جناب آقائے مہدوي بچوں کو عاشورائي معارف سکھانے کي روش کيا ہوني چاہئے؟
ــ ديني تربيت اور بالخصوص حسيني تربيت کے لئے مختلف قسم کي روشوں سے استفادہ کرنا چاہئے- عملي اور عملياتي (آپريشنل) روش ميں شاعري، ترانے، داستانيں اور چھوٹي داستانيں (شارٹ اسٹوريز) بہت مۆثر ہوسکتي ہيں- بچوں کي عمر کے مختلف مراحل ميں ان کے ادراک کي سطح کا ادراک کرکے اسي سطح کے مطابق انہيں تربيت دينے کي ضرورت ہے- شايد دو سالہ بچے کو عاشورا کے درناک واقعات سنانا، درست نہ ہو اور اس کے اثرات بھي اچھے نہ ہوں ليکن اس کي عمر کے تقاضوں کے مطابق ہي اس بحر بے ساحل سے کچھ موتي چن کر اس کے تحفے کے طور پر ديئے جاسکتے ہيں اور اس کو اس کي طفوليت کو مد نظر رکھ کر اہم نکات کي تعليم دي جاسکتي ہے-
ايک موضوع بھي يہ ہے کہ گھر کے اندر حسيني ماحول بنانا ہے اور وہ يوں کہ مثلاً انسان اپنے بچوں کي مدد سے ايک علم يا پرچم نصب کرے اور يوں گھرانے کو محرم کي خوشبو سے آشنا کردے- اگر والد اپنے بيٹوں کے ہمراہ اور والدہ اپني بچيوں کے ہمراہ مجالس عزاداري ميں شرکت کرے، تو يہ بھي بہت مناسب اور مۆثر ہے البتہ خيال رہنا چاہئے کہ ميانہ روي ملحوظ رکھي جائے کيونکہ اگر ہم اس مسئلے ميں افراط اور زيادہ روي کريں تو بچے عاشورا اور حسيني تعليمات سے اکتاہٹ محسوس کرسکتے ہيں چنانچہ وہ روايتي روشيں بھي بہت مۆثر ہوسکتي ہيں جو ہمارے والدين بروئے کار لايا کرتے تھے-
ــ جناب آقائے آقا ميري! ہم عاشورا کو ديني تربيت کے منبع کے عنوان سے کيوں پيش کرتے ہيں؟، گوکہ اس حوالے سے بعظ نکات بيان ہوئے تاہم اس حوالے سے مزيد وضاحت درکار ہے-
---------
تبيان کے دو عہديداروں جناب آقاميري اور جناب مہدوي کے ساتھ مکالمہ
source : tebyan