قرآن کریم اللہ تعالی کا پاکیزہ کلام ہے،جو ہدایات ربانی کا منبع اورساری انسانیت کے لئے نسخۂ کیمیا ہے،جس کی آیات بینات سراسر ہدایت اور سراپاشفا ہیں،قرآن پاک کی تعظیم اور اس کا ادب بجالانا ہر ایک پر لازم وضروری ہے کیونکہ شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کو دلوں کا تقوی قرار دیا گیاہے۔آج اعداء دین'مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور ان کے ایمانی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے قرآن کریم کے تقدس وحرمت کو داغدار کرنے کی ناپاک کوششیں کررہے ہیں،کہیں قرآنی نسخوں کو جلایا جارہا ہے اور کہیں پٹاخوں میں قرآنی اوراق استعمال کئے جارہے ہیں،مختلف مقامات پر قرآن کریم کی بے حرمتی کے دلخراش اور کربناک واقعات پیش آرہے ہیں،ایسے وقت ہمارا ایمانی فریضہ ہے کہ ہم متحد ہوکر اس فتنہ کا سد باب کریں۔
قرآن کریم وہ کلام مُعْجِزْ ہے کہ اس جیسا کوئی کلام نہیں،اس کی فصاحت وبلاغت کو دیکھ کر دنیا محو حیرت ہے،اسی لئے ساری دنیا کو چیالنج کیا گیا کہ باہم ایک دوسرے کے معاون ومددگار بن کر قرآن کریم جیسا کلام پیش کرے لیکن عرب وعجم، مشرق ومغرب کے بلند پایہ شعراء وسخن ور،علم وفن ،لغت وادب کے ماہرین بھی اس جیسی ایک آیت پیش کرنے سے قاصر ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے اور یہ کلام بلاغت نظام صبح قیامت تک اپنی مکمل آب وتاب کے ساتھ درخشاں وتابندہ رہے گا۔
پہلے تو یہ چیالنج کیا گیا کہ قرآن کریم جیسی کوئی کتاب لے آؤ،ارشاد فرمایا:قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآَنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا-
ترجمہ:اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمادیجے!اگر تمام انسان اور جن جمع ہوکر اس بات پر آمادہ ہوں کہ اس قرآن کے مانند کوئی کلام بنالائیں تو ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکیں گے،اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو-(سورۃ الاسراء:88)
جب دنیا قرآن جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز ہوگئی تو پھر اعلان کیا گیا کہ قرآن جیسا کوئي کلام نہیں لاسکتے تو کم ازکم قرآن کی طرح دس سورتیں تو لے آؤ،ارشاد الہی ہے: أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۔ فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۔
ترجمہ:کیا منکرین یہ بات کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (قرآن)کو (اپنے دل سے)بنالیا ہے تو تم(جواب میں)کہدو کہ اگرتم اپنے دعوے میں سچے ہوتو تم بھی اسی طرح کی (دس ہی)سورتیں بنالاؤ اور اللہ تعالی کے سوا جس جس کو اپنی مدد کے لئے بلاسکتے ہو بلالو،پھر اگر وہ تمہارا کہنا پوار نہ کریں تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ تعالی ہی کے علم سے اترا ہے اور یہ کہ اس(اللہ تعالی) کے سوا کوئی معبود نہيں-تو کیا(ایسے واضح دلائل کے بعد بھی)تم اسلام لاتے ہو(یا نہیں)-(سورۃ ھود:13/14)
جب قرآن کی طرح دس سورتیں پیش کرنے سے بھی وہ لوگ عاجز ہوگئے تو پھر یہ چیالنج کیا گیا کہ کم ازکم قرآن کی طرح ایک سورت تو بنالاؤ،ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ- فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ -
ترجمہ:اگر تم اس کتاب(قرآن کریم)کے بارے میں کچھ شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندۂ خاص (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )پر نازل کی ہے تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنالاؤ اور اللہ تعالی کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلاؤ اگر تم (اپنے دعوےمیں)سچے ہو،پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو اور ہرگز ایسا نہ کرسکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں،جو منکروں کے لئے تیار کی گئی ہے-(سورۃ البقرۃ:23/24)
پھر سورۂ یونس میں ارشاد فرمایا:
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ-
ترجمہ: ترجمہ:کیا منکرین یہ بات کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (قرآن)کو (اپنے دل سے)بنالیا ہے تو تم(جواب میں)کہدو کہ اگرتم اپنے دعوے میں سچے ہوتو تم بھی اسی طرح کی ایک سورت بنالاؤ اور اللہ تعالی کے سوا جس جس کو اپنی مدد کے لئے بلاسکتے ہو بلالو-(سورۃ یونس:38)
جب وہ لوگ قرآن کریم کی طرح ایک سورت بھی نہ لاسکے تو پھر اعلان کیا گیا کہ کم از کم قرآن کی آیتوں کی طرح کوئی ایک آیت پیش کرو،ارشاد خداوندی ہے:
أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَلْ لَا يُؤْمِنُونَ . فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ .
ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود قرآن بنالیا ہے،(نہیں)بلکہ یہ لوگ ایمان نہيں لاتے ،اگر یہ سچے ہيں تو اس طرح کی کوئی آیت بنالائيں-(سورۃ الطور:33/34)
قرآن کریم کی اہانت اور اس کی بے حرمتی کرنا یہ دشمنان اسلام کا شیوہ رہا ہے،جب انہوں نے دیکھا کہ وہ قرآن کے مقابل کوئی کتاب تو نہيں لاسکتے اور دن بدن لوگ قرآن کی حقانیت کو دیکھ کر مشرف بااسلام ہوتے جارہے ہیں،جو شخص قرآن کریم سنتا اس کے دل میں انقلاب بپاہوجاتا-اس کو روکنے کے لئے انہوں نے تدبیر کی کہ جب قرآن کی تلاوت کی جارہی ہو تو اس وقت شور وغل مچایا جائے تاکہ کوئي قرآن کریم نہ سن سکے،ان کی اس تدبیر سے متعلق اللہ تعالی نے قرآن کریم میں آگاہ کیا اور فرمایا کہ ہم ان کی اس حرکت پر انہيں سخت عذاب میں مبتلا کریں گے،ارشاد الہی ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآَنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ . فَلَنُذِيقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ ۔ذَلِكَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ لَهُمْ فِيهَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَاءً بِمَا كَانُوا بِآَيَاتِنَا يَجْحَدُونَ .
ترجمہ:اور منکر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب اسے پڑھا جائے تو)تم شور مچایا کرو تاکہ تم غالب رہو،(اللہ تعالی فرماتاہے)تم ہم بھی منکروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور ان کے برے اعمال کی سزا دیں گے جو وہ کرتے ہیں،یہ اللہ تعالی کے دشمنون کی سزا ہے(یعنی دوزخ کی)آگ،ان کے لئے اسی (جہنم)میں ہمیشہ کا گھر ہے،یہ اس کی سزا ہے جو ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے-(سورۃ فصلت(حم السجدۃ):26/28)
قرآن کریم ہر قسم کے تعارض سے پاک
قرآن کریم سرچشمہ ہدایت ہے ،جو' ہرقسم کے تناقض وتضادسے پاک ہے ، سورة الکہف میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا .
تمام تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی-(سورۃ الکھف:1)
قرآن کریم تعارض وتضاد سے پاک ہے، انسان کی تصنیف کردہ کتاب میں تعارض وتضاد ہوسکتا ہے لیکن "قرآن" کلام رحمن میں کوئی تناقض نہیں ہوسکتا کیونکہ قرآن کریم کی کوئی آیت کسی آیت کی معارض نہیں بلکہ ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر ہے-
سورۂ نساء کی آیت نمبر:82 میں ارشاد الہی ہے:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ۔
ترجمہ:کیا یہ لوگ قرآن کریم میں غور و فکر نہيں کرتے،اور اگر قرآن غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے-(سورۃ النساء:82)
قرآن کریم میں تعارض واختلاف کیسے پایا جاسکتا ہے جبکہ اس مقدس کتاب نے وحدت امت کی تعلیم دی،اختلاف وانتشار کی زہرآلود فضا کا خاتمہ کیا اور ساری انسانیت کو اتحاد ویکجہتی کا پیام دیا،قرآن کریم کے انہیں محاسن اور تعلیمات اسلامیہ کی پاکیزگی کی بدولت کشاں کشاں لوگ دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے،ان کے داخل اسلام ہونے کا سبب،دین اسلام کی صداقت اور قرآن کی حقانیت ہے-
اللہ تعالی قرآن کریم کا محافظ
دیگر کتب سماویہ کو نازل کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ان کی حفاظت کاذمہ نہیں لیا بلکہ اسی امت کے علماء ربانیین کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سپرد کی،جیساکہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر44 میں ہے: وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ-
ترجمہ:اور عالم وفقیہ کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئےاور وہ اس پر گواہ تھے-(سورۂ مائدہ:44)
اور قرآن کریم چونکہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم پر نازل کیا گیا اور اس کے احکام وقوانین تاقیام شمس وقمر رہنے والے ہیں اسی لئے اللہ تعالی نے خوداس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے،ارشاد الہی ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ-
ترجمہ:بے شک ہم ہی نے اس ذکر(قرآن)کو نازل کیا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے-(سورۂ حجر:9)
قرآن کریم باعتبار نزول بھی امتیازی حیثیت کا حامل ہے، حضرت موسی علیہ السلام کو الواح تورات تحریری شکل میں دئے گئے اور قرآن کریم کو اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم کے قلب مقدس پر نازل فرمایا –
آیات قرآنیہ میں حقائق ومعارف،اسرار ورموز کا ایک عظیم سمندرہے،یہی وجہ ہے کہ آج تک مختلف زبانوں میں قرآن کریم کی تفسیر کی جاتی رہی ہے،اور حقیقت تو یہ ہے کہ کسی ایک آیت کریمہ کی بھی تفسیر کا مکمل حق ادا نہ کیا جاسکا-
قرآن کریم کی بے حرمتی ناقابل برداشت حرکت
قرآن کریم کا ادب واحترام کرنا ہر ایک پر لازم ہے،کلام پاک کی بے حرمتی ناقابل برداشت حرکت ہے،مسلمان صرف قرآن کریم ہی کی تعظیم نہیں کرتا بلکہ وہ تمام شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توریت کا احترام کیا ،حالانکہ وہ تحریف شدہ تھی لیکن آپ نے اس کی نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی تعظیم کی-
سنن ابو داود میں حدیث شریف ہے:
ایک مرتبہ چند یہودحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورایک مسئلہ میں فیصلہ فرمانے کے لئےآپ سے درخواست کی، آپ ان کے ساتھ تشریف لے گئے، انہوں نے آپ کے لئے ایک مسند بچھائی تھی، آپ اس پر تشریف فرماہوئے، پھر انہوں نے عرض کیا کہ ہم میں سے ایک شخص نے کسی عورت کے ساتھ زنا کیا ہے اس سلسلہ میں آپ حکم فرمائیں کہ کیا سزا دی جائے۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے توریت منگوائی جب وہ لائی گئی تو آپ مسند سے علحدہ ہوکر اس پر توریت رکھ دی،پھر آپ نے اس گناہ کی سزاسنائی۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَتَى نَفَرٌ مِنْ يَهُودَ فَدَعَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى الْقُفِّ فَأَتَاهُمْ فِى بَيْتِ الْمِدْرَاسِ فَقَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ رَجُلاً مِنَّا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ فَوَضَعُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ : ائْتُونِى بِالتَّوْرَاةِ . فَأُتِىَ بِهَا فَنَزَعَ الْوِسَادَةَ مِنْ تَحْتِهِ فَوَضَعَ التَّوْرَاةَ عَلَيْهَا.
( سنن أبى داود، کتاب الحدود،باب فى رجم اليهوديين.حدیث نمبر4451)
باوجود یہ کہ اس زمانہ میں توریت تحریف و تصحیف سے خالی نہ تھی مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا بھی ادب کیا۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور کعبۃ اللہ شریف میں داخل ہوئے تو تمام بت سر کے بل گر گئے،آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کعبہ کے اندر چند تصاویر رکھی ہوئی ہیں،ان میں ایک تصویر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب تھی،جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ میں فال کے تیر رکھے ہوئے تھے،آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے معطر زعفران منگواکر اس تصویر کو مٹادیا ۔
دین اسلام وہ مذہب مہذب ہے جو دیگر مذاہب کے معبودان باطلہ کے خلاف کہنے اوران کو سب و شتم کرنے سے بھی منع کرتا ہے،ارشاد الہی ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔
ترجمہ:جو اللہ تعالی کے سوا جن معبودوں کی پرستش کرتے ہیں تم ان کو برا بھلا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی حد سے متجاوز ہوکر جہالت میں اللہ تعالی کو برا بھلا کہنے لگیں۔(سورۃ الانعام108)
جب کوئی مسلمان کسی مذہبی کتاب کو نذر آتش نہيں کرتے،اسے پیروں تلے نہیں روندتے ،اس کے اوراق کو پارہ پارہ نہیں کرتے ، تو پھرکسی اور شخص کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن کریم کی بے حرمتی کرے؟قرآن کریم کی بے حرمتی ایک سنگین جرم ہے۔
آج اغیار جو شرانگیزیوں پر اتر آئے ہیں ان کے اس قدر جر أت مند ہونے میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض مسلمان بھی نادانستہ طور پر قرآن کریم کی بے ادبی کرتے ہیں،یہ اعداء دین کی ایک سازش ہے کہ بتدریج مسلمانوں کے دلوں سے شعائر اسلام کا تقدس اور ادب کو ختم کیا جائے،پہلے توبےوضو قرآن کے چھونے کو جائز قرار دیا گیا،پھر قرآن کو پیروں پر رکھ کر پڑھا جانے لگا ہے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کریم کے ظاہری ادب کے ساتھ اس کا حقیقی ادب بھی بجالائیں،قرآن کریم کوصرف طاقوں میں سجاکر نہ رکھیں بلکہ اس کی تلاوت کا اہتمام کریں اور اپنی زندگی قرآنی احکام کے مطابق گزاریں۔
source : http://www.ziaislamic.com/interface/news2descr.php?idds=209