يعني جس چيز کو تو عالم حقيقت کا حجاب سمجھتا ہے وہ رباب کا ايک پردہ ہے جس سے نغمہ ہائے رازِ حقيقت بلند ہيں مگر اس کے تال سر سے تو خود ہي واقف نہيں لطف نہيں اُٹھاسکتا -
رنگ شکستہ صبح بہارِ نظارہ ہے
يہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا
يعني نظارہ اُس کا موسم بہار ہے اور نظارہ سے اُس کے ميرا رنگ اُڑ جانا طلوع صبح بہار ہے اور طلوع صبح بہار پھولوں کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے غرض يہ ہے کہ بروقت نظارہ ميرے منہ پر ہوائياں اُڑتے ہوئے اور مہتاب چھٹتے ہوئے ديکھ کر وہ سرگرم ناز ہو گا يعني ميرا رنگ اُڑ جانا وہ صبح ہے جس ميں گل ہائے ناز شگفتہ ہوں گے -
تو اور سوئے غير نظر ہائے تيز تيز
ميں اور دُکھ ترے مژہ ہائے دراز کا
اس شعر ميں ’ ہائے ‘ يا تو علامت جمع و اضافت ہے يا کلمۂ تاسف ہے ، دونوں صورتيں صحيح ہيں -
صرفہ ہے ضبط آہ ميں ميرا وگرنہ ميں
طعمہ ہوں ايک ہي نفس جاں گداز کا
اس شعر ميں اپني ناتواني و نقاہت اور اپني آہ کي شدت و حدت کا بيان مقصود ہے يعني اگر ضبط کروں تو ايک ہي آہ ميں تحليل ہوکر فنا ہو جاۆں -
ہيں بسکہ جوش بادہ سے شيشے اُچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شيشہ باز کا
شيشہ باز مرد شعبدہ باز کو کہتے ہيں جو کہ شعبدہ دکھاتے وقت ہاتھوں کو اور سر کو ہلاتا ہے اور بساط سے وہ فرش مراد ہے جس کے گوشوں پر شراب کے شيشے چنے ہوئے ہيں -
کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہ نيم باز کا
يعني دل ميرا جو کہ تنگي و گرفتگي سے گرہ ہو کے رہ گيا ناخن غم سے کاوش کا تقاضا کرتا ہے جيسے کوئي اپنا قرض مانگتا ہے اور نيم باز کے لفظ سے يہ ظاہر ہے کہ کاوش غم پہلے بھي ہوئي مگر ناتمام ہوئي -
تاراج کاوشِ غم ہجراں ہوا اسد
سينہ کہ تھا دفينہ گہر ہائے راز کا
يعني اے اسد افسوس دفينہ راز کو غم نے کھودکر نکالا اور تاراج کيا ، حاصل يہ کہ غم نے رُسوا کيا -
source : tebyan