آپ کا مشهور ومعروف لقب ”سید الشہداء“ ھے۔
آ پ کی ولادت باسعادت ۳ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں هوئی۔ آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، مختلف الملائکہ اور معدن علم میں هوئی۔
آپ بھی اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ھیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اھل الجنة میں سے ایک ھیں، آپ ھی کی ذات ان دو میں سے ایک ھے جن کے ذریعہ ذریت رسول باقی ھے آپ ھی ان چار حضرات میں سے ایک ھیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاریٰ نجران سے مباھلہ کیا اور آپ بھی پنج تن پاک (ع) کی ایک فرد ھیں جن کی شان میں آیہٴ تطھیر نازل هوئی۔
آپ (ع) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گذاری، او رآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اھل بیت (ع) پر پڑیں یھاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو زھر سے شھید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔
اور جس وقت معاویہ کی موت هوئی تو یزید اس کا وارث بنا اوراس نے سب مسلمانوں کو اپنی بیعت کے لئے بلایا، تو ان میں سے بعض لوگوں نے نالائق جوان کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔
چنانچہ آپ کی حکومت وقت سے مخالفت کے تین اھم اسباب تھے:
۱۔ یزید کا مستحق خلافت نہ هونا اور خلافت کی اھلیت نہ رکھنا۔
۲۔ صلح امام حسن علیہ السلام میں جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ پورا هوچکا تھا کیونکہ معاویہ کے ساتھ یہ طے هوا تھا کہ معاویہ کے بعد خلافت آپ (امام حسن (ع)) ھی کے پاس رھے گی او راگر امام حسن (ع) کے لئے کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آ گیا تو ان کے بعد حق خلافت ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام کو هوگا، لہٰذا معاویہ کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین کرنے کاکوئی حق نھیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ معاویہ کے مرتے ھی امام حسین علیہ السلام در حقیقت صاحب خلافت هوگئے تھے کیونکہ معاویہ نے اس معاہدہ پر بھی دستخط کر رکھے تھے۔
۳۔ اس وقت کے حالات اس طرح کے تھے کہ ایسے حالات میں قیام کرنا واجب هوجاتا ھے کیونکہ خود آپ (ع) نے ایک حدیث میں اس طرح اشارہ کیا ھے:
”انی لم اخرج بطراً و لااشراً ولامفسداً ولاظالماً وانما خرجت اطلب الصلاح فی امة جدی محمد (ص) ارید ان آمر بالمعروف وانھیٰ عن المنکر“
(میں کسی فتنہ وفساد اور ظلم کے لئے نھیں نکل رھا هوں بلکہ میں اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا هوں اور میں امر بالمعروف او رنھی عن المنکر کرنا چاہتا هوں)
اسی طرح اپنے شیعوں کے نام ایک خط لکھتے هوئے فرماتے ھیں:
”فلعمری ما الامام الا الحاکم بالکتاب، القائم بالقسط، الدائن بدین الحق، الحابس نفسہ علی ذات الله“
(خدا کی قسم امام کی ذمہ داری یہ هوتی ھے کہ قرآن کے مطابق حکم کرے، عدالت قائم کرے، دین حق کی طرف دعوت دے اور پروردگار کے سامنے اپنے نفس کا حساب کرے)
اس اسباب کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں کا نظریہ باطل هوجاتا ھے جن کی نظر میں امام حسین علیہ السلام خطاکار ھیں جیسے ابوبکر بن عربی وغیرہ ،کیونکہ وہ کہتے ھیں کہ امام حسین کے لئے یزید کی بیعت کرکے خاموش هوجانا بہتر تھا۔
غور کریں کہ کیسے امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بہتر تھا کہ یزید کی بیعت کرکے خاموش هوجاتے جبکہ امام حسین علیہ السلام اپنے اوپر واجب دیکھ رھے تھے کہ قیام کریں اور خود معاویہ نے اس عہد نامہ پر دستخط کر رکھے تھے جس میں امام حسین علیہ السلام کو بیعت نہ کرنے اور سکوت اختیار نہ کرنے کا حق تھا۔
لہٰذا حضرت امام حسین علیہ السلام تاریخ کے اوراق پر فاتح اکبر کے نام سے مشهور ھیں اگرچہ کربلا کے میدان میں ظاھری طور پر آپ کو اور آپ کے لشکر کو تہہ تیغ کردیا گیا جبکہ ان کے قاتلوں پر ھمیشہ تاریخ لعنت کرتی چلی آر ھی ھے، اگرچہ انھوں نے اپنی جنگ میں غلبہ حاصل کیا، بلکہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نھیں ملتی کہ جس میں جنگ میں (ظاھری) غلبہ پانے والوں پر دنیا نے اس طرح لعنت و ملامت کی هو جس طرح قاتلین امام حسین علیہ السلام پر کی ھے.
آپ کی شھادت ۱۰ محرم ۶۱ھ کو عصر کے وقت کربلا میں هوئی اور آپ کربلائے معلی میں دفن ھیں۔
بشکریہ صادقین ڈاٹ کام
source : tebyan