھی ''لفظ خلاق'' پیروی اور اتباع کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ارشاد ہو رہا ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے گذشتگان کی پیروی کرتے ہوئے ہلاکت کے منھہ میں جا رہے ہیں۔
خَلاق:(.....ولقد علموا لمن اشتراہ مالہ فی الآخرة من خلٰق.......)(١)
یہودیوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد ہو رہا ہے کہ جناب سلیمان ـ کے زمانہ میں ان لوگوں نے شیطان کی پیروی کی .........انھوں نے ان حصوں کو لے لیا کہ جو انھیں بالکل فائدہ نہیں پہونچاسکتے اور نقصان ہی نقصان ہوتا ہے درحالانکہ وہ لوگ یہ جانتے تھے کہ ایسی خریداری، آخرت میں نفع بخش ثابت نہیں ہوگی( آیۂ مذکورہ میں ''خلاق'' سے مراد فائدہ اور بھلائی ہے جو خُلق اور اخلاق کے ذیل میں آتا ہے)
خَلاق:(......فمن الناس من یقول ربنا آتنا فی الدنیا وما لہ فی الآخرة من خلاق)(٢)
...........بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرور دگار! ہمیں دنیا میں نیکی عطا کر لیکن یہ دعا آخرت میں نفع بخش ثابت نہیں ہو سکتی (اس آیت میں بھی ''لفظ خلاق'' سے مراد وہی ہے جو خلق و اخلاق کے ذیل میں آتا ہے یعنی نیکی اور بھلائی)
خَلاق:(ان الذین یشترون بعھداللہ و یمانھم ثمنا قلیلا اولٰئک لا خلاق لھم فی الآخرة.....)(٣)
وہ لوگ جو خدا وند عالم سے کئے ہوئے وعدوں کو کسی بہانے سے توڑ دیتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے.......(اس آیت میں بھی ''لفظ خلاق'' اخلاق اور حسن خُلق کے معنی میں استعمال ہوا ہے)
اگر ان تمام مشتقات اور سیرت کے تما م مشتقات کو ایک جگہ جمع کرکے غورو خوض کیا جائے تو اخلاق اور سیرت میں کوئی فرق نہیں ہے اخلاق وہی ہے جو سیرت ہے اور سیرت وہی ہے جو اخلاق ہے(عادات و اطوار ، طور طریقہ اور رفتار و گفتار کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں )
……………………………………
(١)سورۂ بقرہ/١٠٢
(٢)سورۂ بقرہ/٢٠٠
(٣)سورۂ آل عمران/٧٧
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3826&link_book=holy_prophet_and_ahlul_bayt_library/holy_prophet/akhlaq_wa_seerat_khatm