اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں

واقعہ کربلا ۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی عمر ۲۲ سال کی تھی جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ھوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔ نھیں کھا جاسکتاکہ راستہ ھی میں یاکربلا پھنچنے کے بعد کھاں بیمار ھوئے اور دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شھادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا . اور یقین ھے کہ ساتویں سے پانی بند ھونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ھوگیاتھا . ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے ب
امام سجاد(ع) واقعہ کربلا ميں

واقعہ کربلا

  ۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی عمر ۲۲ سال کی تھی جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ھوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ  تھے۔ نھیں کھا جاسکتاکہ راستہ ھی میں یاکربلا پھنچنے کے بعد کھاں بیمار ھوئے اور دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شھادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا . اور یقین ھے کہ ساتویں سے پانی بند ھونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ھوگیاتھا . ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے باھر تھی . عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رھے اسی لئے کربلا کے جھاد میں اس طرح شریک نہ ھو سکے جس طرح ان کے بھائی شریک ھوئے.

 

 قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا . وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ھوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے .ادھر امام حسین علیہ السّلام شھید ھوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اھلیبیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا . اس وقت کااھل حرم کااضطراب، خیام میں تھلکہ اور پھران ھی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ھوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظھار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ھیں مگر کیا کھنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انھوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا .

 

آپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂشکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:لاالٰہ الاَّ اللهُ حقّاًحقاً لاَالٰهَ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالھٰ الاّ الله تعبدًاورقاً(یعنی کوئی معبود نھیں سوائے الله کے جو حق ھے یقیناً حق ھے , کوئی معبود نھیں سوائے ایک الله کے .ایمان اور سچائی کی روسے  کوئی معبود نھیں سوائے ایک الله کے . خدا کے سوا کوئی معبود نھیں ھے،میں اسکی گواھی دیتا ھوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ  ۔

گیارہ محرم کو  فوج دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتھائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رھے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ھوجائے . انھیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارھےتھے .

 

 پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ھوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پھنچا . سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررھے تھے کہ یہ وھی کوفہ ھے جھاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاھزادیاں۔ آج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ھے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ھے . سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتھائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود  بھی ایک کوهِ وقار بنے ھوئے خاموش کھڑے تھے . ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمھارا نام کیا ھے ؟ امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین .,, وہ کھنے لگا:کیا الله نے علی ابن الحسین کو قتل نھیں کیا؟,, امام نے جواب دیا .»وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنھیں لوگوں نے قتل کردیا.,, وہ سرکش جاھل کھنے لگا .''نھیں! بلکہ الله نے قتل کیا"

 

امام نے یہ آیت پڑھی کہ "اَللهُ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا" یعنی الله ھی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ھے اور الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ھے جو سب کے لئے ھے.اس پر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کھا. تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ھے اور فوراً قتل کا حکم دیا . یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کھا کہ مجھ کو بھی اس کے ساتھ  قتل کیاجائے .

 

 سیّد سجاد علیہ السّلام نے کھا کہ پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے . ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میں ال محمد کے بھتے ھوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ھوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سھم جائیں گے مگر بھادر حسین علیہ السّلام کے بھادر فرزند نے تیور بدل کر کھاکہ ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ھے؟ کیا ابھی تک تجھے نھیں معلوم کہ قتل ھونا ھماری عادت ھے اور شھادت ھمای فضیلت ھے ۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنھوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ھوگیا او رثابت ھوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شھادت سے ان کی اولاد و اھل حرم پر کوئی خوف نھیںچھایا بلکہ قاتل  اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ھوچکے ھیں .

 

کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ھوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وھاں کے بازارخاص اھتمام سے سجائے گئے تھے ، تمام شھر میں ائینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں عید مل رھے تھے . اس وقت حسین علیہ السّلام کے اھل حرم جو تکلیف محسوس کررھے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ھے , ایسے وقت انسان کے ھوش وحواس بجانھیںرھتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ھر موقع پر ھدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رھا تھا اموی حکومت کے ایک ھوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا .

 

 اے فرزندِ حسین  کس کی فتح ھوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا . تم کو اگر معلوم کرنا ھے کہ کس کی فتح ھوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت کھی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ھوئی ۔ ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمش کے دروازے پر پھنچا تو ایک بوڑھا سامنے آیا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کھا کہ شکر ھے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ وبرباد کیااو رملک کو تمھارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا . اور خلیفہ وقت یزید کا تم پر غلبہ فرمایا . ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ھم لوگوں سے واقف نھیں.»

 

 فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ آیت قرآن پڑھی ھے"قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیٰ "کھہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اھلبیت  کی محبت کے تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی معاوضہ نھیں مانگتا . بوڑھے نے کھا ھاں یہ آیت میں نے پڑھی ھے , فرمایا وہ رسول کے اھل بیت ھم ھی ھیں جن کی محبت تم پر فرض ھے . یوں ھی خمس والی آیت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ھے اور آیہ تطھیر میں اھلبیت کالفظ ھے یہ سب آپ   نے اس کو یاد دلایا . بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رھا پھر کھا کہ خد اکی قسم تم لوگ وھی ھو ؟ سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا . ھاں قسم بخدا ھم وھی اھلبیت اور قرابتداررسول ھیں. یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا. عمامہ سر سے پھینک دیا . سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کھا .خداونداگواہ رھنا کہ میں آل محمدکے ھر دشمن سے بیزار ھوں . پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا.,, کیا میری توبہ قبول ھوسکتی ھے ؟ فرمایا, اگر توبہ کرو تو قبول ھوگی اور ھمارے ساتھ  ھوگے . اس نے عرض کیا کہ میں اس جرم سے توبہ کرتا ھوں جو میں نے واقف نہ ھونے کی وجہ سے آپ   کی شان میں گستاخی کی .

 

 کوفہ میں دربار ابن زیاد میں اور پھر بازارِ کوفہ میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے سید سجاد علیہ السّلام اور دیگر اھلِ حرم کی دلیرانہ گفتگو، خطبے اور احتجاج وہ تھے جنھوںنے دنیا کو شھادت حسین علیہ السّلام کامقصد بتایا اور اس طرح امام زین العابدین علیہ السّلام نے اس مشن کوپورا کیا جسے امام حسین علیہ السّلام انجام دے رھے تھے .


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی ...
اطاعت و وفا کے پیکر علمدار کربلا کی ولادت با سعادت
قرآن و علم
فاطمہ، ماں کي خالي جگہ
خلاصہ خطبہ غدیر
امام علی(ع)اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا ...
امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض
امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام

 
user comment